حکمراں جماعت کے چار سالوں کا حشر

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

آزادی کو تقریبا ستر سال ہوچکے ہیں اس بیچ عوام نے کئی  سیاسی  جماعتوں کو  اقتدار سونپا ہے، جنہوں نے ملک کی تعمیرو ترقی کے لئے اپنے مخصوص فکری زاویئہ کے مطابق جتن کئے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے  کہ آزادی کے بعد سے اب  تک حکمراں جماعتیں   وطن عزیز میں عروج وترقی کے فلسفہ کو فروغ دینے کے بجائے سماجی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کو زد پہنچانے میں زیادہ کامیاب ہوئی ہیں، ملک میں ان گنت فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، دلچسپ بات یہ ہیکہ ابھی تک ملک میں فسادات کی روک تھام کےلئے کوئی قانون مرتب نہیں ہو ا بلکہ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا ہے کہ  فسادات میں ملوث افراد کو ریاستی اورمرکزی حکومتوں کے اشارہ پر کوئی سزا تک نہیں ملی ہے-

مؤرخ اگر ہندوستان کی تاریخ رقم کریگا تو   ہاشم پورہ میرٹھ، ملیانہ، بھاگلپور، گجرات اور بدایوں جیسے  سیکڑوں  دلدوز فرقہ وارانہ فسادات  کو ضرور لکھے گا،  افسوس اس بات کا ہے ہاشم پورہ  کے مجرمین کو اکتیس سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی سزا نہیں ملی،  مظلوم اور ستم رسیدہ افراد اب بھی انصاف کے لئے عدالتوں کی خاک چھانتے نظر آرہے ہیں مزے کی بات یہ بھی  ہیکہ جنہوں نے اس سانحہ میں بیالیس مسلم نوجوانوں کو تشدد کا شکار بنایا تھا ذیلی عدالتیں ان تمام ملزمین کو بری کرچکی ہے، ملک بھر میں ایسے واقعات نہ جانے کتنے سرزد ہوئے ہیں کہ جن کی یاد تازہ ہوتے ہی کلیجہ دہل جاتا ہے –

یوں تو ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کی حفاظت ہندوستان کےتمام لوگوں کا فریضہ ہے اگر تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہاں کے سیاسی رہنماؤں، ججوں اور وکیلوں، فوجیوں، انٹلیجینس، صحافیوں اور دیگر ذمہ دار افراد  جمہوری نظام کی بقا ؤ حفاظت کے لئے کوشاں نظر آئے ہیں یہی وجہ ہیکہ دنیا کے دیگر ممالک ہماری جمہوریت کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتےرہے ہیں، مگر ان کی ابھی تک یہ خواہش پایئہ تکمیل کو نہیں پہنچی ہے کہ ان کے یہاں جمہوریت جیسا مقدس پودا جڑ پکڑ سکے، اس لئے ضروری امر یہ ہیکہ ہندوستان کا ہر شہری  جمہوریت کی اہمیت و افادیت کو سمجھے –   مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں کی مقدس جمہوریت اور وطن عزیز کے آئین و  نظام کو  باطل طاقتیں  مخدوش ومجروح کرنے کی سعی کررہی ہیں، اگر  ہندوستانی عوام کا سماجی طور پر تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ایک وقت تھا جب یہاں کی مٹی میں باہم  الفت، محبت اور خلوص و وفا کا جذبہ موجزن تھا مگر  وہ اب ہمارے مفاد پرست سیاسی قائدین نے تقریبا ختم کرڈالا ہے، سب سے زیادہ موجودہ حکمراں جماعت نے نفرت، تشدد اور باہم انگیز نہ کرنے کو فروغ دیا ہے، اگر ملک کے منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت ملک کی اقلیتیں خصوصا مسلمان اور عیسائی نیز دلتوں پر پیہم عتاب و عذاب کو سلسلہ جاری ہے ان کا جانی اور مالی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی رسم و رواج اور تہذیبی وثقافتی شناخت کو دبانے اور مٹانے کی منصوبہ بند سازش ہورہی ہے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اور آگے تک جاتی ہے کہ اس وقت ملک میں مسلم اور دیگر اقلیتیں خوف و ہراس اور دہشت کے سائے میں زندگی گزاررہی ہیں.

ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اب ملک اپنی صدیوں پرانی روایت بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیب کو شاید ہی واپس لا پائے گا، ہاں اگر ملک کا تمام امن پسند طبقہ  اور سیکولر مزاج کے حاملین یکجٹ ہوکر کاوش کریں تو ملک سے فرقہ پرست طاقتوں کا انخلاء بہت ممکن ہے اور ان کی مکروہ حرکتوں پر قد غن لگانا آسان ہوجائے گا  اور یہ اسی وقت ہوسکے گا جب کہ ہماری صفوں میں اتحاد ہو گا، ضمنا یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہےکہ اگر ہم صرف مسلمانوں کے حالات کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اس وقت مسلم قوم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہیکہ آپسی اتحاد مفقود ہے، مسلم  قوم  مسلکوں، خاندانوں اور برادریوں جیسے نقصاندہ طبقوں میں تقسیم ہوچکی ہے اسی وجہ سے آج تک مسلمانوں کا کوئی مضبوط و مستحکم سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہیکہ آزادی سے لیکر آج تک تمام سیاسی جماعتوں نے  مسلمانوں کا  صرف ووٹ حاصل کیا ہے اور بدلہ میں انہیں کچھ بھی نہیں دیا، حتی کہ ابھی تک ضرررساں واقعات کا شکار ہیں، یہاں یہ بھی پڑھتے چلئے کہ  جس طرح  مسلمانوں کی پسماندگی کا اظہار سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنے حقوق کی عظمت رفتہ کے لئے متحد و متفق ہوکر جد وجہد کرنی ہوگی، اپنی آواز بلند کرنے نیز سرکاری ایوانوں تک پہنچانے کےلئے لازمی طور پر  سیاسی وحدت و قوت تسلیم کرنی پڑیگی جب ہماری مرکزیت و یکجائیت مستحکم ہو جا ئے گی تو یقینی طور پر اس کا فائدہ مسلم قوم کو ہوگا، اس وقت جو لوگ مسلمانوں کو دوسرے نمبر کا شہری بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں ان کے ناپاک عزائم خود بخود سرد پڑجائین گے اور وہ دوبارہ ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو زد پہنچانے کے باریمیں سوچ بھی نہ سکین گے –

حکمراں جماعت کو چار سال مکمل ہوگئے مگر ابھی تک  ان وعدوں کی تکمیل نہیں ہوئی جو عوام سے کئے گئے تھے یوں تو ملک کی ترقی کے لئے مودی حکومت نے سیکڑوں یوجنائیں مرتب کرڈالی ہیں مگر ان کا زمینی سطح پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا ہے ان کو صرف کاغذ  میں درج کرکے اور میڈیا میں تشہیر کراکے دفتر میں سجادیا گیا ہے، جن دھن یوجنا ہو یا گیس کنکشن یوجنا ہو ان کا  جو حشر ہوا ہے اس سے خود ارباب اقتدار  لاعلم نہیں ہیں ہاں یہ حقیقت ہے کہ جن یوجناؤں کو مرتب کیا گیا ہے اگر ان کو ایمانداری سے نافذ کردیا جاتا اور ان کا فائدہ عوام کو پہنچتا تو یقینا اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے اس سے بہت حد تک نجات مل جاتی اور واقعی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا تھا، عوام میں خوشحالی اور اطمینان پیدا ہوتا، ظاہر ہےحکومتوں کے اتار چڑھاؤ کے لئے عوام کا اعتماد و عدم اعتماد کی بڑی اہمیت ہے، مودی حکومت کے ان چار سالوں کی حقیقت یہ ہیکہ کہ سماج کا کوئی طبقہ خوش نہیں  ہے، کسان نوجوان، تاجر، مزدور، ملازم اور ٹیچر خود کو ٹھگا محسوس کررہے ہیں، مرکزی حکومت نے جو بڑے بڑے وعدے کئے تھے ان میں سے چند یہ ہیں کہ  عوام کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپیہ آئے گا اسی طرح بلٹ ٹرین چلائی جائے گی، اسمارٹ سٹی تیار کی جائین گی، ہر سال  دو کروڑ نوجوانوں کو روزگاردیا جائے گا، کالادھن واپس لایا جائے گا جیسے تمام وعدے جملے ثابت ہوئے، اس کے باوجود لوگ خوش ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے اگر ان سے یہ معلو م کیا جائے کہ ترقی کہا ں ہے  تو بس لا جوابی کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا، مودی حکومت کی مسلسل ناکامی اور ملک کی جنتا کے لئے سنجیدہ نہ ہو نے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں خصوصا گانگریس پارٹی نے  مودی حکومت کے چار سال کو وشواس گھات دیوس کے نام پر منایا اور پورے ملک میں مودی حکومت کی گزشتہ چار سالہ ناکامی پر  احتجاج و مظاہرے ہوئے، مگر وہیں حکمراں جماعت سے وابستہ افراد نے حکومت کی کامیابی کے قصیدے پڑھے اور پورے ملک میں جشن منایا گیا،اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مودی سرکار کے منصوبوں سے عوام کو کافی حد تک فائدہ پہنچا ہے، اگر یہ کہوں تو بیجا نہ ہو گا کہ 2014 میں جتنے بھی وعدے کئے گئے تھے لوگوں کو ان کے پورا ہونے کا آج بھی انتظار ہے –

ملک کو قومی سلامتی، سرحدوں کا تحفظ، بد عنوانی، مہنگائی، اقلیتوں اور دلتوں پر ظلم و زیادتی جیسے مسائل کا آج بھی سامنا ہے، اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہےکہ حکمراں طبقہ ہوا میں باتیں کر کے ہی عوام کو اطمینان دلانا چاہتا ہے مضحکہ خیز بات یہ ہیکہ جس طرح چار سال قبل بی جے پی کی حکومت نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے، اسی طرح وہ ان مسائل کے تعلق سے آج بھی بڑے بڑے وعدے کررہی ہے – خود وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئیٹ کر کے کہا ہے، ” 2014 میں آج ہی کے دن ہم نے ہندوستان کے بد لاؤ کا سفر شروع کیا تھاپچھلے چار سال میں ترقی عوامی تحریک بن چکی ہے- ملک کا ہر شہری اس میں اپنی حصہ داری محسوس کررہا ہے – سواسو کروڑ ہندوستانی ہندوستان کو بلندیوں پر لیجا رہے ہیں ” یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ  اس میں کتنی سچائی ہے کیونکہ اس سے  عوام بخوبی واقف ہے، قابل توجہ بات یہ ہیکہ جس طرح ارباب اقتدار خوش کن بیان دیکر عوام کو الجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں  وہیں عوام کا بھی ایک بڑا طبقہ ان کے اس پر فریب نعرے کا شکار ہے اور عوامی سطح پر بھی مودی حکومت کے  گزشتہ چار سالوں کو  نمایاں کار کردگی اور ہندوستان کو ترقی کی راہ پر دوڑتے ہوئے دیکھ رہا ہے –

 مگریہ وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو ملک میں  جھوٹی ترقی کے نام پر  فرقہ پرست طا قتوں کے ذریعہ امن و سلامتی کو مٹادینا چاہتے ہیں، آج ذات  پات، مندر مسجد کی سیاست سے  ہندوستانی عوام  عاجز آچکے ہیں پورا ملک نفرت آمیز سیاست سے گزررہا ہے یہی وجہ ہے کہ اصل مدعے کو دبانے کی خاطر آئے دن مذہب کے نام پر کوئی نہ کوئی مسئلہ عوام کے سامنے اب تک لایا جا تا رہا ہے اور اس کا فائدہ حکمراں طبقہ کو  کہیں نہ کہیں  ضرور ہوا ہے، اس لئے ہندوستانی عوام کو ملک اور اپنے آئین سے محبت ہے تو یقینی طور پر 2019 کے الیکشن میں انتہائی سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کرنا ہو گا اور بی جے پی کی مذہب کے نام پر سیاست کرنے کو سمجھنا از حد ضروری ہے وہیں تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کوبھی یکجٹ ہوکر ملک کی بقا ؤ سالمیت کے لئے کمر کسنا ہوگا، کیونکہ موجودہ حکومت نے  اپنے دور اقتدار میں ملک کی صورت حا ل انتھائی تشویشنا ک بنادی ہے اور ترقی و وکاس کے نام پر حکومت نے تقریبا ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا ہے اس لئے عوام میں موجودہ حکومت کےلئے ناراضگی پائی جارہی ہے اگر اس موقع کا استعمال تمام سیکولر سیاسی محاذ سنجیدگی اور دانشمندی سے کرتے ہیں تو 2019 کے عام انتخابات میں آسانی سے کامیابی حاصل کیجا سکتی ہے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔