ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا صدیق اکبر، خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر بن قحافہ کی بیٹی ہیں۔

پیدائش:

حضرت عائشہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں، یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آٹھ سال کی چھوٹی تھیں ، یہ کہتی ہیں : میں نے جب ہوش سنبھالے تو میرے والدین دین اسلام پر تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والدین کے ساتھ مدینہ ہجرت فرمائی، نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سم صدیقہ خدیجہ بنت خویلد کے انتقال کے بعد ہجرت سے کچھ ماہ پہلے نکاح فرمایا، شوال سن دو ہجری میں غزوہ بدر سے واپسی پر بناء فرمائی، یہ اس وقت نو سال کی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ اور بہت مبارک علم روایت کیا، مسند عائشہ میں دو ہزار دو سو دس(۱۲۰۰۱۰) احادیث مبارکہ ہیں۔

یہ نہایت حسین وجمیل اور خوبرو تھی، جس کی وجہ سے ’’حُمیرا‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئیں  نبی کریم ﷺ آپ کے علاوہ کسی باکرہ عورت سے نکاح نہیں فرمایااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے زیادہ محبت کسی سے نہ تھی، اور نہ امت محمدیہ کوئی شخص ان کے برابر علوم کا حامل تھا، عورتوں میں تو ان کے ہم سر اور ہم پایہ کوئی عورت تھی ہی نہیں ، اس سے زیادہ فخر صد افتخار اور کیا ہوسکتا ہے کہ حضور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیہ محترمہ ہیں البتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کچھ امور کی وجہ سے ان پر فوقیت وفضیلت ضرور حاصل ہے۔

حضرت صدیقہ کا نبی کریم ﷺسے نکاح :

 حضرت صدیقہ کانکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے فورا بعد ہوا، نبی کریم ﷺ نے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیک وقت نکاح فرمایا، حضرت سودہ اس وقت حرم نبوی میں آئیں ،پھرتین سال بعدواقعہ بدر کے فوری بعد ماہ شوال میں حضرت عائشہ حرم نبوی میں آئیں۔

نبی کریم ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی:

نبی کریم ﷺ حضرت عائشہ سے بہت محبت فرماتے، حضرت عمروبن العاص نے جو سن آٹھ ہجری میں داخل اسلام ہوئے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں ؟ تو فرمایا: عائشہ، فرمایا: لوگوں میں تو فرمایا : ان کے والد محترم ’’ قال : عائشہ، قال : فمن الرجال ؟ قال : أبو ھا‘‘۔ ( بخاری: باب غزوۃ ذات السلاسل، حدیث: ۴۳۵۸)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکرتی ہیں ، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں نے تمہیں (نکاح سے پہلے)) خواب میں دو مرتبہ ریشمی کپڑوں میں لپٹا ہوا دیکھا اور(مجھ سے)) کہا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہیں، جب میں نے اس کپڑے کو ہٹایا تو تم نظر آئیں ، میں نے کہا: اگر یہ منجانب اللہ ہے تو وہ پورا کرکے رہے گا۔ ’’فأقول : إن یک ہذا من عند اللہ یمضہ‘‘ (بخاری: باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشۃ، حدیث: ۳۸۹۵)

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد جب مجھ سے مکہ مکرمہ میں نکاح کیا تو میں چھ سال کی تھی اور مدینہ منورہ میں پھر میری رخصتی اس وقت ہوئی جب میں نو سال کی تھی۔ جب ہم مدینہ منورہ آئے تو ایک دن کچھ عورتیں میرے پاس آئیں ، میں اس وقت جھولا جھول رہی تھی،اور بخار کی شدت سے میرے بہت سے بال جھڑ کر تھوڑے ہی رہ گئے تھے، وہ مجھے لے گئیں اور مجھے تیار کرنے لگیں اوربنا ؤسنگھار کر کے مجھے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئیں ’’ثم أتین بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (مسند احمد، مسند الصدیقہ عائشہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہا، حدیث: ۲۶۳۹۶)

شوہر بیوی کے جذبات کی قدر کرے :

ہشام اپنے والد سے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں : میں لڑکیوں کے ساتھ کھلونے کھیلا کرتی تھی، میری سہلیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آمد پر چھپ جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے جانے کے بعد پھر وہ میرے پاس آجانی، نبی کریم ﷺ ان لڑکیوں کو میرے پاس بھیج دیتے اور وہ میرے ساتھ کھیل میں لگ جاتیں ’’فکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسربہن فیلعبن معی‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی، باب لعب عائشۃ باللعب عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، فرمایا: ’’ عائشہ یہ کیا ہے ؟  میں نے کہا: یہ سلیمان(علیہ السلام ) کا گھوڑا ہے اور اسکے پر ہیں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کی بات پر ہنس پڑے، اور  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ واللہ میں نے وہ وقت دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشی صحن میں کرتب دکھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے وہ کرتب دکھانے کے لئے اپنی چادر سے پردہ کرنے لگے، میں ان کے کانوں اور کندھے کے درمیان سر رکھے ہوئے تھی، پھرآپﷺ میری وجہ سے کھڑے رہے حتی کہ میں ہی واپس چلی گئی، اب تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ایک نوعمر لڑکی کو کھیل کود کی کتنی رغبت ہوگی۔ ’’فاقدروا قدر الجاریۃ الحدیثۃ السن الحریصۃ علی اللھو‘‘ ( مسند احمد، مسند الصدیقۃ عائشۃ، حدیث: ۲۶۳۲۸)

زوجین میں محبت:

٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مقابلے میں میں آگے نکل گئی، کچھ عرصے بعد جب میں لحیم وشحیم ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھ گئے اور فرمایا یہ اس مرتبہ کے مقابلے کا بدلہ ہے۔ ’’ فقال:’’ہذہ بتیک‘‘ (مسند احمد، مسند الصدیقہ عائشہ، حدیث: ۲۴۱۱۸)

٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہڈی عنایت فرماتے تو اس کو چوستی، پھر آپ ﷺ اس کو لیتے، اس کو گھما اسی جگہ اپنا دہن مبارک رکھتے جہاں میرامنہ رکھا ہوتا’’ فیدیرہ حتی یضع فاہ علی موضع فمی‘‘ ( مسند الحمیدی، احادیث عائشہ، حدیث: ۱۶۶)

زوجین میں مودت وملاطفت کی باتیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں : میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فرمائیے اگر آپ کسی وادی میں اتریں اور اس میں ایک درخت ایسا ہو جس میں اونٹ چر گئے ہوں اور ایک درخت ایسا ہو جس میں سے کچھ بھی نہ کھایا گیا ہو تو آپ اپنا اونٹ ان درختوں میں سے کس درخت میں چرائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس درخت میں جس میں سے ابھی چرایا نہیں گیا ہو۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ ’’ـتعنی أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یتزوج بکرا غیرھا)(بخاری : باب نکاح الأبکار، حدیث: ۵۰۷۷)

 بیوی کی تعریف وتوثیق:

حضرت ابوموسی اشعری سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا جوفرعون کی بیوی تھیں اور حضرت مریم علیہا السلام گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔ (مسند احمد، حدیث ابی موسی الاشعری، حدیث: ۱۹۶۶۸)

حضرت جبرئیل کاحضرت عائشہ کو سلام:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے عائشہ یہ جبرائیل ہے تم کو سلام کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا بیان ہے کہ میں نے کہا وعلیہ السلام ورحم اللہ۔ (بخاری: باب فضل عا ئشہ رضی اللہ عنہا، حدیث: ۳۷۶۸)

حضور ﷺ کے ازواج میں غیرت:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی دو جماعتیں تھیں ، ایک میں حضرت عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضی اللہ عنہن اور دوسری طرف ام سلمہ اور تمام بیویاں تھیں ، اور مسلمانوں کو معلوم تھاکہ آپ ﷺ حضرت عائشہ کو محبوب رکھتے ہیں ، جب ان میں سے کسی کے پاس ہدیہ ہوتا او راس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجنا چاہتا تو انتظار کرتا، جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ کے گھر میں ہوتے تو وہ ہدیہ آپ ﷺ کے پاش حضرت عائشہ کے گھر بھیجتا، حضرت ام سلمہ نے سب کی طرف سے عرض کیا کہ لوگوں سے فرمادیں کہ جو شخص آپ ﷺ کو ہدیہ بھیجنا چاہے تو آپ جس بیوی کے پاس بھی ہوں وہاں ہدیہ بھیج دے، چنانچہ ام سلمہ کی اس بات پر آپ نے کچھ جواب نہ دیا، ام سلمہ کا بیان ہے کہ جب میری باری آئی تو میں نے آپ سے عرض کیا تو کچھ بھی جواب آپ نے نہ دیا، پھر دوبارہ اپنی باری میں عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے عائشہ کے متعلق اذیت نہ دو ؛ اس لئے کہ وحی میرے پاس اسی وقت آتی ہے جب میں عائشہ ک کے کپڑوں میں ہوتا ہوں ‘‘ حضرت فاطمہ نے یوں ہی نمائندہ بن کر عرض کیا تو فرمایا: ’’ بیٹی کیا تجھے اس سے محبت نہیں ہے، جس سے میں محبت کرتا ہو، حضرت فاطمہ یہ سن کر لوٹ گئیں ‘‘’’یا بنیہ ألا تحب ما أحب، قالت: بلی، فرجعت إلیھن فأخبرتھن‘‘ (بخاری: باب من أہدی إلی صاحبہ، حدیث: ۲۵۸۱)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر کاارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے، ایک مرتبہ قرعہ عائشہ ارو حفصہ رضی اللہ عنہما کے نام نکلا،نبی کریم ﷺ رات کے وقت معمولا چلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے، ایک مرتبہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر ؛ تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو، اور میں بھی، انہو ں نے یہ تجویز قبول کی، اس کے بعد نبی ﷺ حضرت عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے، اس وقت اس پرحفصہ بیٹھی ہوئی تھیں ، نبی کریم ﷺ نے انہیں سلام کیا، پھر چلتے رہے، جب پڑاؤ ہوا تو نبی ﷺ کو معلوم ہواکہ عائشہ اس میں نہیں ہیں ، جب پڑا ہوا تو نبی کریم ﷺکو معلوم ہوا کہ عائشہ (س میں نہیں ہیں (اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہوا کہ)جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لیے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ: میں نبی کریم  سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی۔ ’’ ولا استطیع أن أقول لہ شیئا ‘‘ (بخاری: باب القرعۃ بین النساء، حدیث: ۵۲۱۱)۔

شوہر بیوی کو خوش کرے

 حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت(ﷺکی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ سے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبھی انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی آواز کو سنا جو ذرا زور سے بول رہی تھی پھر جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور طمانچہ مارنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ خبردار آئندہ میں تمہیں رسول اللہ کی آواز سے اونچی آواز میں بولتے ہوئے نہ دیکھوں ادھر آنحضرت ﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ کو مارنے سے روکنا شروع کیا اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ کی حالت میں باہر نکل کر چلے گئے آنحضرتﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد فرمایا تم نے دیکھا میں نے تمہیں اس آدمی یعنی ابوبکر  رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کس طرح بچا لیا؟ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ مجھ سے خفگی کی بنا پر آنحضرت ﷺسے شرمندگی کی وجہ سے کئی دن تک آنحضرت ﷺکی خدمت میں نہیں آئے پھر ایک دن انہوں نے دروازے پر حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی اور اندر آئے تو دیکھا کہ دونوں صلح کی حالت میں ہیں انہوں نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا تم دونوں مجھ کو اپنی صلح میں شریک کرلو جس طرح تم نے مجھ کو اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا، آنحضرت (صلی ا رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا بے شک ہم نے ایسا ہی کیا بے شک ہم نے ایسا ہی کیا یعنی تمہیں اپنی صلح میں شریک کرلیا۔(ابوداؤد: باب ماجاء فی المزاح، حدیث: ۴۹۹۹)

حضور اکرم ﷺ کی اپنی اہلیہ کے سامنے وفات:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ نبیﷺکی دنیا سے رخصتی میرے گھر میں میری باری کے دن، میرے سینے اور حلق کے درمیان ہوئی، اس دن عبدالرحمن بن ابی بکر آئے تو ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی،میں نے سوچاکہ آپ مسواک چاہتے ہیں تو میں نے مسواک لیا اور اس کو اچھی طرح چبایا، پھر آپ ﷺ کو مرحمت کیا تو نبی ﷺنے اتنی عمدگی کے ساتھ مسواک فرمائی کہ اس سے پہلے میں نے اس طرح مسواک کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر نبی ﷺ ہاتھ اوپر کر کے وہ مجھے دینے لگے تو وہ مسواک نبیﷺکے ہاتھ سے گر گئی اور فرمایا ’’ اللہم الرفیق الاعلی ‘‘ اور اس دم نبیﷺ کی روح مبارک پرواز کرگئی، بہر حال! اللہ کا شکر ہے کہ نبی ﷺکی زندگی کے آخری دن میرے اور ان کے لعاب کو جمع فرمایا۔ (مسند احمد، مسند الصدیقہ عائشۃ، حدیث: ۲۴۲۱۶)

عائشہ رضی اللہ عنہا روئے زمین سب زیادہ ذی علم خاتون

علم حدیث:

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں : جب کبھی اصحاب رسول کو حدیث کے بارے میں اشکال ہوتا توہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرتے تو ہم ان کے یہاں اس کے بارے میں علم پاتے۔ ’’ ما أشکل علینا أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حدیث قط،فسألنا عائشۃ إلا وجدناعندھا منہ علماء‘‘۔

علم فرائض:

ابو الضحی حضرت مسروق سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ ہم نے ان سے کہا : کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرائض کا علم اچھی طرح جانتے ہیں ؟ فرمایا: اللہ کی قسم، ’’لقد رأیت أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم الأکابر یسألونھا عن الفرائض‘‘ میں نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے اکابرصحابہ کو دیکھا ہے وہ فرائض کے سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرتے۔

حضرت زہری فرماتے ہیں کہ : اگر حضرت عائشہ کا علم دنیا کی تمام عورتوں میں بانٹ دیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہی علم ہی فضل وکمال میں بڑھاہوگا’’ لو جمع علم عائشۃ إلی علم جمیع النساء لکان علم عائشۃ أفضل‘‘۔

تمام علوم:

ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : میں حضرت عائشہ کی صحبت میں رہا ہوں ، میں نے کسی کو بھی ان سے زیادہ کسی نازل شدہ آیت اور کسی بھی فریضہ، سنت، شعر، غزوات اور نسب اور ان ان چیزوں اور قضاء اور عدالت اور طب وغیرہ میں ان سے زیادہ علم رکھنے ولا کسی کو نہیں دیکھا، میں نے کہا : خالہ جان آپ نے علم طب کہا ں سے سیکھا تو فرمایا: میں بیماری ہوتی تھی تو میرے لئے نسخہ تجویز کیا، پھر کوئی بیمار پڑتا تو وہ نسخہ میں اس کے لئے تجویز کرتی، اس طرح لوگ جو نسخے تجویز کرتے میں اس کو یاد رکھی’’ وأسمع الناس ینعت بعضھم لبعض، فأحفظہ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ کا حضرت عائشہ کی تعظیم کرنا:

مصعب بن سعد سے مروی ہے فرماتے ہیں : حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر امہات المؤمنین کے لئے دس ہزار دس ہزارروزینے مقرر کئے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے د و ہزار کا اضافہ فرمایا اور کہا : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حبیبہ ہیں ’’إنھا حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘۔

حضرت مسروق کا حضرت عائشہ کی تعظیم کرنا:

مسروق رحمہ اللہ جب حضرت عائشہ سے حدیث روایت کرتے تو فرماتے : حدثتنی الصدیقۃ بنت الصدیق، حبیۃ حبیب اللہ، المبرأۃ من فوق سبع سماوات، فلم أکذبھا‘‘ ( مجھے سے صدیقہ بنت صدیق، اللہ کے حبیب کی حبیب، جن کی براء ت ساتوں آسمانوں سے نازل ہوئی تھی فرماتی ہیں ، میں اس کی تکذیب نہیں کرسکتاؒ۔

حضرت عائشہ کا زہد وتقوی:

حضرت عطا فرماتے ہیں : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ ہار بھیجا تو انہوں نے اسکو تمام امہات المؤمنین کے مابین تقسم فرمادیا۔

حضرت عروہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ نے ستر ہزار اس حالت میں خرچ کئے کہ ان کے اوڑھنی کے ایک کنارے پر پیوند لگا ہوا تھا۔

ام ذرہ (خادمہ حضرت عائشہ ) فرماتی ہیں کہ ابن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دو تھیلے مال بھیجے جو ایک لاکھ درہم تھے، حضرت عائشہ نے ایک طبق منگوایا، اس کو لوگوں میں تقسیم کرنے لگیں ، جب شام ہوگئی تو فرمایا:اے باندی افطار کے لئے کچھ لے آؤ، تو ام ذرہ نے کہا: ام المؤمنین! کیا کیا آپ ہمارے لئے ایک درہم کا گوشت خرید نہیں سکتی تھیں ، تو فرمایا : مجھے سخت مت کہو، اگر تم نے مجھے یاد دلایا ہوتا تو میں رکھ لیتی ’’ لا تعنینی، لو أذکرتینی لفعلت‘‘۔

حضرت شعبہ سے مروی ہے کہ عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے والد محترم سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ صوم دہر (ممنوع ایام کے علاوہ ہر دن کا روزہ جس کی اجازت بغیر کسی کے حقوق کے ضیاع کے اجازت ہے ) رکھتی تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات:

آپ کی مدت عمر کل تریسٹھ سال ہوئی، آپ سن ستاون (۵۷) ہجری میں انتقال فرماگئی۔

تبصرے بند ہیں۔