حکیموں اور ویدوں کو انگریزی دوائیں لکھنے کی اجازت کیوں؟

حکیم فخرعالم

 

ہندوستان میں حصولِ آزادی کی تاریخ ایک طویل جدّ و جہد سے عبارت ہے۔اس کا مقصد انگریزوں کے تسلط سے محض نجات نہیں تھااونہ صرف غیر ملکیوں سے سادہ طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں زمامِ ِ انصرام و انتظام کی منتقلی تھا،بلکہ اس کوشش کے بڑے وسیع مقاصد تھے،ان میں سب سے اعلیٰ مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اقتدارآجانے کے بعد سو دیسیت اور دیسی امور کو آزادانہ فروغ اور ترقی کے مواقع میسر ہوںگے ،جن کے امکانات برطانوی استیلا کے زمانہ میں محدود یا معدوم ہوگئے تھے۔ہندوستان کی دیسی طبیں یونانی، آیورویداور سدّھا وغیرہ عہدِ غلامی میں نہ صرف مغلوب ہوگئی تھیں ،بلکہ معتوب و مقہور بھی تھیں ۔بالائے ستم یہ کہ غیر سائنسی قرار دے کر ان کی علمی و فنی معتبریت کو مشکوک کرنے کی مذموم کوشش ہو رہی تھی ،طبیبوں اور ویدوں کے ذریعہ بیسویں صدی کے اوائل کی تحریکی سرگرمیاں اسی کے رد عمل میں اور تدارک کے لیے تھیں ۔

حالات سے نبرد آزمائی کے لیے طبیبوں اور ویدوں نے اصلاح ِنصاب کی غرض سے طبِ جدید سے اخذ و استفادے کی روش اپنائی ،اس کے مؤیدین میں اجمل خاں پیش پیش تھے۔یہ قدم نیک نیتی اور صالح فنی جذبہ پر مبنی تھا۔یونانی طب اور آیوروید کے نصاب میں جدید مضامین کی شمولیت کا مقصد ان بزرگوں کا یہ تھاکہ ایلوپیتھک مضامین پڑھ کر دیسی طبوں کے حاملین قدیم و جدید کے درمیان تقابل کریں اور اپنے فن کی خوبیوں پر ان کا اعتماد و یقین پیدا ہواور جدید اسلوب میں اپنے فن پر وارد ہونے الزاموںکا دفاع کرسکیں ۔لیکن نتائج الٹے نکلے اور طلبہ کی نئی نسل اس مخلوط نصاب کو پڑھ کر فنی ارتداد کا شکار ہونے لگی،اس کے ذمہ دار بڑی حد تک استاذۂ وقت تھے کہ وہ طلبہ کے سامنے اپنے فن کی خوبیاں رکھنے میں ناکام رہے ۔اس کی وجہ سے طلبہ کی نگاہوں میں قدیم سرمایہ فرسودہ اور ازکاررفتہ ہوگیا۔ خلافِ توقع صورت ِ حال کے معکوس ہوجانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی کہ اس زمانے میںویدک اور طبی درس گاہوں میں طلبہ اوراساتذہ کی جو نسل داخل ہوئی،یہ دراصل وہ تھی جواپنی نااہلیت یا استعداد کی کمی کی وجہ سے صدر دروازہ سے ایلوپیتھک کالجوں میں داخل نہیں ہوسکتی تھی ،اس محرومی کی تلافی کے لیے اسے ویدک اور طبی کالج مل گئے،جہاں حسرتِ ناتمام کا ادنیٰ صورت میںہی صحیح برآوری کا موقع مل گیا۔نتیجۂ کار طبی درس گاہوں اور ویدک کالجوں سے طبیب اور وید پیدا ہونے کے بجائے ــ’’جھولا چھاپ ڈاکٹر‘‘ نکلنے لگے۔ظاہر ہے کہ ان کالجوں کے قیام اور ان میں طب اور ویدک کی تعلیم و تدریس کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا۔

آزادی کے بعد ہی سو دیسیت کے احیا اور فروغ کا کام شروع ہوگیا تھا،دیسی طبوں کی خود مختارانہ ترقی کے جائزہ کے امکانات معلوم کرنے کے لیے حکومت نے 1947میں چوپڑہ کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔آزاد ہندوستان میںدیسی طبوںکے سلسلے میں یہ کمیٹی اولین قدم ثابت ہوئی۔پھر جدید ہندوستان میں دیسی طبوں کو ترقی اور فروغ کے وسیع تر مواقع حاصل ہوئے۔1970 میں دیسی طبوں میں تحقیقی عمل کے فروغ کے لیے ریسرچ کونسلوں کا قیام عمل میں آیا اور1971 میں دیسی طبوں کے تعلیمی نظام کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن قائم کی گئی،اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ جیسے ادارے وجودمیں آئے۔۔اس وقت دیسی طبوں کے احیاء اور فروغ کے لیے آیوش کی صورت میں ایک مستقل محکمۂ وزارت قائم ہے،جس کا سالانہ بجٹ 1428.65کروڑہے۔462کالجوں میں دیسی طبوں کی تعلیم ہورہی ہے،ان سے ہر سال تقریباً 16000فارغین نکل رہے ہیں ۔تخمینہ کے مطابق اس وقت ملک میں دیسی طبوںکے تقریباً 680000رجسٹرڈ پریکٹشنر ہیں۔

ان اعداد و شمار کی روشنی زمینی حقائق دیکھے جائیں تو مایوسی ہاتھ آتی ہے،اس لیے کہ اس وقت پورے ملک میں بمشکل سو دو سو کی تعداد میں ایسے معالجین ہوں گے ،جو خالص دیسی ادویہ سے علاج و معالجہ کر رہے ہیں۔اس پر ستم یہ ہے کہ مجوزہ نیشنل میڈیکل کمیشن بل ،جو اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیر غور ہے ،اس میں ایک سفارش یہ بھی ہے کہ دیسی طبوں کے معالجین کو ایک برج کورس کروا کر انہیں ایلوپیتھک پریکٹس کی اجازت دے دی جائے ۔ یہ قدم دیسی طبوں کو زندہ درگور کردینے والا ہے۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ دیسی طبوں کے ذمہ داروں کی طرف سے اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔مستزاد یہ کہ دیسی طبوں کے سند یافہ حضرات پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ نیشنل میڈیکل کمیشن بل کے لیے قائم اسٹینڈنگ کمیٹی کو صبح شام یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ ان کی اکثریت بالعموم گائووں ،دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں معالجاتی خدمت انجام دیتی ہے،لہذا انہیں ایلوپیتھک پریکٹس کی اجازے ملتی ہے تو اس سے یہاں کے کے لوگوں کو ماڈرن میڈیسن سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا اور روز مرہ کی طبی ضرورتوں کے لیے ملک کے دور افتادہ باشندوں اور غریب لوگوں کو ایلوپیتھک دوائیں مل سکیں گی۔یہ دلیل نہاہت طفلانہ معلوم ہوتی ہے ۔کیا دیسی طریقہ ہائے علاج میں روز مرہ پیش آنے والی مرضی صورتوں کا کوئی حل نہیں ہے کہ ان کے لیے بھی ماڈرن دوائوں کے سہارے کا محتاج ہوا جائے۔اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پورے انڈین سسٹم آف میڈیسن پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ان کے لیے غریب عوام کے کروڑوں روپے کیوں خرچ کیے جارہے ہیں ؟۔پھر ان کے لیے ایک محکمۂ وزارت،سیکڑوں کالج اور اتنی بڑی تعداد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹس کی کیا ضروت ہے ؟۔

امر واقعہ یہ کہ صحت سے متعلق روز آنہ پیش آنے والے مسائل میں دیسی دوائیں نہایت موثر اور مفید ہیں۔ دیہی عوام جن کے درمیان انڈین سسٹم آف میڈیسن کے فارغین اکثر طبی خدمت انجام دیتے ہیں ،یہ لوگ روز مرہ کے اپنے صحتی مسئلوں کا حل دیسی طریقہ سے زیادہ پسند کرتے ہیں ،کم از کم شہریوں کے مقابلہ میں ۔لہٰذا اگر انڈین سسٹم آف میڈیسن کے فارغین اپنی دوائوں کے ذریعہ عوام کی خدمت کریں تو عوامی منشا بھی پورا ہوگا اور ہندوستانی معالجاتی نظام کا فروغ بھی ہوگا ۔اکثر انڈین سسٹم آف میڈیسن کے لوگ اپنے لیے ایلوپیتھک پریکٹس کی اجازت کے حق میں یہ دلیل بھی دیتے پائے جاتے ہیں کہ دورانِ تعلیم جب وہ جدید مضامین پڑھتے ہیں تو جدید ادویہ کے استعمال کے وہ مجاز کیوں نہیں ہیں ۔دراصل یہ سوال کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں جدید مضامیںکی تعلیم اس لیے دی جارہی ہے کہ جدید اسلوب سے انہیں آگہی ہو اور ان کے اندر فکری بصیرت پیدا ہو،انہیں جدید مضامین کی تعلیم اس لیے ہرگز نہیں دی جاتی وہ دیسی طبیں پڑھ کر بازار میں انگریزی دوائیںبیچنے بیٹھ جائیں ۔ آخر یہ سادہ سی بات ان فارغین کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جب انہوں نے اپنی مرضی سے دیسی طبوں کی تعلیم اختیار کی ہے تو وہ انگریزی دوائوں سے پریکٹس کے خواہاں کیوں ہوجاتے ہیں ۔ اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ طبقۂ عوام میں ان کی دوائوں کی مانگ نہیں ہے اور لوگ دیسی ادویہ سے رغبت نہیں رکھتے تو ذمہ داروں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ باشندگانِ ملک جس چیز کو پسند ہی نہ کرتے ہوں ،اس کے لیے اتنے تام جھام کی ضرورت کیوں ؟۔

آزادی کے بعد ملک میں دیسی طبوں کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو اس لیے وسعت دی گئی تھی کہ یہ طریقہ ہائے علاج جو ہماری تہذیبی میراث کا حصہ ہیں ،ان کا فروغ ہو اور ملکی باشندوں کو علاج و معالجہ کے بہتر متبادل فراہم ہوں ،لیکن اس کے علیٰ الرغم اگر تعلیم و تحقیق کے ادارے دیسی معالجین کے بجائے دوسرے اور تیسرے درجہ کے ایلو پیتھک ڈاکٹر پیداکرنے لگیںتو پھراس مسئلہ پر ذمہ داروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی حاجت ہے اور نیشنل میڈیکل کمیشن کی اس شق کی شدید مخالفت کی ضرورت ہے ،جس میں چھ مہینے کے برج کورس کے ذریعہ انڈین سسٹم آف میڈیسن کے حاملین کو ایلوپیتھک دوائوں سے معالجہ کی اجازت دینے کی تجویز ہے۔

اگر یہ تجویز رو بہ عمل ہوجاتی ہے تو دیسی معالجاتی نظام کے معدودے چند پریکٹشنر جو خال خال نظر آجاتے ہیں ،شاید وہ بھی معدوم ہوجائیں گے ۔ یہاں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن(سی سی آئی ایم) کے ذمہ داروں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے نصاب میں ایسی کیا کمی ہے کہ اسے پڑھ کر دیسی معالجین پیدا ہونے کے بجائے آدھے ادھورے ڈاکٹر پیدا ہو رہے ہیں۔یہ اپنے ناموں کے ساتھ حکیم یا وید لکھنے کے بجائے ’’ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگاکراپنی اصل شناخت چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو غلط پہچان بتاکر اخلاقی جرم بھی کرتے ہیں۔

2 تبصرے
  1. راشد الاسلام انصاری کہتے ہیں

    جناب حکیم فخر عالم صاحب نے بڑی بے باکی سے اور حوالے کے ساتھ اپنی بات تفصیل سے اور بالکل واضح کر دی ہے حاملین طب کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس برج کورس اور بل کی مخالفت ضروری تعلیم طب اور ترویج طب کے لئے اشد ضروری ہے. میں زاتی طور پر حکیم فخر عالم صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں .

  2. حکیم عبدالحسیب انصاری کہتے ہیں

    طب یونانی کے ادنٰی طالب علم کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتباہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہم طب یونانی کو پڑھیں اور جب پڑھیں گے تو اس کے رموز سے آگاہ ہوسکیں گے، صحیح طور پر آگاہی موجودہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تو نہیں البتہ بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا. پھر ہمارا یقین بڑھے گا اور ہم بھی صف اول میں خود کو کھڑا پائیں گے، ورنہ ہماری مثال
    کوا چلا ہنس کی چال
    اپنی چال بھول گیا
    کے مصداق ہوکر رہ جائے گی. اللہ تدبر، تفکر اور تیقن سے نوازے آمین
    اللہ حکیم فخرعالم صاحب کو یونانی کی صحیح صورت اجاگر کرنے اور بہترین آبیاری کرنے کا مزید حوصلہ دے. آمین یا رب العالمین

تبصرے بند ہیں۔