حکومت ملنا آسان ہے کرنا بہت مشکل ہے

حفیظ نعمانی

یہ بہت پرانی روایت ہے کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے والا ہوتا ہے تو اسپیکر تمام پارٹیوں کو بلاتا یا بلاتی ہیں ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اجلاس کو سکون سے چلایا جائے جو عوام کے فائدے کے بل (Bill)  ہوں ان پر ضروری بحث کرکے ان کو پاس کرایا جائے ہلڑ ہنگامہ، شور شرابہ کرکے وقت برباد نہ کیا جائے اور وہی گھسا پٹا حساب کہ پارلیمنٹ کا ایک منٹ کتنے کا ہے اور ایک گھنٹہ کتنے لاکھ روپئے کا ہے؟ یہ سب کہتے وقت کسی کو یاد نہیں آتا کہ جب وہ حزب مخالف کی بنچوں پر بیٹھے تھے تو انہوں نے کتنی غنڈۃ گردی کی تھی اور کتنے کروڑ روپئے پارلیمنٹ کے برباد کئے تھے؟

اسپیکر کی دعوت پر یہ بھی روایت ہے کہ مخالف پارٹیاں جاتی ہیں اور قول و قرار کرکے آجاتی ہیں ۔ اس بار تمام مخالف پارٹیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ مودی کی بھیڑ کے ذریعہ ہونے والے ہر دن کہیں نہ کہیں گوشت کو بہانہ بناکر جو درندگی مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں اسے عنوان بناکر حکومت اور اسپیکر کو گھیریں گے۔ وزیراعظم اس بھیڑ کے مکھیا ہیں انہوں نے سب سے پہلے ’’گئورکشا کے نام پر تشدد برداشت نہیں ‘‘ کا نعرہ لگایا اور کہا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کسی کو حق نہیں ۔ یہ جملے حکم نہیں فیشن ہیں ۔ وزیر اعظم نے جو کہا وہ ہوا میں کہا اور مخالفوں کا منھ بند کرنے کے لئے کہا اور جو یہ غنڈہ گردی کررہے ہیں انہوں نے نہ سنا نہ پڑھا اس لئے کہ یہ وہ بھیڑ ہے جسے جان بوجھ کر اونچی ذات کے ہندوئوں نے جاہل اور غریب رکھا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بھیڑ نہ ہو تو مودی دو کوڑی کے بھی نہ رہیں ۔ یہی بھیڑ تھی جس سے اڈوانی نے کہا کہ بابری مسجد گرادو اور انہوں نے گرادی یہی بھیڑ تھی جس سے مودی نے 2002 ء میں گودھرا ٹرین حادثہ کو مسلمانوں کی شرارت قرار دیا اور خبروں کے مطابق ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرا دیا اور جس مسلمان کو گرفتار کیا اس پر پوٹا لگایا اور جن ہندوئوں کو گرفتار کیا ان میں ایک پر بھی پوٹا نہیں لگایا وہ چاہے بجرنگی جیسا چھٹا ہوا بدمعاش ہو۔

نریندر مودی نے 2014 ء کا الیکشن لڑا تب بھی جاہلوں کی ہی یہ بھیڑ ہر جگہ ان کے ساتھ رہتی تھی جن کا کام صرف مودی مودی مودی کے نعرے لگانا ان کے ہر جملہ پر ہو ہو کرنا ارو گائوں کے تھیڑوں میں بیٹھ کر جیسے سیٹی بجائی جاتی ہے ایسی سیٹی بجانا اور ثابت کرنا کہ ہم صرف اسی کام کے لئے آئے ہیں ۔ مودی نے پہلا الیکشن جن نعروں پر لڑا تھا کیا ان کی ہر بات کی وضاحت کرنے والے مختار عباس نقوی بھی یہ بتاسکتے ہیں کہ انہوں نے ان میں سے ایک نعرہ اور ایک وعدہ بھی پورا کیا؟ کیا کسی کے پاس کوئی حساب ہے کہ کتنے نئے اسکول کھلے کتنے نئے بچے داخل ہوئے۔ موٹی موٹی باتیں دہرائیں تو کالا دھن ان کا سب سے اہم موضوع تھا 15  لاکھ والی بات تو بے وقوف بنانے کی تھی اس کا کیا ذکر، اس کے بعد ہر بیان میں کالا دھن چھایا رہا اور نوٹ بندی کے لئے بھی اس کو ہی بہانہ بنایا اور آج 9  مہینے ہونے والے ہیں ابھی تک نوٹ ہی نہ گن سکے۔ جبکہ یہ صرف زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کا کام تھا۔

اور بیٹھے بٹھائے جی ایس ٹی کے جال میں پورے ملک کو باندھ دیا آج 20  دن ہوگئے ہیں ہر کاروباری سر پکڑے بیٹھا ہے کہ وہ کیا کرے؟ اور یہ بھی کالے دھن کے لئے کیا ہے اور اس کا کوئی جواب نہیں کہ وہ جو گنگا کو ماں بنایا تھا اور 20  ہزار کروڑ اس کی صفائی کے لئے دیئے تھے وہ کتنی صاف ہوئی؟ اور کیا وہ اتنے بھولے بابو ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ جو کام قدرت کے کرنے کا ہے وہ انسان نہیں کرسکتا گنگا ہو ، جمنا ہو یا سابرمتی کیا انسان نے بنائی ہے؟ اگر سارے ملک کی دولت لگاکر اور اپنی ساری بھیڑ کو لگاکر بھی مودی چاہیں کہ گنگا ماں کو صاف کرلیں گے تو کیا ان کے اختیار میں ہے کہ صرف جولائی میں جو بارش ہوئی ہے اس کے پانی کے ساتھ کس کس شہر کی ساری گندگی پھر گنگا میں آگئی اسے روک لیں ؟ جاہل ہندوئوں کو گائے گوبر گنگا میں الجھائے رکھنا اور پڑھے لکھوں کو راج نیتی کے ذریعہ چکنی چپڑی کھلانا اور مٹھی بھر ان سرمایہ داروں کو جو ہر موقع پر من چاہی مدد کریں سونے کے محل بنانے کا موقع دینا یہ ہے آر ایس ایس کا منصوبہ جس پر فخر کیا جارہا ہے کہ تینوں بڑے عہدوں پر سنگھ کے سیوک براجمان ہوں گے۔ اور ہر صوبہ کا مکھیا بھی سنگھی ہوگا۔

ہندو ہو یا مسلمان سب کے غور کرنے کی بات ہے کہ جو وعدے تین سال پہلے کئے تھے ان میں ایک پر بھی اب بات ہی نہیں کرتے اور جو کررہے ہیں اس کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ مودی اور ان کے ساتھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ کانگریس کی حکومت انہوں نے ختم کی اور اپنے دم پر اپنی بنالی۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ ’’ملک اللہ کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے‘‘۔ نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد کون سوچ سکتا تھا کہ حکومت تو بڑی بات وہ حزب مخالف بھی نہیں رہیں گے؟ یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے اس لئے کہ ان کے اقتدار کے زمانہ میں 1954 ء سے 1992 ء تک حکومت ہند کی وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 13356  بڑے فسادات ہوئے۔ یہ فسادات ون وے ٹریفک تھے جس میں صرف ایک فریق یعنی مسلمان تباہ اور قتل ہوئے۔ پولیس فورس غنڈوں سے مل کر فریق بن جاتی تھی۔ فسادات کا نشانہ خاص طور پر وہ علاقے ہوئے جہاں کے مسلمان نسبتاً خوشحال تھے اور کسی گھریلو صنعت سے وابستہ ہیں ۔ مثلاً بنارس، مئو ناتھ بھنجن، میرٹھ، مراد آباد، فرید آباد، بھاگل پور، جمشید پور، سنبھل، راوڑ کیلا، کلکتہ وغیرہ وغیرہ۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ہر محکمہ میں چپراسی سے اوپر تک ہر کسی کے ذہن میں تعصب کا زہر بھرا ہوا ہے اور ہر حکومت جمہوری اقدار کو بچانے میں ناکام رہی۔ بی جے پی کے لیڈر یا مودی اس غلط فہمی میں ہیں کہ انہوں نے کانگریس کی مضبوط حکومت کو اُکھاڑ دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ مالک الملک نے کانگریس کو یہ دکھایا کہ تم بداعمالیوں سے باز نہیں آئو گے تو اس پارٹی کے ہاتھوں تمہیں دھول چٹائی جائے گی جس کے پارلیمنٹ میں صرف دو ممبر تھے اور ہمارے پروردگار نے کانگریس کی ہی سازش سے بابری مسجد کی شہادت کی ہوسکتا ہے یہ سزا دی ہو؟ اور دو ممبروں والی پارٹی کے ہاتھوں کانگریس کو 44  ممبروں پر روک دیا۔ ہمارا ایمان ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے آنسو، آہیں اور فریاد کا یہ نتیجہ ہے کہ اب شاید کانگریس کو کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوگا اور اگر پرینکا گاندھی کو سونیا نے میدان میں اتارا تو پورے خاندان کے ٹھکانوں پر سی بی آئی کے چھاپے پڑیں گے۔ اس لئے کہ ہریانہ اور راجستھان میں جو سونیا کے داماد نے کیا ہے اس کا پورا حساب مودی کے پاس آگیا ہے۔ اور اسی لئے پرینکا اور اندرا کی پوتی کا شور تو ہوتا ہے مگر وہ اندرا گاندھی بن کر میدان میں نہیں آتیں ۔

آج کے وزیراعظم مودی کو بھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہئے کہ ہر مقابلہ میں کامیابی جو اُن کے قدم چوم رہی ہے وہ ان کی تقدیر ہے یہ قادر مطلق کا طریقہ ہے وہ حکومت دیتا ہے تو مہلت بھی دیتا ہے اور کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ یا تو اس کے بندوں کے خادم بن کر ان کی ہر مصیبت میں ان کی مدد کرو یا اپنے پاپوں سے پاپ کی ہانڈی بھرو اور پھر وہ ایسی جگہ لے جاکر مارتا ہے کہ ’’آمنت ُ بربِّ موسیٰ‘‘ کہنے کے بعد بھی پناہ نہیں ملتی۔ اسی ملک میں آٹھویں صدی میں ایک مسلمان مجاہد محمد بن قاسم سندھ میں آئے تھے اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ایک کے بعد ایک مسلمان بادشاہ بنے اور جب اورنگ زیب کے ہاتھ میں حکومت آئی تو سمرقند ونجارہ بھی ان کی حکومت میں تھے اور 49  سال حکومت کرکے جب وہ اپنے رب کے پاس گئے تو 1857 ء میں ان کی اولاد کو پناہ دینے والا کوئی نہیں تھا اور جس ملک پر سیکڑوں سال حکومت کی اسے گھر کیا وہاں دو گز زمین قبر کے لئے بھی نہیں ملی۔ اور آج مسلمان مودی کی آواز سن رہے ہیں اور بھیڑ کی حرکتیں جھیل رہے ہیں ۔ اگر وہ مہلت چاہتے ہیں تو اس بھیڑ کو قابو میں کرلیں ورنہ…

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔