حمد
تاج ا لدین اشعرؔ رامنگری
آری سکھی کس سوچ میں ہے، چل اس سجنا کے دوار چلیں
اس نے ہم کو یاد کیاہے،اس پر تن من وار چلیں
…
اس کی پاکی کے گن گائیں مستی میں سرشار چلیں
اس کی خوشی کی خاطر آؤ چھوڑ کے سب گھر بار چلیں
…
دل کا فرض بھی پورا ہو ،سر کا بھی قرض اتار چلیں
اس کے ملن کی شبھ بیلا ہے کرکے سات سنگھار چلیں
…
مست پون کے جھونکوں میں ہے خوشبواس من موہن کی
چلو جہاں تک ملتی جائے زلفوں کی مہکار چلیں
…
پلکوں پرکچھ موتی رکھ لیں،ہونٹوں پر تسبیح کے پھول
الجھن میں ہیں اس کیلئے لیکر کیا کیا اپہار چلیں
…
اپنے اونچے سنگھاسن سے آج وہ نیچے اترا ہے
جس کا داس ہے سارا جگ،اس راجہ کے دربار چلیں
…
دل ہو اس کی یادکا درپن ،آنکھوں میں درشن کی پیاس
جدھر پکارے ہم کو سجنا،ہم دیوانہ وار چلیں
…
پریم ہے دل میں اس کی دھروہر،اس پر کوئی آنچ نہ آئے
دو دن کی جیون کی بازی جیت چلیں یا ہار چلیں
…
در در کی کیوں ٹھوکر کھائیں،کس سے دل کا درد کہیں
جو سب کی سن نے والاہے اب اس کے دربار چلیں
…
ہم نہ چلیں اس کی مرضی پر پیار کی یہ رسوائی ہے
اس کا اشارہ پاکر تو دریا کیا ہیں کہسار چلیں
…
کچی ماٹی کی یہ کایاگل بھی جائے تو کیا غم ؟
اس کے ملن کو اشعرؔ مایا کی ندیا کے پار چلیں
تبصرے بند ہیں۔