سنگھ پریوار کیا ہے؟

(آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں )

تحریر: حارث بشیر … ترتیب: عبدالعزیز

(دوسری قسط)

        آر ایس ایس کا تنظیمی پھیلاؤ : مزدور سنگھ اب مرکزی مزدور اجتماعیت یا سنٹرل ٹریڈ یونین آرگنائزیشن (CTUO) ہے۔ مزدور دنیا کے ہر شعبہ میں کام کرنے والی تنظیمیں اس سے الحاق کرسکتی ہیں۔ ان تنظیموں کی مزدور یونین جگہ جگہ کام کرتی ہیں۔ مزدور، ان مزدور یونین کی ممبر شپ اختیار کرتے ہیں۔ اس کا پہلا کل ہند اجلاس دہلی میں 1967ء میں ہوا تھا۔ اس وقت تک سات الحاقی تنظیمیں (مہاسنگھ) قائم ہوچکی تھیں۔ جس کے تحت 541 یونینوں کے کل تقریباً ڈھائی لاکھ ممبران تھے۔ 1984ء میں اس کے ممبران کی تعداد 12 لاکھ 11 ہزار تھی، جبکہ 1994ء میں ممبران کی تعداد 31 لاکھ 17 ہزار تھی۔ 1996ء میں بھوپال کے گیارہویں اجلاس میں 29 مہا سنگھ کی 3739 یونینیں تھیں۔ جن کے ممبران کی تعداد 47لاکھ سے زائد تھی۔ یونینوں کی ممبر شپ کی جانچ کی بنیاد پر 1984ء میں حکومت ہند نے اس کو دوسرے نمبر پر اور 1996ء میں اس کو سب سے بڑی مزدور تنظیم قرار دیا۔ 1997ء میں اس کے ہمہ وقتی کارکنان کی تعداد 200تھی۔ 2002ء میں بھی حکومت ہند نے ممبران کی جانچ پڑتال کے بعد ایک بار پھر اس کو ملک کی سب سے بڑی مزدور تنظیم قرار دیا۔ اس وقت اس کے ممبران کی تعداد تقریباً ایک کروڑ تھی۔

        بھارتیہ مزدور سنگھ مختلف میدانوں میں ملٹی نیشنل کارپوریشن (MNC) کے خلاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے غلامی کا دور واپس آسکتا ہے۔ اس نے ڈنکل تجویزوں کی مخالفت کی ہے۔ اس کیلئے سنگھ پریوار کی ہی ایک تنظیم ’’سودیشی جاگرن منچ‘‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

        عالمی پیمانے پر بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) کے اجلاس میں اس کی شرکت 1977ء سے برابر ہورہی ہے۔ 1985ء میں چین کی مزدور تنظیم نے ان کو اپنے یہاں تاریخ پر مدعو کیا۔ چنانچہ 15 افراد کا وفدوہاں گیا۔ 1955ء میں ماسکو کے ایک اجلاس میں اس کی شرکت ہوئی تھی۔

        مزدور سنگھ ’’وشو کرما سنکیت‘‘ کے نام ہندی اور انگریزی میں ایک ماہ نامہ مرکزی سطح پر نکالتا ہے، اس کے علاوہ علاقائی سطح پر 15 پرچے نکلتے ہیں۔ (12)

        مزدور سنگھ کا ویب سائٹ www.bms.org.inہے۔

        ٭ مذہبی طبقہ میں سنگھ: ایک سیاسی پارٹی (جن سنگھ) کی ہندو شناخت کے باوجود اس کا مذہبی طبقہ میں کام کرنا مشکل تھا۔ جواہر لال نہرو کی حکومت (1947 تا 1964ء)کی فرقہ پرستی مخالف پالیسی نے کسی سیاسی پارٹی کیلئے مذہبی امور کو مضبوطی سے تھامنا دشوار بنا دیا تھا۔ حالانکہ نہرو کی حکومت میں ہندو روایت پسند اور ہندو قوم پرستی کے حمایتی موجود تھے، لیکن سردار پٹیل کی موت (دسمبر 1950ء) کے بعد ان کی طاقت کمزور ہوگئی تھی۔ ایسے ماحول میں دیر سے ہی مذہبی حلقہ میں الگ سے کام کی ضرورت کا احساس بڑھتا چلا گیا۔

        سنگھ کے تجزیہ نگاروں کے مطابق پجاریوں، سنیاسیوں اور مذہبی طبقہ میں اختلافات اور متحدہ نصب العین کے فقدان نے ایک متحدہ ہندو سماج کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اس مسئلہ کے مد نظر گولوالکر نے منتخب افراد کو 29 اگست 1964ء میں بمبئی کے سندیپتی آشرم میں آنے کی دعوت دی۔ وہاں انھیں اس پر غور کرنا تھا کہ مختلف ہندو فرقے اور تحریکیں کس طرح مل کر کام کرسکتی ہیں۔ اس اجلاس میں وشو ہندو پریشد (VHP) کا قیام عمل میں آیا۔ اسی اجلاس میں آر ایس ایس کے ایک پرانے پرچارک شیو راؤ آپٹے کو جنرل سکریٹری بنایا گیا۔

        پریشد کے مقاصد:(1 دنیا بھر کے ہندوؤں میں علاقہ، فرقہ، زبان وغیرہ سے پیدا شدہ تفریق کو مٹاکر انھیں ایک متحدہ اور مضبوط سماج کی شکل میں پیش کرنا۔ (2 ہندوؤں میں اپنے دھرم اور ثقافت کیلئے یقین اور فدا کاری (بھکتی) پیدا کرنا۔ (3 ہندوؤں کے اخلاقی اور فکری اقدار کی حفاظت اور ترقی دینا۔ (4 پچھڑے طبقوں اور باقی ماندہ ہندو سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔ (5 انسانیت کے فائدے کیلئے ساری دنیا میں ہندو سماج کے اصولوں اور طریقوں کی موجودہ زمانے کے مطابق تشریح کرنا۔

        پریشد کے اصول:٭ ہندو سماج میں کوئی طبقہ اچھوت نہیں ہے۔ ٭مختلف طریقہ عبادت پر عمل پیرا سبھی ہندو اسی بڑے سماج کا حصہ ہیں۔ مذہبی مراکز کو صرف بھکتی اور پوجا کے ہی نہیں بلکہ خدمت، سماجی ترقی اور قوت کے مراکز کی شکل میں فروغ دیا جانا چاہئے۔ ٭بھارت کے جن علاقوں میں ہندو اقلیت میں آچکے ہیں یا آنے والے ہیں ایسے علاقوں میں متاثرہ افراد کیلئے پوری دنیا کا ہندو سماج بھائی چارگی ظاہر کرے۔ ٭ مذہب تبدیل کئے ہوئے افراد کا مذہب تبدیل کراکر دوبارہ بسایا جائے۔ (13) گویا انھیں دوبارہ ہندو بنایا جائے۔

        آپٹے نے اس کام کیلئے پہلے کئی سال تیاری کی تھی۔ وہ ایک مراٹھی برہمن تھے۔ 1939ء میں بمبئی میں ایل ایل بی کرنے کے دوران یہ آر ایس ایس میں شامل ہوگئے۔ پھر انھوں نے بہ حیثیت وکیل ہندو قومی لیڈر کے۔ ایم۔ منشی کے ساتھ وکالت شروع کی۔ انھوں نے کئی سال جرنلسٹ کی حیثیت سے بھی کام کیا، پھر پرچارک بن گئے۔ ان کی پہلی ڈیوٹی تاملناڈو میں تھی۔ 1948ء کی پابندی کے بعد سنگھ نے ان پر ایک ہندی نیوز ایجنسی کے قیام کی ذمہ داری ڈالی۔ 1961ء میں انھوں نے مراٹھی پرچہ ’کیسری‘ میں تین مضامین کا ایک سلسلہ لکھا، جس میں ہندو دھرم کے تمام نمائندوں کو متحد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ سب مل کر ہندو دھرم کا دفاع کرسکیں۔ 1963ء میں اس کی تائید میں سوامی چِنمایا نندنے ایک مضمون لکھا، جس میں اس کام کیلئے ایک ’ورلڈ ہندو کانفرنس‘ کے انعقاد پر زور دیا۔ اس کے بعد سے ان دونوں حضرات نے مل کر کام شروع کیا۔ چنمایا نند کیرالہ کے برہمن تھے جو انگریزی لٹریچر میں ایم اے کرچکے تھے۔ بعد میں وہ دہلی میں جرنلسٹ بن گئے۔ رشی کیش کے سادھوؤں پر مضمون لکھتے ہوئے وہ سوامی شیو آنند کے شاگرد بن گئے۔

        شیو آنند نے 1949ء میں ڈوائن لائف سوسائٹی (Divine life Society) قائم کی تھی۔ 1951ء کے بعد سوامی چنمایا نند نے انگریزی میں کئی کانفرنس کا انعقاد ویدانت (علم کا راستہ) وغیرہ پر کیا، جس کے اصل مخاطب مغرب زدہ ہندو تھے۔ اس طرح کی ایک تقریر بعنوان ’ہمیں ہندو ہونا چاہئے‘ میں انھوں نے کہا:

        ’’میرا مشورہ ہے کہ ہمارے لئے عقل مندی کا راستہ یہ ہے کہ ہم ہندو نشاۃ ثانیہ کیلئے کوشش میں لگیں، تاکہ اس کی عظمت میں جو صدیوں سے ثابت ہے، ہم تہذیب و تمدن کی ان بلندیوں تک ترقی کرسکیں جو کہ اس تاریخی سفر میں ہمارا ہی تھا‘‘۔

        علم کا راستہ یا جنن یگنہ (Jinana Yagna)پر متعدد کانفرنسوں کی کافی شہرت ہوئی۔ ایک کا افتتاح صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے بھی کیا۔ سوامی ’ماڈرن گرو‘ تھے جو ایسے مغرب زدہ ہندوؤں کو مخاطب کر رہے تھے جو رسوم زدہ ہندو ازم کو چھوڑ چکے تھے۔ ان کا زور انفرادی ترقی، سماجی مسائل، کامیاب زندگی کیلئے مذہب بہ طور ضابطہ اخلاق وغیرہ امور پر تھا۔ انھوں نے ممبئی میں اپنا آشرم بنام ’’سندیپنی آشرم‘‘ بنایا تھا جس میں ہندو مبلغین کی تربیت کی جاتی۔ موصوف نے امریکہ میں یوگا کو مقبول بنانے کی بھی کوشش کی۔

        اس طرح ماڈرن گرو اور پرچارکوں کا اتحاد ایک نئی تنظیم کا بنیادی پتھر قرار پایا۔ یہ اتحاد بعد میں بھی برقرار رہا۔ (14)

        وی ایچ پی (وشو ہندو پریشد) نے اپنے اس کام میں مذہبی طبقہ کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ دو اور گروہوں کو بھی شامل کیا۔ ایک گروہ پرانے راجہ مہاراجہ کا تھا۔ چنانچہ میسور کے سابق مہاراجہ جیا چمراج واڈیار (1974-1919ء) کو جو آزادی کے بعد کرناٹک اور صوبہ مدراس (تاملناڈو) کے گورنر بھی رہ چکے تھے، پریشد کا صدر بنایا گیا۔ وہ 1969ء تک اس عہدہ پر برقرار رہے۔ پھر ادے پور کے مہاراجہ صدر ہوئے۔ دولت مند طبقے میں ڈالمیا کو شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں ہندو دانشوروں کو بھی شریک کرنے کی کوشش کی گئی، چنانچہ جسٹس راما پرساد مکھرجی جو 1956ء میں ہندستان کے چیف جسٹس رہ چکے تھے، پریشد کا پہلا کارگزار صدر اپریل 1966ء میں بنایا گیا۔ (موصوف شیاما پرساد مکھرجی (1953-1901ء)کے بڑے بھائی تھے۔ دوسرے غیر آر ایس ایس دانشوروں سوشیل منی جین، سنت نلکڈوجی، کرن سنگھ، کے ایم منشی (1971-197ء)، سی پی رما سوامی ایّر (1971-1979ء) بھی پریشد کے نمایاں تاسیسی ممبر تھے۔ موصوف نے گیتا پریس (گورکھپور)، قائم کیا تھا جس نے بڑی تعداد میں سستا ہندو لٹریچر شائع کیا ہے۔ اس ادارے نے 1920ء کے دہے میں مشہور ہندی ماہ نامہ ’کلیان‘ کا اجراء کیا۔ بہر حال پریشد میں ایسے روحانی پیشواؤں کی شرکت کم ہی رہی جو مختلف فرقوں کے سربراہ ہوں۔

        جنوری 1966ء میں کمبھ میلہ (یہ میلہ ہر 12 سال پر گنگا جمناکے دریاؤں کے سنگم الہ آباد میں جس کو سنسکرت میں پریاگ کہا جاتا ہے، لگتا ہے۔ اس میں لاکھوں لوگوں کی شرکت ہوتی ہے) کے موقع پر بین الاقوامی ہندو کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ لیا گیا، تاکہ مختلف فرقوں میں ایک ہونے کا احساس پیدا کیا جائے۔ اس کانفرنس میں 22ملکوں کے 25 ہزار مندوبین کی شرکت رہی، جس میں بعض شنکر آچاریوں (بدری ناتھ اور سری نگر) کے عدم شرکت کے باوجود بڑی تعداد میں اپنے اپنے آشرم یا جدید ایسوسی ایشن کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اس میں ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی جس کا کام ’’ایک ایسا ضابطہ اخلاق بنانا جو ہندو سنسکاروں کی مضبوطی اور ترقی کیلئے مناسب ہو‘‘ کے ساتھ پاکی (Purification) کے رسوم کو سادہ بنانا اور ہندو کیلنڈر کے پانچ خاص تہواروں کو ’سرکاری حیثیت‘ دینا شامل تھا۔ سنگھ کے رسالہ ’آرگنائزر‘ نے دلیل دی کہ عیسائی اور مسلمان عام طور پر اپنے اپنے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے ہیں۔ پریشد نے بھی دو ایسے ضابطے بنائے جو توقع ہے کہ تمام فرقوں کیلئے قابل قبول ہو۔ یہ پراتہ اشنان (صبح کا نہانا) اور ایشور اسمرن (ذکر الٰہی) یہ کم سے کم ضابطہ تھا۔ (15)

        اس ہندو کانفرنس کے فوراً بعد مرکزی ’’مارگ درشک منڈل‘‘ (مرکزی رہنما کمیٹی) قائم کیا گیا جس کے آغاز میں 25 ممبران تھے۔ بعد میں وقتاً فوقتاً اس کا پھیلاؤ ہوتا رہا۔ 1982ء میں اس کے 39 ممبران تھے۔ بعد میں ممبران کی تعداد 200 سے زیادہ ہوگئی۔ یہ ادارہ وقت کے ساتھ باقاعدگی حاصل کرتا گیا۔ اس کی میٹنگ سال میں دوبار ہوتی ہے۔ اس کا کام سماجی، مذہبی وغیرہ معاملات میں پریشد کو مشورہ دینا تھا۔

        تحفظ گائے کی تحریک: اس دور کا دوسرا بڑا کام حفاظت گائے کی تحریک تھی۔ جیسا کہ معلوم ہے گائے ہندوؤں کے بہت بڑے طبقے کیلئے قابل پرستش ہے۔ اس کی عزت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ سنگھ نے اس ایشو کو بڑے پیمانے پر لینے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ 1955ء میں ہی کانگریس کی صوبائی ریاستوں نے یوپی، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ذبیحہ گائے پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔ (سنگھ نے اس معاملہ کو 1952ء میں بھی اٹھایا تھا جس کا ذکر آچکا ہے)۔

        ’’بھارت گئو سیوک سماج‘‘ (بی جی ایس) کے نام سے یہ کام شروع کیا گیا۔ اس کے ذمہ دار اور سرپرست ہنس راج گپتا (بڑے تاجر، آریہ سماجی اور 47ء میں دہلی کے سنگھ چالک بنائے گئے) وسنت راؤ راوک (اصلاً ناگپور کے چتپاون برہمن 27ء میں سنگھ میں شامل ہوئے، 1936ء میں دہلی کے پرچارک بناکر بھیجے گئے) اور تاجر جئے دیال ڈالمیا تھے۔ بی جی ایس نے اگست 1964ء میں ایک کانفرنس بلائی جس کا افتتاح گرو گولوالکر نے کیا۔ دین دیال اپادھیائے (پرچارک اور جن سنگھ کے لیڈر) کی تقریر ہوئی۔ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ذبیحہ گائے پر مکمل پابندی کا کام اپنے ہاتھ میں لے؛ ایک کل جماعتی کمیٹی (جس میں آر ایس ایس، وی ایچ پی، آریہ سماج، ہندو مہا سبھا، رام راج پریشد اور کچھ کانگریسی شامل تھے) بنائی گئی، جس نے 7 نومبر 1966ء میں دہلی میں حفاظت گائے کیلئے ایک بڑا مظاہرہ کیا، جس میں اندازہ ہے کہ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرہ کا خاتمہ پارلیمنٹ ہاؤس کے پاس جلسہ پر ہوا۔ جہاں گولوالکر، کانگریسی سیٹھ گوبند داس، جن سنگھ کے لیڈران (جن سنگھ نے 2نومبر 1966ء کو اپنی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں ایک قرار داد میں اس تحریک کی تائید کی) موجود تھے۔ ایک لیڈر کے پارلیمنٹ پر حملہ پر اکسانے پر بھیڑ بے قابو ہوگئی۔ جن سنگھ کے لیڈر اٹل بہاری واجپئی کے بہت روکنے کے باوجود اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ نتیجہ میں پولس سے مڈبھیڑمیں آٹھ لوگوں کی موت واقع ہوگئی جس میں ایک پولس والا بھی تھا۔ بہر حال جن سنگھ کے حصے میں بہت بدنامی آئی۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس معاملہ کو سختی سے نپٹایا۔ وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ (جن کے ہندو قوم پرستوں سے بہت اچھے تعلقات تھے اور جو ان کے ہمدرد بھی تھے) کو ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ وائی بی چوہان کو عہدہ دیا گیا۔

        تحریک کی ناکامی کے بعد سادھوؤں کی بھوک ہڑتال سے فضا خراب ہوگئی۔ گولوالکر نے گائے کے مسئلہ کو لے کر کانگریس کے خلاف ووٹ کی اپیل کی۔ (16) جس کا فائدہ جن سنگھ کو ہوا۔ یہی غالباً مطلوب بھی تھا۔                                      (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔