مومنو! تم کو مبارک آمد ماہ صیام

لقمان عثمانی

جبکہ آسمان شعلہ باری کررہا ہے اور زمین آگ اگل رہی ہے، ہر طرف گرم موسم کی جھلسا دینے والی لو کا راج ہے اور بادِ تند کے تھپیڑوں میں سموم کی کارفرمائی ہے؛ ایسے ناگوار و دشوار گزار لمحات میں روزہ داروں کے ولولۂ شوق کے کیا کہنے؛ جن کے پاس کھانے کو روٹی بھی ہے اور پینے کو پانی بھی؛ تاہم حکمِ پروردگارِ عالم کی تعمیل میں خود کو اس طرح جھونک دیا ہیکہ چہرے چوبِ خشک کی طرح سوکھے پڑے ہیں، منہ سے پھپھولے نکل رہے ہیں اور زبانیں تلاوتِ کلام پاک کی روح پرور صداؤں سے سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں؛ کیوں کہ رمضان رحمت و مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے، عبادت و ریاضت کا ایک ایسا موسمِ بہار ہے؛ جس کا ہر ایک مسلمان کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے؛ اسکے آتے ہی سب کی آنکھیں احساسِ ندامت کے مارے بہنے کو بے تاب ہوجاتی ہیں، مسلمان خود کو تمام گناہوں سے دور رکھنے کی مکمل کوشش کرنے لگتا ہے، اپنی خواہشات کے دریا کے تلاطم اور اسکے سمند کی لہروں پر صبر کا باندھ باندھ کر سکون بخشنے لگتا اور بھوک، پیاس کی شدت اور اسکی تپش کو برداشت کرتا ہے؛ تاکہ اپنے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکے اور اللہ کی عبادت میں ہمہ وقت مشغول رہ کر خود کو جنت کا حقدار بنا سکے۔

گویا ماہِ رمضان اللہ تعالی کی طرف سے تمام مسلمانوں کیلئے ایک خاص آفر ہے؛ جو متعین و محدود وقت تک کیلئے ہے؛ کیوں کہ رمضان میں اللہ تعالی روزہ داروں پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں اور انکے تمام گناہوں کو انکے بھوک، پیاس اور شہوانی خواہشات کی آگ میں جلا کر ختم و بھسم کر دیتے ہیں ـ منادیِ حق تعالی اوامر کی طرف ترغیب دیتے ہوئے ”يا باغي الخير أقبل“ کی ایمان پرور صداوں سے انکے پست حوصلے اور بجھے ہوئے جذبے کو سلگاتا، بلکہ بھڑکاتا ہے تو دوسری طرف نواہی سے باز رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے ”يا باغي الشر أقصر“ کی ترہیبی صدا بلند کرتا ہے ـ

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مبارک کو عبادت و ریاضت، زہدو اطاعت، اور صبرو استقامت کے ساتھ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے میں گزارتے ہیں اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس انوکھے آفر کا فائدہ نہ اٹھا کر لغویات و واہیات، فضول گوئی و بد کلامی، شرور و فتن، عیاشی و اوباشی اور گناہوں کے دلدل میں گنوا دیتے ہیں اور اسکی حرماں نصیبی پر شک ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس ماہِ مبارک میں بھی خدا کی خوشنودی حاصل نہ کر پانے والوں کی ہلاکت کی بد دعا  بھی فرمائی ہے؛ مزید برآں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "آمین” بھی کہا ہے؛ لیکن رمضان کی برکت ہی کچھ ایسی ہے کہ کوئی کتنا بھی سخت دل اور بھٹکا ہوا کیوں نہ ہو، اس ماہ مبارک کے آتے ہی سب کو توفیق مل ہی جاتی ہے اور روزے کے ساتھ ساتھ نماز کا بھی اہتمام کرنے لگ ہی جاتے ہیں۔

رمضان کے شروع ہوتے ہی ایک طرف شیاطین کو قید کیا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں اپنی خواب غفلت سے رہائی نصیب ہوتی ہے اور پنج وقتہ نماز کے ساتھ تراویح، یہاں تک کہ تہجد کے بھی پابند ہوجاتے ہیں اور اپنی تمام خطاؤں پر شرمسار ہوکر سسکیاں لیتے اور ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے، اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہوئے اپنے رب کو منانے، انہیں راضی کرنے، اور انکی خوشنودی حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں ـ ان میں سے بعض تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسجد میں صرف جمعہ کی نماز کیلئے بطور مہمان آتے ہیں اور پھر یوں دم دبا کر فرار ہوتے ہیں کہ گویا اسکے بعد پورے ہفتے کیلئے "بائے بائے” کہہ گئے ہوں؛ لیکن رمضان کی آمد اک الگ طرح کے ولولۂ شوق و جنونِ اشتیاق کے ساتھ ہوتی ہے؛ جو خوابیدہ روحوں کو نئی زندگی عطا کرتی ہے:

لیکے اب روح فلک آیا ہے خوشیوں کا پیام

مومنو تم کو مبارک آمدِ ماہ صیام

اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہیں ان میں سب سے پہلی بنیاد "توحید” ہے جو اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے؛ جس میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا کھلا اعلان ہوتا ہے، کہ اللہ وہ ہے جسکا کوئی شریک نہیں، جسکا کوئی ساجھی اور ہمسر و مددگار نہیں، وہ تنہا اور اکیلا ہے۔ دوسری بنیاد "نماز” ہے جو اللہ تعالی سے تعلق پیدا کرتی ہے؛ جو کہ بندے اور اللہ تعالی کے درمیان کا معاملہ ہے۔

 تیسری بنیاد "روزہ” ہے جو محبت کی انتہا اور اللہ تعالی سے عشق کا ثبوت ہے؛ کہ بندے کے پاس لذیذ اور مزیدار کھانا موجود ہوتا ہے، اگر چاہے تو کھا سکتا ہے؛ لیکن نہیں کھاتا، انکے پاس میٹھے مشروبات بھی موجود ہوتے ہیں اگر چاہے تو پی سکتا ہے؛ لیکن ہاتھ تک نہیں لگاتا، یہ عشق نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ نیز چوتھی بنیاد ـ زکوٰة” ہے جو اللہ سے محبت میں اضافے کا سبب اور ذریعہ ہے؛ کیوں کہ جب کوئی کام مفت میں ہو تو اسکی اہمیت نہیں رہتی اور جب پیسے لگ جائیں تو اسکی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ـ اور پانچوی بنیاد "حج” ہے جو اللہ تعالی کی دیدار ہے، اسکے گھر کا دیدار ہے؛ لیکن روزے کا درجہ سب سے بڑھ کر ہے؛ کیوں کہ روزہ دار ہر چیز کے مہیا ہونے اور ہر سہولت کے فراہم ہونے کے باوجود اللہ تعالی کے ایک اشارے پر خود کو بھوک اور پیاس کی تپش میں جھلسا دیتے ہیں، جان کاہی کی معراج تک پہنچ جاتے ہیں؛ لیکن اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتے اور یہ سب اللہ تعالی سے فرط محبت اور عشق کی بنا پر ہی ہوتا ہے:

چشم بار ہو کہ مہمان آ گیا

دامن میں الہی تحفہ ذیشان آ گیا

بخشش بھی، مغفرت بھی،جہنم سے بھی نجات

دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آ‌گیا

تبصرے بند ہیں۔