حمد

تاج ا لدین اشعرؔ رامنگری

آری سکھی کس سوچ میں ہے، چل اس سجنا کے دوار چلیں
اس نے ہم کو یاد کیاہے،اس پر تن من وار چلیں

اس کی پاکی کے گن گائیں مستی میں سرشار چلیں
اس کی خوشی کی خاطر آؤ چھوڑ کے سب گھر بار چلیں

دل کا فرض بھی پورا ہو ،سر کا بھی قرض اتار چلیں
اس کے ملن کی شبھ بیلا ہے کرکے سات سنگھار چلیں

مست پون کے جھونکوں میں ہے خوشبواس من موہن کی
چلو جہاں تک ملتی جائے زلفوں کی مہکار چلیں

پلکوں پرکچھ موتی رکھ لیں،ہونٹوں پر تسبیح کے پھول
الجھن میں ہیں اس کیلئے لیکر کیا کیا اپہار چلیں

اپنے اونچے سنگھاسن سے آج وہ نیچے اترا ہے
جس کا داس ہے سارا جگ،اس راجہ کے دربار چلیں

دل ہو اس کی یادکا درپن ،آنکھوں میں درشن کی پیاس
جدھر پکارے ہم کو سجنا،ہم دیوانہ وار چلیں

پریم ہے دل میں اس کی دھروہر،اس پر کوئی آنچ نہ آئے
دو دن کی جیون کی بازی جیت چلیں یا ہار چلیں

در در کی کیوں ٹھوکر کھائیں،کس سے دل کا درد کہیں
جو سب کی سن نے والاہے اب اس کے دربار چلیں

ہم نہ چلیں اس کی مرضی پر پیار کی یہ رسوائی ہے
اس کا اشارہ پاکر تو دریا کیا ہیں کہسار چلیں

کچی ماٹی کی یہ کایاگل بھی جائے تو کیا غم ؟
اس کے ملن کو اشعرؔ مایا کی ندیا کے پار چلیں

تبصرے بند ہیں۔