حکومت کہتی ہے ’’قادیانی مسلمان ہیں‘‘!

سہیل انجم

پوری دنیا کے مسلمانوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ 1972 میں مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے ایک انتہائی اہم اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔ 1974 میں پاکستان میں آئین میں ترمیم کرکے انھیں غیر مسلم قرار دیا گیا۔ وہاں وہ اپنے پاسپورٹ پر مذہب کے خانے میں اسلام نہیں لکھ سکتے۔ انھیں حج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت کا اصرار ہے کہ قادیانی مسلمان ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے نتائج گزشتہ ماہ جاری کیے گئے ہیں جن میں قادیانیوں کو مسلمانوں میں شمار کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے کی حکومتیں ایسا کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ وہ اس با ت کو سمجھتی تھیں کہ ایسا کرنے سے عام مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ لہٰذا ان حکومتوں نے کبھی بھی قادیانیوں کو مسلمانوں کے خانے میں نہیں رکھا۔ غالباً یہ پہلاموقع ہے جب مردم شماری میں قادیانیوں کو مسلمان کہا گیا ہے۔ اس پر مسلمانوں کی متعدد تنظیموں اور اداروں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث ہند، تبلیغی جماعت اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دینا مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی ایک سازش ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا جا چکا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ قدم اسی جانب اٹھایا جانے والا ایک قدم ہو۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان کو بھی نظرانداز نہیں جا سکتا جس میں انھوں نے قادیانیوں کی یہ کہہ کر تعریف کی تھی کہ وہ مذہبی رواداری اور عالمی بھائی چارے میں یقین رکھتے ہیں۔ بہر حال حکومت کے اس قدم سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔

قادیانی ہندوستان میں تقریباً ایک لاکھ ہیں۔ وہ پوری دنیا میں 6 کروڑ ہیں۔ سب سے زیادہ قادیانی پاکستان میں ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو کہ قادیان پنجاب کا باشندہ تھا نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ قادیان اور غلام احمد کی نسبت سے ان لوگوں کو قادیانی اور احمدی دونوں کہا جاتا ہے۔ عام مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، ان پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ آپ آخری رسول نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ بھی نبی ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس بنیادی عقیدے کو کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، نہیں مانتا تو وہ کافر اور مرتد تو ہو سکتا ہے مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں مرزا یا اس کے پیروکاروں کو مسلمان کیسے مانا جا سکتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اسلام کے مد مقابل ہر چیز اپنی الگ بنا رکھی ہے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت سے وابستہ مولانا انصار اللہ قاسمی کے مطابق قادیانی اپنے پیشوا کو نبی اور پیغمبر مانتے ہیں۔ مرزا کے الہامات کو وحی مقدس کا درجہ دے کر انھیں قرآن مجید کے برابر مانتے ہیں۔ وہ قادیان کو نعوذ بااللہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقابلے میں مقدس مانتے ہیں۔ اسلامی ہجری کیلنڈر کے مقابلے میں انھوں نے اپنا الگ کیلنڈر بنا رکھا ہے۔ یہ باتیں صرف تحریری حد تک نہیں ہیں بلکہ وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں اور قادیانیوں میں بہت فرق ہے۔ پاکستان میں تو وہ مسلمانوں جیسے نام نہیں رکھ سکتے، مسلمانوں کی مسجدوں کی مانند اپنی عبادت گاہیں نہیں بنا سکتے اور دوسری ایسی علامتیں اختیار نہیں کر سکتے جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ان کو بڑی آزادی حاصل ہے۔ مختلف شہروں میں ان کے مراکز قائم ہیں جہاں سے وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں تو ان کی تعداد خاصی ہے۔ جس سے بعض اوقات بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہاں کے اخباروں میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہاروں کی بنیاد پر ہونے والی شادیوں میں گھپلے ہو جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ مسلم لڑکی کی شادی نادانستگی میں قادیانیوں میں ہو گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی ان کو ’مذہبی روادار‘ قرار دیتے ہیں لیکن حیدرآباد ہی کے ایک اردو  ہفت روزہ گواہ نے چند سال قبل قادیانیوں کے خلاف ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا تو قادیانیوں کا ایک جتھا چڑھ دوڑا اور اس کے ایڈیٹر فاضل حسین پرویز کو مارنے اور جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے لگا۔ ابھی جب انھیں مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو اس پر قادیانی بھڑک اٹھے ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ان لوگوں کو ہمارے اسلام کے بارے میں کچھ کہنے کا حق نہیں۔ وہ کون ہوتے ہیں ایسی باتیں کرنے والے۔ ان کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس نے دیا کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔ وہ یہاں پاکستان جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ ہندوستانی آئین نے ہمیں اپنے عقیدے پر چلنے کی آزادی دی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرکزی حکومت ان لوگوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دے گی‘۔

در اصل قادیانیوں کی پیدائش ہی مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے ہوئی تھی۔ برطانوی حکومت کے اشارے پر مرزا نے 1889 میں اس مذہب کی بنیاد ڈالی تھی۔ پہلے بھی پوری دنیا میں اسلام مخالف قوتیں ان کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ ان کی دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے۔ قادیانی ہمیشہ اپنے آقا یعنی انگریزوں کے وفادار رہے ہیں اور اب ہندوستان میں ان کی وفاداری کا رشتہ موجودہ این ڈی اے حکومت سے استوار ہو گیا ہے۔ ان کو مسلمان قرار دینے کے سلسلے میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا ایک تکنیکی پہلو ہے۔ ان کے مطابق مردم شماری والوں نے جب قادیانیوں سے پوچھا ہوگا کہ تمھارا مذہب کیا ہے تو انھوں نے اسلام بتایا ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس وجہ سے ان کو مسلمانوں میں شمار کر لیا گیا۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ حکومت کے اداروں کو معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے کیا نہیں۔ اور پھر اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر سابقہ مردم شماریوں میں بھی ان کو مسلمان قرار دیا جانا چاہیے تھا لیکن سابقہ حکومتیں ایسا کرنے سے بچتی رہی ہیں۔ جہاں تک قادیانیوں اور مسلمانوں میں ٹکراؤ کا معاملہ ہے تو یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جب سے اس مذہب کی بنیاد پڑی ہے اسی وقت سے ہی ان میں مناظرے ہوتے رہے ہیں۔ اہل دیوبند نے بھی ان سے مناظرے کیے اور اہل حدیثوں نے بھی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے تو قادیانیت کی جڑیں کھود کر رکھ دی تھیں۔ یہاں تک کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے انھیں مباہلے کی دعوت دی اور اللہ سے دعا کی کہ جو جھوٹا ہو وہ پہلے مر جائے۔ بالآخر دونوں میں مباہلہ ہوا اور مرزا غلام احمد کا 26 مئی 1908 کو انتقال ہو گیا۔ جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کا انتقال 1948 میں ہوا۔ مباہلے کی روداد دوسرے اخباروں کے علاوہ قادیانیوں کے اخبار  بدر قادیان میں بھی 25؍ اپریل 1907 کو شائع ہوئی تھی اور ان کے انتقال کی خبر ایک دوسرے قادیانی اخبار الحکم میں 28 ؍ مئی 1908 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی پوری تفصیلی مولانا ثناء اللہ امرتسری کے اخبار اہلحدیث میں بھی شائع ہوئی تھی۔ انھوں نے ’تاریخ مرزا‘نام سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا تھا۔ اس میں مباہلے کے سلسلے میں مرزا کا خط بھی شامل ہے۔ اس میں مرزا کا یہ جملہ بھی ہے ’اگر میں کذاب اور مفتری ہوں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہوجاتا ہے‘۔ اسی طرح   دارالعلوم دیوبند کے رسالہ القاسم کے جمادی الاولی 1337ء کے شمارے میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں قادیانیوں سے مناظرہ کے لیے تیار رہنے کا اعلان ہے۔ یہ اشتہار در اصل قادیانیوں کے ایک اشتہار کے جواب میں ہے۔ اگر چہ اب مناظروں کا دور نہیں ہے لیکن اگر حکومت کا یہی رویہ رہا تو مناظرے بھی کسی نہ کسی شکل میں واپس آجائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس قدم کو واپس لے لے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے تاکہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا مزید خراب نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں۔