حکمراں ہے اِک وہی باقی سب بتانِ آزری (قسط اول)

  قرآن کہتا ہے اقتدار اعلیٰ و قوت حاکمہ صرف خدا کیلئے مانی جائے۔ اس کے سوا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ا سکے سامنے سر نیاز خم کیا جائے اور اپنی پیشانیوں کو جھکایا جائے۔ وہی وحدہٗ لاشریک لہ ہے۔ صرف وہ ایک ہی اس لائق ہے کہ اس کیلئے قوت حاکمہ اور اقتدار اعلیٰ مانا جائے۔ وہی ایک صرف صرف اس قابل ہے کہ بنی نوع انسان کے دلوں پر حکومت کرے۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ جبین نیاز اور سر عجز اس کے سامنے خم کیا جائے۔ دل و دماغ میں اس کا خوف سمائے۔ امیدیں اسی سے وابستہ کی جائیں ۔ حاکم و بادشاہ، شہنشاہ، واضح قانون، شارع اور قانون ساز صرف اس کو مانا جائے۔ ماننے کے لائق اور تسلیم کے قابل صرف اس کا قانون ہوسکتا ہے۔ صرف اس کیلئے جانی و مالی قربانی کی جائے۔ ایثار و فدا کاری کے لائق صرف وہی ہے۔ وہی ہے جس سے محبت کی جائے اور دل لگایا جائے۔ اسی سے ڈرایا جائے۔ اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں ۔ کوئی ماویٰ و ملجا نہیں ۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو نفع پہنچا سکے یا ضرر دے سکے۔ وہ جس کو ضرر دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کو روکنے والی نہیں ۔ اگر وہ کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو کوئی اس کے ہاتھ روک نہیں روک سکتا۔ وہی الٰہ ہے۔ وہی معبود، وہی رب، وہی حاکم، الا لہ الحکم والامر، خبردار اس کیلئے حکومت ہے اور اسی کا امر قابل قبول ہے، کوئی نہیں جس کا حکم مانا جائے۔ کوئی نہیں جس کا امر تسلیم کیا جائے، انسان کیے ظاہر و باطن پر صرف اسی کی حکمرانی ہے۔ وہ کہتا ہے، جب تم دیکھتے ہو کہ تمہارے وجود کے اندر اور باہر عالم تکوین میں صرف اسی کی حکمرانی ہے تو پھر تمہارے قلوب، اعمال، افعال اور کاروبارِ زندگی میں اسی کی حکمرانی کیوں نہ ہو۔ وہ کہتا ہے، دنیا مختلف قسم کے الٰہ و معبود بنا لیتی ہے۔ کہیں انسانی استبداد و استبعاد کے وہ مہیب بت ہیں ، جنھوں نے اپنی غلامی کی زنجیروں سے خدا کے بندوں کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی قوتِ شیطانی کے مظاہر کبھی حکومتوں کے جبر و تسلط کی صورت میں ، کبھی دولت و مال میں ، کبھی عزت و جاہ کے غرور میں ، کبھی جماعتوں کی رہنمائی و حکمرانی کے ادعا میں ، کبھی علم و فضل اور کبھی زہد و تقویٰ کے گھمنڈ میں غرض مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے اللہ کے بندوں کو اللہ سے چھیننا چاہتے ہیں ۔

 اس کے علاوہ کہیں چاندی اور سونے کے ڈھیروں کے بت، کہیں قیمتی کپڑوں ، موٹروں اور ہوٹلوں اور کوٹھیوں کے بت، اس میں لیڈروں و حکام کے بت ہیں اور کہیں پیروں ، مولویوں ، پیشواؤں اور رہنماؤں کے بت ہیں تو کہیں خواہشات نفسانی کے بت ہیں ۔ رسول عربیؐ کے وقت میں تو تین سو ساٹھ بت تھے جن سے بیت خلیل کی دیواریں چھپ گئی تھیں لیکن آج ان کی امت میں تو ہر چمکیلی ہستی لات اور منات کی قائم ہے اور ہر حاکم، ہر رئیس اور سب سے آخر مگر سب سے پہلے ہر خوش لباس لیڈر ایک بت کا حکم رکھتا ہے، یہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو، شرک ہے اور کفر ہے۔ یہ اس کی صفات میں ساجھی ٹھہرانا ہے اور اس کی حاکمیت میں غیروں کو سہیم و حصہ دار بنانا ہے جس کا مٹانا قرآن کا اولین فرض ہے۔ غرضیکہ اسلام کسی ایسی اقتدا کو تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو۔ اسلام تو آزادی و جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوع انسانی کو اس سے چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کیلئے آیا تھا۔ یہ آزادی بادشاہوں ، اجنبی حکومتوں ، خود غرض مذہبی پیشواؤں ، سوسائٹی کی طاقتوں اور جماعتوں نے غصب کر رکھی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ حق طاقت و غلبہ کا نام ہے لیکن اسلام نے ظاہر ہوتے ہی اعلان کیا کہ طاقت حق نہیں ہے بلکہ خود حق طاقت ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوا نہیں کہ بندگان خدا کو اپنا محکوم اور غلام بنائے۔ اس نے امتیاز اور بالا دستی کے تمام قومی و نسلی مراتب ایک قلم مٹا دیئے اور دنیا کو بتلا دیا کہ سب انسان درجہ میں برابر ہیں ، سب کے حقوق برابر ہیں ۔ نسل قومیت اور رنگ معیار امتیاز نہیں ہے بلکہ صرف عمل ہے اور سب سے بڑا وہی ہے جس کے کام سب سے اچھے ہوں ۔

  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ط(13:49)۔ یہی اس کا طرۂ امتیاز اور خصوصی نشان ہے۔ انسانی حقوق کا یہ وہ اعلان ہے جو انقلاب فرانس سے گیارہ سو برس پہلے ہوا۔ یہ صرف اعلان ہی نہ تھا بلکہ عملی نظام تھا جو مشہور مورخ کبن کے لفظوں میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا۔ پیغمبر اسلام اس کے جانشینوں کی حکومت ایک مکمل جمہوریت تھی اور صرف قوم کی رائے نیابت انتخاب سے اس کی بناوٹ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں جیسے عمدہ اور جامع الفاظ اس مقصد کیلئے موجود ہیں شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں پائے جائیں ۔

اسلام نے پادشاہ کے اقتدار اور شخصیت سے انکار کیا ہے، وہ صرف ایک رئیس جمہوریت (دی پریسیڈنٹ آف دی پبلک) کا عہدہ جائز قرار دیتا ہے، لیکن اس کیلئے بھی خلیفہ کا لقب تجویز کیا گیا ہے جس کے معنی نائب و جانشین کے ہیں ، اس کا اقتدار محض نیابت الٰہی تو ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ پس خلیفہ صرف قوم کا نائب و نمائندہ ہوتا ہے اور قوم خدا کی نائب، تو سب اختیارات کا سر چشمہ وہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خدائی خطابات و القاب کو کسی خلیفہ یا حاکم کیلئے استعمال کرنے کو شرک فی الصفات قرار دیا اور اس کا نام اسماء پرستی رکھا۔ کلمات تعظیم و تجلیل عجیب وغریب ہیں جو ملوک و سلاطین عالم کے ناموں کے پہلے نظر آتے ہیں اور جن کے بغیر ذات شاہانہ کی طرف اشارہ کرنا بھی سوء ادب کی آخری حد ہے، مگر مرقع خلافت اسلامیہ میں ان کی مثال ڈھونڈنا بے کار ہوگا۔ ایک ادنیٰ مسلمان آتا ہے اور یا ابوبکرؓ اور یا عمرؓ کہہ کر پکارتا ہے اور وہ خوشی سے جواب دیتے ہیں ۔

 زیادہ سے زیادہ جو الفاظ تعظیمی استعمال ہوسکتے ہیں ، وہ خلیفہ رسول اللہ اور امیر المومنین ہیں جو مدح نہیں بلکہ واقعہ ہے۔ امراء و حکام ملک بھی انہی الفاط سے خلفاء کو خطاب کرتے تھے اور عوام اور غرباء بھی۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی۔ آپؐ اپنے لئے لفط آقا و سید سننا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک معمولی بدوی آتا تھا اور یا محمد کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ ایک بار ایک بدوی حاضر ہوا اور ڈرتا ہو اخدمت نبویؐ میں آگے بڑھا تو آپؐ نے فرمایا: تم مجھ سے ڈرتے ہو۔ میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو ثرید کھاتی تھی، سبحان اللہ!

چہ عظمت دادہ یارب بخلق آن عظیم الشان … کہ انی عبدہ، گویا بجائے قول سبحانی

 ایک صحابیؓ نے اپنے بیٹے کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھیجنا چاہا۔ اس نے آپ سے پوچھا کہ اگر حضور اندر تشریف فرما ہوں تو میں کیوں کر آواز دوں ، باپ نے کہا۔ جان پدر، کاشانہ نبوت دربار قیصر و کسریٰ نہیں ہے۔ حضور کی ذات تفضل و تکبر سے پاک ہے۔ آپ اپنے جانثاروں سے کسی قسم کی توقع نہیں کرتے، تو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پکارنا۔ سبحان اللہ کیا عالم تھا تربیت یافتگان نبوی کا۔

  کیا دنیا بھول گئی کہ مسلمان نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ناموں سے پکارا اور اپنے خلفاء کو بات چیت پر ٹوکا۔ ان پر سخت اعتراض کئے۔ ان کو خطبہ دیتے ہوئے روک دیا اور اس وقت تک خطبہ نہیں دینے دیا جب تک خلیفہ اپنی صفائی نہیں پیش کرچکے۔ اپنے خلفاء کو تلوار کی دھار، نیزہ کی آنی اور تیر کے پھل سے درست کرنے کی دھمکی دی اور خلفاء نے ان باتوں پر بجائے ناراض ہونے کے فخر کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ الحمد للہ ایسے حق گو امت میں موجود ہیں لیکن اس کے مقابلے میں آج بادشاہوں اور ریاستوں کو چھوڑ کر صرف اپنی قوم کے ان لوگوں کو دیکھو جن کے پاس جائیداد کا کوئی حصہ یا چاندی سونے کا کچھ جمع ہوگیا ہو۔ ان میں بہت سے لوگ دولت کو تمام فضیلتوں کا منبع قرار دیتے ہیں اور …… اس لئے لیڈر ہیں ۔ پیشوائی کے مدعی ہیں ۔ ان میں بہت سے فراعنہ اور غار وہ تم کو ایسے ملیں گے جن کا نام اگر ان خطابوں سے الگ کرکے زبان سے نکالا جائے جو ان کے شیطانی خبث و غرور گھڑ لئے ہیں یا حکومت کی خوشامد و غلامی کا اصطباغ لے کر حاصل کئے ہیں تو ان کے چہرے مارے غضب کے درندوں کی طرح خونخوار ہوجاتے ہیں اور چار پایوں کی طرح ہیجان و غصہ اور غلاظت کو روک نہیں سکتے۔ اس بدترین نسل فراعنہ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ کیا نمرودیت و فرعونیت و شیطانیت ہے۔ کیا ہے جس نے ان کے نفسوں کو مغرور کردیا ہے اور وہ کون سا ورثہ عظمت و جلال ہے جو تکبر اور غرور کی طرح ان کو اپنے مورث اعلیٰ فرعون اور نمرود سے ملا ہے۔ اگر دولت کا گھمنڈ ہے تو مجھے اس میں شک ہے کہ ان کے پاس جہل کی طرح دولت بھی کثیر ہے اور اگر ان پرستاروں اور مصاحبوں کا انھیں غرور ہے جو غلامی اور دولت پرستی کے کیڑے ہیں تو میں یہ باور کرنے کیلئے کوئی وجہ نہیں پاتا کہ دنیا کے مغرور و مستبد بادشاہوں سے بھی بڑھ کر اپنے پرستاروں اور غلامی کا حلقہ ارد گرد دیکھتے ہیں ۔

 بہر حال کچھ بھی ہو مگر میری آواز کو ہر سامع آج انھیں ان کو قوت کی ناکامی کا پیام پہنچا دے۔ اب ان کی تباہی و بربادی کا آخری وقت آگیا۔ وہ دنیا جس نے بحر احمر میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق ہوتے دیکھا تھا اور اس طرح کے اَنگنت تماشے ہزاروں بار دیکھ چکی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہندستان کے اندر بحر حریت و صداقت میں جس کی موجیں نہ صرف نام ہی کو نہیں بلکہ حقیقت میں بھی احمر ہوں گی۔ ان مغرور لیڈروں کے غرق ہونے کا تماشہ دیکھ لے گی۔ وہ وقت دور نہیں جبکہ ان کے اور ان کے اور ان کے مصاحبوں کیلئے آتش کدے تیار ہوں گے اور ان کے خاکستر کو تند و تیز ہوا کے جھونکوں میں اڑتے ہوئے دیکھے گی۔

 آج ارض و سماء، بحر و بر، فضائے آسمانی اور خلاء سلطانی میں ان کی ہلاکت و بربادی کی آندھیاں چل رہی ہیں اور مرد مومن کی چشم بصیرت کو یہ تمام تماشہ انقلاب امم و استبدال دول و اقوام کا نظر آرہا ہے۔ اس کی آنکھیں وہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں کہ جو ان کی بربادی و تباہی کا سامان ہورہا ہے۔ آج کی رفتار، دریا کی روانی، لیل و نہار کی گردش، اقوام و ملل کے تغیرات اور گرد زمانہ کی حرکت افراد و اشخاص کے نفسیاتی تمول، اذہان و قلوب کے میلانات، طبائع انسانی کے رجحانات یہ سب بتا رہے ہیں کہ نماردہ فراعنہ دور حاضر کی ہلاکت و فلاکت، تباہی و بربادی، خسروان و مغفوریت کا وقت بالکل قریب آچکا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جبکہ ان کی دولت و مال اور عز و جا کے جنازے نکلیں گے اور یہ صفحہ ہستی سے یوں مٹائے جائیں گے کہ تاریخ عالم میں ان کے افسانے رہ جائیں گے اور نام و نشان باقی نہ رہیں گے۔ ان کی اس تباہی و بربادی پر کوئی نوحہ و ماتم کرنے والا نہ ہوگا۔ نہ زمین ان پر ترس کھائے گی اور نہ ہی آسمان روئے گا۔  (جاری)

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ…  ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔