چیف جسٹس کھیہر کا مشورہ نہ معقول ہے نہ ممکن العمل

عبدالعزیز

 سبرامنیم سوامی کے رٹ پٹیشن پر چیف جسٹس کھیہر نے بابری مسجد قضیہ پر جو مشورہ دیا ہے کہ فریقین تھوڑا دے دیں اور تھوڑا لے لیں اور آپس میں بیٹھ کر مسئلہ کو حل کرلیں ۔ اگر مسئلہ اتنا ہی آسان ہوتا تو کب کا حل ہوگیا ہوتا۔ انگریزوں کے زمانے میں ہندوؤں کی کسی تنظیم کی طرف سے بابری مسجد کی زمین پر کسی قسم کا دعویٰ نہیں صرف بابری مسجد سے متصل ایک چبوترہ تھا جسے ہندو رام چبوترہ کے نام سے پکارتے تھے۔ ایک فرد نے اس پر چھپر ڈال کر مندر بنانے کیلئے عدالت میں رٹ پٹیشن داخل کیا جسے عدالت نے رد کر دیا۔ انگریز ملک سے جاتے جاتے یہ جھگڑا لگا کر گئے کہ بابری مسجد -رام جنم بھومی کی جگہ ہوسکتی ہے۔ یہ محض ایک خیال تھا جس کی بنیاد پر ہنومان نرموہی اکھاڑہ والوں نے وہاں رام جنم بھومی کا پرچار کرنا شروع کیا۔

22 اور 23دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو نماز عشاء کے بعد چند شرپسندوں نے بابری مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھ دی۔ صبح کے وقت مسجد کے نمازی امام صاحب کے ساتھ اجودھیا تھانہ میں شکایت درج کرانے گئے۔ ایک سب انسپکٹر نے شکایت درج کرنے کے بعد معاملہ کو فیض آباد مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔ مجسٹریٹ نے مسجد کا دروازہ بند کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔ 1984ء میں مرکزی حکومت نے ڈسٹرکٹ جج فیض آباد مسٹر پانڈے کے ذریعہ ایک سازش کے تحت دروازہ کھلوایا اور مورتی پر پانی چھڑکنے اور پھول چڑھانے کیلئے ایک شخص کو اجازت دلوادی پھر اس مسئلہ کو آر ایس ایس کی تنظیم وشو ہندو پریشد اور بی جے پی نے اچک لیا۔

  6دسمبر 1992ء میں سنگھ پریوار نے مسجد کو مرکزی اور ریاستی حکومت کی مددسے مسمار کر دیا۔ مسجد مسمار کرنے والوں کو 25 سال ہونے کے بعد بھی عدالت نے کسی قسم کی سزا دلانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ صرف سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو ایک دن کی علامتی سزا دی گئی۔ اب بابری مسجد کی عمارت کو ڈھانے والوں کا مقدمہ سپریم کورٹ میں اب زیر سماعت ہے۔ آج بھی سماعت ہورہی ہے مگر کب سپریم کورٹ فیصلہ صادر کرے گا کہنا مشکل ہے۔ ابھی مجرموں کو سزا نہیں ہوئی اور چیف جسٹس نے ایک ایسے آدمی کی درخواست پر اس قدر اہمیت دی کہ ایک غیر معقول مشورہ دے دیا۔ یہ ایک ایسا مشورہ ہے کہ جس سے پورے ملک میں غلط پیغام جائے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ بابری مسجد میں ساڑھے پانچ سو سال سے نماز پڑھی جارہی تھی کبھی کسی قسم کا نہ تنازعہ اور نہ ہنگامہ ہوا۔ انگریزوں کے زمانے تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی ۔ آزادی کے بعد شرپسندوں کو ہمت ہوئی ۔

کانگریسی راج میں اسے سنگھ پریوار والے سیاسی مسئلہ بنالیا تاکہ انھیں ہندستان پر راج کرنے کا موقع ملے۔ آج بابری مسجد اور دیگر چیزوں کی ہی بنیاد پر مودی جی کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ اتر پردیش میں بھی 325 سیٹیں مل گئی ہیں اور گورکھپور کے ایک مہنت کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس طرح مودی، مہنت اور شاہ کی ملک بھر میں حکومت ہوگئی۔ جس ریاست میں بابری مسجد کے اس وقت اس ریاست کا وزیر اعلیٰ ایسا شخص ہے کہ بابری مسجد کے ڈھانے میں ان کے روحانی گرو شریک تھے اور شاگرد انھیں اپنا روحانی باپ اور گرو تسلیم کرتا ہے۔ یوپی الیکشن میں زبردست کامیابی کے بعد ہی بی جے پی کی طرف سے مندر بنانے کے عزائم کا اظہار ہونے لگا۔ اور جب مہنت وزیر اعلیٰ ہوگئے تو یہ کہا جانے لگا کہ اب مندر بنانا آسان ہوگیا۔

 بدقسمتی سے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ایسا غیر ضروری مشورہ دے دیا کہ فریقین بیٹھ کر مسئلہ کو حل کرلیں ۔ جب وہ نہیں کرسکیں گے تب عدالت پکچر میں آئے گی۔ اپنی طرف سے ثالثی کی بھی پیشکش کردی۔ اب سبرامنیم سوامی دھمکی دینے لگے کہ اگر مسلمان رضامندی سے مندر کی تعمیر کا فیصلہ نہیں کریں گے تو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اتنے ممبران ہیں کہ آسانی سے قانون بناکر مندر کی تعمیر کا قانون بنالیا جائے گا۔ سوامی یہ جانتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ جسٹس کا مشورہ مشورہ ہے۔ اسے فیصلہ کہنا غلط ہوگا۔ سوامی کو بھی معلوم ہے اور عدالت کو بھی پتہ ہے کہ دستاویز اور ثبوتوں سے بابری مسجد کی زمین کی بات بالکل ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار والے اسے عقیدہ اور ایمان کا مسئلہ بناتے ہوئے جبکہ عدالت میں زمینی تنازعہ Land Dispute کا مسئلہ ہے جسے عدالت کو طے کرنا ہے۔ جذبات اور عقائد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ووٹوں کی سیاست کی وجہ سے یہ جذبات اور عقائد کا مسئلہ سنگھ پریوار والے بنائے ہوئے ہیں ۔

چیف جسٹس نے بھی سنگھ پریوار کے لب و لہجہ سے اسے جذبات اور مذہب کا مسئلہ کہہ دیا جو انتہائی غلط ہے۔ ظاہر ہے جب ملک کا چیف جسٹس ایسا کہہ رہا ہو تو مسلمانوں کو معلوم ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ پھر بھی مسلمان کہہ رہے ہیں کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا وہ تسلیم کریں گے۔ اس سے زیادہ معقول بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ سنگھ پریوار کو خوف ہے کہ کہیں فیصلہ عدل و انصاف کے مطابق نہ ہوجائے۔ وہ عدل و انصاف سے خوف زدہ ہیں ۔ عدالت کی طرف سے اگر اس کا فیصلہ بہت پہلے ہوگیا ہوتا تو سنگھ پریوار جو ہر الیکشن میں فائدہ اٹھا رہے ہیں شاید نہ اٹھا سکتے۔ مسلمانوں کی طرف سے صاف واضح طور پر یہ بات چیف جسٹس کو بتا دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی چال میں مزید نہیں آئیں گے۔ Enough is Enough مسلمان کافی آزما چکے ہیں ۔ مسلمانوں کے اندر مزید آزمانے کی سکت نہیں ہے اور وہ بھی اس موسم میں جبکہ سنگھ پریوار والے قانون اور دستور کی کوئی پرواہ نہیں کر رہے ہیں جہاں دیکھئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں ۔ اس سے خراب صورت حال شاید ہی ملک کی کبھی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کا ان کے آمنے سامنے بیٹھنے سے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ بابری مسجد کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔