تم نے مڑ کے جو نہ دیکھا ہمیں ٹھکراتے ہوئے

امیر حمزہ سلفی

تم نے مڑ کے جو نہ دیکھا ہمیں ٹھکراتے ہوئے
انتقاماً تجھے آواز نہ دی جاتے ہوئے
اشک نکلے تھے مگر اس کو دکھائی نہ دیے
ساتھ بارش نے دیا آنکھ کے بھر آتے ہوئے
ایسی فنکاری سیکھا دی مجھے پھر دنیا نے
میں ترے بعد جو رویا بھی تو مسکاتے ہوئے
زخمِ دل کھا کے پھڑکتا ہوا یوں تھا جیسے
پھڑ پھڑاتا ہوا پنچھی کوئی مر جاتے ہوئے
جلد مر جائے گا اس طرح اگر جیتا ہے
ایک دن ایسے کہا یار نے سمجھاتے ہوئے
اُس کے دالان میں داخل ہوا کرتا میں جب
بھاگ کر کمرے میں گھس جاتی تھی شرماتے ہوئے
گھر کے باغیچے میں جب بھی وہ ٹہلتی حمزہ
خوش ہوا کرتی تھی وہ پھول کو سہلاتے ہوئے

تبصرے بند ہیں۔