حکیم اجمل خاں اور طبّی لغت نویسی

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں (م۱۹۲۷ء) متعدد حیثیتوں سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے سیاسی اور طبی پہلؤوں پر تو خوب لکھا گیا ہے، لیکن ان کی قدر و منزلت اور عظمت کا ایک پہلو ایسا ہے، جس پر بہت کم کام ہوا ہے اور وہ ہے ان کی علمی حیثیت۔ طبی موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں انھوں نے اہم موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے  اور اہم مسائل چھیڑے ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو عموماً پردۂ خفا میں رہا ہے، وہ یہ کہ وہ عربی زبان کے ایک ممتاز اسکالر تھے۔ انھوں نے طب میں جو کچھ لکھا ہے، عربی زبان میں لکھا ہے[سوائے ایک رسالہ طاعون کے]۔ ان کی آٹھ مطبوعہ کتابیں عربی زبان میں ہیں اوران کی جو کتابیں شائع نہ ہو سکیں اور بعد میں حوادثِ زمانہ کی نذر ہو گئیں وہ بھی عربی زبان میں تھیں۔

عربی زبان میں حکیم صاحب کی مہارت اور علمی حلقوں میں اس کے اعتراف اوران کی قدر افزائی کا ایک مظہر یہ ہے کہ مجمع اللغۃ العربیۃ دمشق(شام) نے انہیں اپنااعزازی رکن نام زد کیا تھا۔ اس اکیڈمی کا سابقہ نام المجمع العلمي العربي ہے۔ اس کا قیام ۱۹۱۹ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ایک بین الاقوامی اکیڈمی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اہل علم اور عربی زبان و ادب کے ماہرین اس کے ارکان ہیں۔ اس اکیڈمی کے قیام سے اب تک ہندوستان سے اس کے صرف سات ارکان رہے ہیں، جن میں سے پہلے حکیم اجمل تھے۔ اس سے ان کی عظمت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

طب کے میدان میں عربی زبان میں حکیم اجمل کا ایک کارنامہ ان کی تصنیفمقدّمۃ اللغات الطبّیّۃ ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ایک طرفحکیم اجمل کی عربی زبان وادب پر مہارت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے تو دوسری طرف اس سے فنِ طب میں بھی ان کی مہارت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ عربی زبان کی نزاکتوں سے پوری طرح واقف تھے اور طب میں مستعمل عربی زبان کے الفاظ واصطلاحات کے اصول، مآخذ اور اشتقاق کی باریکیوں پربھی ان کی نظر تھی۔  یہ کتاب اس میدان میں ان کی عبقریتِ شان اور عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حکیم صاحب ایک مبسوط طبی لغت تیار کرنا چاہتے تھے، لیکن افسوس کہ وہ یہ کام شروع نہیں کرسکے، یا اگر شروع کر چکے تھے تو اسے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے اور وہ ناتمام غیر مطبوعہ مسودہ حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگیا۔ البتہ انھوں نے اس کا مقدمہ تیار کرلیاتھا جو مقدّمۃ اللغات الطبّیّۃ کے نام سے ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۵ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ اس ’مقدمہ ‘ کے دیباچہ میں انھوں نے  بہ اختصار اس مجوزہ طبی لغت کا خاکہ درج کیا ہے اور وہ ضروری باتیں ذکر کی ہیں جنھیں وہ اس کتاب کی تالیف کے دوران پیشِ نظر رکھتے۔ طبی لغت نویسی کے موضوع پر یہ ایک بہت اہم رسالہ ہے۔ یہ لغت کی کوئی کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ طبی فقہ اللغۃ کے مثل ہے اورحکیم اجمل خاں کے الفاظ میں ’’اس کی حیثیت کلیات کی ہے ‘‘۔ اس کے ذریعے طبی الفاظ و اصطلاحات کے اشتقاق، استعمال، وجوہ تشابہ و تضاد اور دیگر ضروری باتوں کا علم ہوتا ہے۔

 اس مقالہ میں حکیم اجمل  کے اسی رسالہ کا تجزیاتی مطالعہ مقصود ہے.

طبّی لغت نویسی :

اطباء نے شروع سے طب میں مستعمل اہم الفاظ و اصطلاحات کی وضاحت اپنی کتابوں کی ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ماقبل اسلام عہد کے اطبا میں جالینوس (۱۳۰۔ ۲۰۰ء) اس حیثیت سے شہرت رکھتا ہے کہ اس کی کئی کتابیں اس موضوع پر تھیں۔ عہد ِاسلامی میں بھی اس موضوع پر خاطر خواہ کام ہوا ہے۔ متعدد اطباء نے اپنی تصانیف کا ایک حصہ طبی اصطلاحات کی تفہیم کے لیے وقف کیا ہے۔ اس سلسلے میں محمد بن زکریا رازی (۸۶۵۔ ۹۲۵ء) کی ’’کتاب الجامع ‘‘، ابو القاسم زہراوی (گیارہویں صدی عیسوی )کی’کتاب التصریف ‘‘،  ابن حشّاء (اوائل تیرہویں صدی عیسوی) کی کتاب ’’مفید العلوم ومبید الہموم ‘، لسان الدین ابن الخطیب (وسط ۱۴ ویں صدی ) کی تصنیف ’’کتاب الوصول لحفظ الصحۃ فی الفصول ‘‘، عبید اللہ بن بختیشوع (اوائل گیارہویں صدی عیسوی) کی تالیف ’’الروضۃ الطبیۃ ‘‘ اور مسعود بن محمدسجزی  ( اوائل چودھویں صدی عیسوی ) کی تالیف ’’حقائق أسرار الطب ‘‘کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مسلم اطباء کی اس سلسلہ میں بعض مستقل تصانیف بھی ہیں۔ مثلاً ابو منصور حسن بن نوح القمری(م ۱۰۰۰ء) نے کتاب ’’التنویر فی الاصطلاحات الطبیۃ‘‘ لکھی تھی۔ اس میں اس نے مختلف ابواب کے تحت طبی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح کی ہے۔ ہندوستان میں بھی طبی لغت نویسی کے میدان میں خاصا کام ہوا ہے اور متعدد اہم لغات تیار ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں نور الدین شیرازی( مؤلف الفاظ الادویہ) اور عبد الوہاب(مؤلف لغات قطبیہ) کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔

بحر الجواہر :

طبی لغت نویسی کے میدان میں ایک مشہور نام محمد بن یوسف الہروی (سولہویں صدی عیسوی) کا ہے۔ اس نے ایک کتاب ’’جواہر اللغۃ ‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو شائع نہ ہوسکی۔ اس کی ایک دوسری کتاب ہے جس کا نام ’’بحر الجواہر في تحقیق المصطلحات الطبیۃ ‘‘ ہے۔ یہ ۱۸۳۰ء؁ میں کلکتہ سے شائع ہوئی تھی۔ بعد میں مطبع مجتبائی دہلی اور مطبع نامی لکھنؤ سے بھی اس کی اشاعت ہوئی۔ اس میں اس نے حروفِ تہجی کی ترتیب سے طبی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و توضیح کی ہے۔

اس کتاب کوکو طبی حلقوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، مگر اس میں بہت سی اغلاط اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ حکیم اجمل نے اپنی کتاب مقدمۃ اللغات الطبیہ  کی ابتدامیں لغت کی عام کتابوں پر نقد کرتے ہوئے خاص طور پر بحر الجواہر  کو نشانہ بنایا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’ میں نے بتوفیقِ الہٰی علمِ طب کی اکثر کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک ’’بحر الجواہر ‘‘ ہے۔ خیال تھا کہ یہ کتاب اسم با مسمیٰ ہوگی اور قیمتی موتیوں اور جواہرات سے مالا مال ہوگی۔ لیکن یہ دیکھ کر تعجب اور افسوس ہوا کہ اس میں جواہرات کے بجائے خزف ریزے بھرے پڑے ہیں اور وہ بے سروپا باتوں اور بے بنیاد اقوال سے پر ہے۔ اس کا مصنف قابلِ ذکر باتوں کو چھوڑ دیتا ہے اور نا قابلِ اعتبار چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ ‘‘

آگے لکھتے ہیں:

’’ہروی نے جہاں حمّٰی دِقّی کا نام لکھا ہے وہاں وہ سرگرداں نظر آتا ہے۔ چناں چہ کبھی اس کا نام افطیقوس ذکر کرتا ہے تو کبھی اقطیفوس، کہیں انطیقوس لکھتا ہے تو کہیں اقطیقوس۔ اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ جو کتابیں اس کے، یا جن سے  اس نے نقل کیا ہے، ان کے پیش نظر تھیں، ان میں ان ناموں کے سلسلہ میں اختلاف تھا۔ چناں چہ اس نے یہ سمجھ لیا کہ یہ سب حمّی دِقّی کے نام ہیں …‘‘ ۲؎

ایک نئی طبی لغت کی ضرورت:

ان وجوہ سے حکیم اجمل خاں نے ایک ایسی لغت تصنیف کرنے کا ارادہ کیا جو مطلوبہ ضرورتوں کو پورا کرے اور اغلاط و شوائب سے پاک ہو۔ لکھتے ہیں:

’’چناں چہ جب میں نے دیکھا کہ اس فن کی مشہور کتابیں بھی غائرانہ مطالعہ کرنے پر درجۂ اعتبار سے گرجاتی ہیں تو ارادہ کیا کہ طبی لغت کی ایک ایسی جامع کتاب تصنیف کروں جو شوائب سے پاک و صاف اور آبِ چشمۂ حیواں کی طرح خالص ہو۔ لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کام شروع کرنے سے پہلے ایک مقدمہ تصنیف کروں جس کی حیثیت کلیات کی ہو۔ اس کے بعد اصل کتاب کی تصنیف شروع کروں۔ ‘‘

مقدمۃ اللغات الطبیۃ- مباحث کا تعارف

  یہ رسالہ چونتیس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کی درج ذیل فہرست سے اس کے متنوع مباحث کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے :

1۔        شاذ الفاظ

2۔       مختلف فیہ الفاظ

3۔      معرّب اور دخیل الفاظ

 4۔      مولَّد الفاظ

5۔      وہ معرَّب اور دخیل الفاظ جن کے ہم معنی عربی الفاظ بھی ہیں۔

6۔       حقیقت و مجاز

7۔      نِسَب اربعہ( چار نسبتیں )

 8۔      اشتقاق

9۔      نَحت

10۔      تخفیف

11۔    مفرد اور مرکب الفاظ

12۔    امثال

13۔    وہ الفاظ جن پر اب، ام یا بنات داخل ہوتے ہیں۔

14۔    مُعرب (باعراب حکائی ) الفاظ

15۔    وہ الفاظ جو بصورت ِتثنیہ مستعمل ہیں۔

16۔    وہ الفاظ جو بصورت ِجمع مستعمل ہیں۔

17۔    اسماء قویٰ

18۔    کچھ متنوع الفاظ

19۔    وہ الفاظ جن میں باہم کچھ فرق ہے۔

20۔    ادویہ کے اسماء والقاب

21۔    متضاد الفاظ

22۔    مترادف الفاظ

23۔    وہ الفاظ جن کے ہم معنی عربی الفاظ نہیں ہیں۔

24۔    اضافت

25۔    وہ الفاظ جنھیں عام بول کر ان سے خاص مفہوم مراد لیاجاتا ہے۔

26۔    دوزبانوں سے مرکب الفاظ

27۔    اشتراک لفظی اور مشابہت

28۔    وہ الفاظ جنھیں عام طور پر غلط پڑھاجاتا ہے۔

29۔    غیر منصرف الفاظ

30۔    اسماء منسوبہ

31۔    وہ الفاظ جو بیک وقت کئی احوال پر دلالت کرتے ہیں

32۔    وہ الفاظ جو قریب قریب ایک جیسے لکھے جاتے ہیں۔

33۔    وہ الفاظ جن سے مراتب پر دلالت ہوتی ہے۔

34۔    وہ الفاظ جو خود اصطلاحی نہیں، لیکن ان کی اقسام اصطلاحی ہیں۔

 حکیم اجمل نے ہر باب کے تحت اطناب سے گریز کرتے ہوئے محض چند مثالیں ذکر کی ہیں اور ان کے ذریعے متعلقہ قواعد اور وجوہ کی وضاحت کی ہے، تاکہ ان کی روشنی میں دوسرے الفاظ اور اصطلاحات کو سمجھا جاسکے۔

 ماہرینِ لغت کے حوالے:

حکیم اجمل نے اس رسالہ میں ایک طرف قدیم اطباء کے جابجا حوالے دئیے ہیں تو دوسری طرف ماہرینِ لغت سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے اقوال ذکر کیے ہیں۔ ذیل میں ان ماہرین لغت کے نام ذکر کیے جاتے ہیں جن کے حوالے آئے ہیں :

  زبیدی  (۱۷۹۰ء)

 مطرزی  (۱۲۱۳ء)

 قالی  (۹۶۷ء)

 جوہری  (۱۰۰۳ء)

 جمال الدین بن مالک

 ابو الحسن علی بن سلیمان بن اسعد بن علی بن تمیم (۱۲۰۲ء)

بعض ماہرین لغت کا نام صراحت سے نہیں ذکر کیا ہے، بلکہ ان کی کتابوں کی نسبت سے ان کا حوالی دیا ہے، مثلاً:

  صاحب المفتاح

 صاحب دیوان العرب

  صاحب المشکل

 صاحب الفصول (عبید اللہ قرطبی)

تحقیق وتنقید :

حکیم اجمل نے اس کتاب میں طبی الفاظ واصطلاحات کے رائج معانی ذکر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ تحقیق کرکے ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اطباء کے بیان کردہ بعض معانی کو غلط قرار دیا ہے اور ان پر تنقید کرکے اپنی لغوی معرفت کی روشنی میں صحیح معانی کی نشان دہی کی ہے۔ اسی طرح اگر ان کی نظر میں بعض طبی نظریات مشاہدہ کے برخلاف تھے تو ان سے اختلاف کرکے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے:

سرسام ایک مشہور مرض ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ یہ لفظ دو مختلف زبانوں کے الفاظ سے مرکب ہے۔ سرفارسی زبان کا لفظ ہے اور سام عربی زبان کا۔ بعض لوگوں نے سام کو یونانی زبان کا لفظ قرار دیا ہے۔ حکیم اجمل کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں الفاظ فارسی زبان کے ہیں۔ فرماتے ہیں :

’’لفظ سرسام کے بارے میں بعض نے کہا ہے کہ یہ یونانی لفظ ہے، اس کی اصل سرسیموس ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ فارسی اور یونانی سے مرکب ہے۔ سرفارسی لفظ ہے اور سام یونانی ہے، جس کے معنی ورم کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ فارسی اور عربی سے مرکب ہے۔ سرفارسی اور سام عربی ہے جس کے معنی موت یا مرض کے ہیں۔ یہ اختلاف بعض لوگوں کی یونانی زبان سے  عدمِ واقفیت کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ یونانی میں یہ لفظ نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسے فارسی اور یونانی سے مرکب قراردیا ہے وہ بھی ناواقفیت کا شکار ہیں، کیوں کہ انھیں بھی نہیں معلوم کہ یونانی اور فارسی زبانوں کا کبھی اختلاط ہی نہیں ہوا کہ ان کی ترکیب سے اسماء وجود میں آئیں۔ جو لوگ اسے فارسی اور عربی سے مرکب کہتے ہیں وہ بھی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس لفظ کے دونوں اجزاء فارسی کے ہیں۔ سام آماس کا مقلوب ہے۔ اس کے معنی ورم کے ہیں، جیسا کہ بعض فارسی کتابوں میں بصراحت مذکور ہے ‘‘ (ص: ۱۸)

الفاظ و معانی کا رشتہ:

حکیم اجمل نے ایک باب میں یہ بحث کی ہے کہ کسی لفظ یا اس کے معنی کے سلسلہ میں اطباء کے درمیان کیوں اختلاف ہوجاتا ہے ؟کسی لفظ کے سلسلہ میں اختلاف کا سبب انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ یا تو اس لفظ کو ادا کرنے میں غلطی ہوتی ہے، یا سامع اسے ٹھیک سے سن نہیں پاتا ہے، اگر صحیح سن لیتا ہے تو یادداشت کمزور ہونے کے باعث کچھ عرصہ کے بعد وہ اسے دوسری طرح بیان کرتا ہے۔ اسی طرح کسی لفظ کے معنی میں اختلاف عدم واقفیت کی بناپر ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں :

’’حاصل یہ کہ کسی لفظ کے سلسلہ میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہوتا، کیونکہ واضع ایک لفظ کو اس کی حرکات، سکون اور حروف میں تحقیق کے ساتھ وضع کرتا ہے۔ اس میں جو کچھ تغیر ہوتا ہے وہ مذکورہ بالا اسباب یا انہی جیسے کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر ہوتا ہے۔ اسی طرح در حقیقت معنی میں اختلاف نہیں ہوتا، بلکہ ایسا حقیقت سے عدمِ واقفیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ مثلاً اوقیہ کا لفظ ایک خاص وزن پر دلالت کرنے کے لیے وضع کیا گیا، پھر لوگ اس کا استعمال دوسرے مختلف اوزان کے لیے کرنے لگے۔ اس طور پر حقیقت تو ایک ہی ہوئی۔ اسی طرح لفظ فالج پہلے پورے بدن یا اس کے ایک جزء(خواہ وہ کوئی ایک عضو ہو ) میں واقع ہونے والے استرخاء پر دلالت کے لیے وضع ہوا۔ پھر جب اطباء نے دیکھا کہ استرخاء سرکے علاوہ بدن کے صرف ایک ہی جانب ہوتا ہے تو انھوں نے کہا کہ فالج وہ عام استرخاء ہے جو سر کے علاوہ طول میں بدن کے ایک جانب ظاہر ہوتا ہے۔ یہی تعریف جمہور کے نزدیک ہے ‘‘(ص ۲۰)۔

معانی کے معمولی فرق، مراتب، اسی طرح امراض کی مختلف کیفیات یا زمانوں کے اظہار کے لیے الگ الگ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ حکیم صاحب نے مثالوں کے ذریعہ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’حرارت کے کئی مراتب ہیں، جن کی وجہ سے ادویۂ حارّہ کی تاثیرات مختلف ہوتی ہیں، مثلاً دواء میں تسخین کی خاصیت اس وقت پائی جاتی ہے جب وہ اعتدال سے نکل جائے اور اس میں کسی حد تک حرارت پائی جائے۔ پھر اگر حرارت میں اضافہ ہو تو وہ تلطیف کرے گی۔ اور اگر تلطیف کی حدسے بھی تجاوز کرجائے تو تحلیل کرے گی، پھر مزید حرارت بڑھے تو  اس سے جلاء ہوگا۔ اس لیے ہر حار دواملطّف یا محلّل یا جالی نہیں ہوگی ‘‘۔ (ص : ۵۷)

دوسری جگہ لکھتے ہیں :

’’اطباء بعض امراض کے لیے ان کے مراتب کے اعتبار سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً مرض کی ابتدا ء کو ایک خاص نام سے پکارتے ہیں، اس کے زمانۂ اشتداد کے لیے دوسرالفظ بولتے ہیں اور انتہا کے وقت تیسرا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب معدہ کسی چیز کو دفع کرنا چاہتا ہے تو اسے غثیان(متلی) کہتے ہیں۔ اگر یہ حالت قائم رہے تو اسے تقلّب النفسکا نام دیتے ہیں۔ پھر معدہ اس شئے کو دفع کرنے کی کوشش کرے لیکن منھ سے کچھ نہ نکلے تو اسے تہوّع (ابکائی) کہتے ہیں اور اگر ساتھ ہی کچھ منہ سے نکلے بھی تو اسے قے کہتے ہیں ‘‘(ص :  ۷۷۔ ۷۸)

عجمی الفاظ کو عربی میں کس طرح منتقل کیا جائے؟

اہلِ عرب کا جب بلادِ عجم کے باشندوں سے اختلاط ہوا تو انھوں نے ان کی زبان کے بعض الفاظ سیکھ لیے اور ان کا استعمال کرنے لگے۔ اسی طرح جب  غیر عربی زبانوں کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا تو ترجمہ کرنے والوں نے بعض عجمی الفاظ باقی رکھے۔ اسی طرح بعض امراض صرف ممالک ِعجم ہی میں پائے جاتے ہیں۔  اگر کوئی عربی طبیب ان کا اپنی کتاب میں تذکرہ کرنا چاہے تو اس کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ان کا اپنی کتابوں میں استعمال کرے۔ ان وجوہ سے بہت سے عجمی الفاظ کا طب میں استعمال ہوا۔ اس کی دو صورتیں ہوئیں : یا تو انھیں جوں کا توں اختیار کر لیا گیا، یا ان میں کچھ تبدیلی کرکے استعمال کیا گیا۔ جن الفاظ کو جوں کا توں اختیار کیا گیا انھیں ’ دخیل ‘ اور جن کو ان میں کچھ تبدیلی کرکے استعمال کیا گیا انھیں ’ معرّب ‘کہتے ہیں۔ کسی عجمی زبان سے عربی زبان میں منتقل کرنے کے عمل کو تعریب کہتے ہیں۔ طبی الفاظ واصطلاحات کے سلسلہ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ حکیم اجمل خان نے کتاب کے متعدد ابواب میں اس سے بحث کی ہے اور تعریب کے کچھ اصول مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’تعریب کا انحصار تین امور پر ہے : اصل لفظ میں زیادتی، اصل لفظ میں کمی، بعض حروف کی تبدیلی دوسرے حروف سے ‘‘ (ص :۲۶) انھوں نے لکھا ہے کہ جن حروف کی ادائیگی اہل عرب کی زبان پر با رہوتی ہے انہیں وہ ایسے حروف سے بدل دیتے ہیں جن کی ادائیگی زبان پر بار نہیں ہوتی۔ ‘‘(ص:۲۳) ان تمام باتوں کی وضاحت کے لیے انہوں نے کثرت سے مثالیں دی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ : ’’تعریب کے کچھ متعین اصول نہیں ہیں کہ ان کی پابندی کی جاسکے، بلکہ یہ تعریب کرنے والے عام اہل عرب کی رائے پر موقوف ہے۔ ‘‘ ( ص: ۲۴) اس موضوع پر حکیم صاحب نے بہت نفیس بحث کی ہے۔ یہاں صرف ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے :

’’مترجمین اور عرب بعض حروف کی تقدیم و تاخیر کردیتے ہیں، مثلاً نارجیل۔  اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نالجیر کا معرّب ہے۔ کبھی ایک حرف کا اضافہ کردیتے ہیں مثلاً اہلیلج۔ کبھی دو حروف کا اضافہ کردیتے ہیں مثلاً شوربا کہ اس میں تعریب کے وقت انھوں نے ج اور ہ کا اضافہ کرکے شور باجہ کہا۔ بسااوقات عجمی لفظ میں تین حروف کا اضافہ کردیتے ہیں، مثلاً اسطوانۃ(جو ستون کا معرّب ہے ) میں دو الف اور ہ کا اضافہ کیا۔ کبھی ایک حرف کو حذف کردیتے ہیں۔ مثلاً میبہ کہ اس میں ایک حرف حذف کردیا گیا۔ اس کی اصل می بہی تھی۔ کبھی ایک لفظ میں سے دو حروف حذف کردیتے ہیں۔ مثلاً بیمارستان میں سے ب اور ی حذف کرکے اس کا معرب مارستان بنالیا ‘‘ ( ص :  ۲۵۔ ۲۶)

طب میں دواؤں اور بیماریوں وغیرہ کے نام کیوں کر رکھے گئے؟:

طب میں بہت سی بیماریوں، دواؤں اور دیگر چیزوں کے نام مجازی طور پر رکھے گئے ہیں۔ ان کی تحقیق سے بہت سی دلچسپ باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ حکیم اجمل خاں نے اس موضوع پر بہت اچھی بحث کی ہے۔ کتاب کا چھٹا باب انھوں نے ’’حقیقت و مجاز‘‘ کا قائم کیا ہے۔ مجاز کے تحت ان کی بحث کا خلاصہ سطور ِذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ مجاز کی کئی صورتیں ہیں :

1۔ سبب بول کر مسبّب مراد لیا جائے، مثلاً اطباء سوداوی مرض کو مالیخولیاکہتے ہیں۔ یونانی زبان میں مالیخولیا کے معنی خلط اسود کے ہیں۔ چوں کہ یہ خلط اس مرض کا سبب بنتی ہے اس لیے اس مرض کو بھی یہی نام دے دیا گیا۔

2۔ کسی شے کا نام دوسری شے سے مشابہت کی بنا پر رکھ دیا جائے، مثلاً داء الاسد، داء الفیل اور داء الثعلب وغیرہ۔

3۔ کل کو جزء کے نام سے موسوم کیا جائے، مثلاً دواء الکرکم، یہ ایک مرکب ہے۔ اس کے اجزاء میں سے ایک کرکم (زعفران ) ہے۔ اسی پر اس دوا کانام رکھ دیا گیا۔

4۔ خاص کو عام کے لفظ سے موسوم کیا جائے مثلاً مِرّۂ صفراء۔ اگر چہ یہ لفظ صفراء کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ لیکن اطباء نے یہ نام صفراء کی اس مخصوص قسم کو دے دیا جس میں مائیت کی آمیزش ہوجائے۔

5۔ قوۃ پر فعل کا اطلاق کردیا جائے۔ مثلاً گوشت اور گیہوں کو غذا کہتے ہیں، حالانکہ وہ بالفعل نہیں، بلکہ بالقوۃ غذا ہیں۔ وہ غذا اس وقت بنتے ہیں جب ہضم ہوکر عضو کا جزء بن جائیں۔

6۔ کسی شئی کا نام اس کی سابقہ حالت پر رکھ دیا جائے، مثلاً کہتے ہیں کہ چاول یا گوشت نے بدن میں یہ تاثیر دکھائی۔ یہاں چاول یا گوشت کہنا علی سبیل المجاز ہے۔ یعنی وہ شئی جو پہلے چاول یا گوشت کی شکل میں تھی، اس نے تاثیر دکھائی۔

7۔ کسی شئی کو پیش آنے والے عارضہ سے موسوم کیا جائے۔ مثلاً پھیپھڑے میں قرحہ بن جائے تو اسے سلّ کا نام دیتے ہیں۔ لغت میں سل دبلے پن کو کہتے ہیں۔ چونکہ قرحہ کے نتیجے میں دبلا پن لازمی طور پر ہوتا ہے، اس لیے اسے سل کا نام دیا گیا۔

8۔ کسی شئی کا نام اس کے انجام کے اعتبار سے رکھ دیا جائے، مثلاً صداع (درد سر) کی ایک قسم کا نام خبطۃ (زکام ) رکھا گیا ہے۔ کیوں کہ اس قسم میں اکثر زکام ہوجایا کرتا ہے۔

9۔ کسی شئی کا نام باعتبار محل رکھ دیا جائے، مثلاً ذات الجنب، ذات الرئۃ، ذات الصدر ان اورام کے نام ہیں جو پہلو، پھیپھڑے اور سینے میں ہوتے ہیں۔

10۔ محل کانام شئی کے نام پر رکھ دیا جائے مثلاً قصبۃ الانف( ناک کی نالی ) کو سائلہ کہتے ہیں۔ حالانکہ سائلہ (بہنے والی چیز ) حقیقت میں وہ رطوبتِ مخاطی ہے جو ناک سے بہتی ہے۔ ‘‘ ( ص  : ۳۲۔ ۳۵)

ایک جگہ حکیم صاحب نے ناموں کے اشتقاق سے بحث کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کس طرح بعض نام دوسری زبانوں کے الفاظ سے مشتق کرکے رکھے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’قیفال کیفالس سے مشتق ہے۔ اس کے معنی عرق الرأس (سر کی رگ ) کے ہیں۔ کیوں کہ کیفالس کا معنی سر ہے۔ اس سے قیفال مشتق کر لیا گیا اور سر کی ایک عرق کا نام رکھ دیا گیا، اس لیے کہ اس کے فصد سے سر کا تنقیہ ہوتا ہے۔ اسی اشتقاق میں سے اکحل ہے جوکحلاؤس سے مشتق ہے۔ کحلاؤس اہل یونان کے نزدیک ہر اس شی کو کہتے ہیں جو مختلف اشیاء سے مرکب ہو۔ اس سے مشتق کرکے اکحل بنالیا گیا اور ایک عرق کا نام رکھ دیا گیا، کیونکہ وہ قیفال اور باسلیق سے مرکّب ہوتی ہے۔ اسی طرح  تریاقبعض لوگوں کے نزدیک تریوق سے مشتق ہے۔  تریوق اس حیوان کو کہتے ہیں جو کاٹ لیتا ہے۔ چونکہ یہ دوا حیوانات کے کاٹے میں فائدہ کرتی ہے، اس لیے اس کا نام تریاق رکھ دیا گیا۔ ‘‘( ص :  ۳۸۔ ۳۹)

طب میں بہت سے نام مشابہت کی بنا پر رکھے گئے ہیں۔ حکیم اجمل خاں نے کتاب میں جا بجا اس کی مثالیں ذکر کی ہیں۔ یہاں چند مثالوں کا تذکرہ دلچسپی کا باعث ہوگا :

’داء الحیۃ : اس مرض میں بال گرتے ہیں۔ حیّۃ کے معنی سانپ کے ہیں۔ چونکہ بالوں کے گرنے سے سانپ کے رینگنے جیسی شکل بن جاتی ہے اس لیے اسے داء الحیّۃ کہتے ہیں۔ ( ص ۵۴)

’’داء الفیل : اس مرض میں مریض کے پاؤں اور پنڈلیاں موٹی ہونے لگتی ہیں، حتی کہ ہاتھی کے پیروں کے مشابہ ہوجاتی ہیں۔ (ص ۶۵)

’داء الأ سد: اس مرض میں مریض کے چہرے اور بدن پر شیر کے چہر ے کی مانند سلوٹیں اور گانٹھیں ابھر آتی ہیں اور آنکھیں گھومتی ہوئی معلوم دیتی ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ چونکہ یہ مرض شیر کی طرح حملہ کرتا ہے اس لیے اسے  داء الاسد کہا گیا ہے (ص ۶۵)۔

’’خنجری:  عظامِ صدر کے نیچے اور فمِ معدہ کے مقابل میں ایک غضروفی ہڈی ہوتی ہے جسے خنجر سے مشابہت کی بنا پر خنجری کہتے ہیں، کیوں کہ وہ عظم القص سے ملتی ہے تو خنجر کی شکل بن جاتی ہے ‘‘( ص ۷۴)۔

’’تینی:  جرب العین کی ایک نوع ہے جس میں آنکھ کی شکل تین (انجیر) کی شکل کے مشابہ ہوجاتی ہے ‘‘(ص ۷۵)۔

ترادف کی بحث:

عربی زبان میں ترادف کے مسئلہ پر بڑی معرکہ آرا بحثیں ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک معنی کی ادائیگی کے لیے متعدد الفاظ آتے ہیں، جب کہ بعض دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ ترادف کا کوئی وجود نہیں۔ ہر لفظ مخصوص معنی کا حامل ہوتا ہے، کوئی دوسرا لفظ اس کی نیابت نہیں کرسکتا۔ طب میں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جن کے درمیان معمولی سا فرق ہے۔ جو لوگ اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے وہ ان کو مترادف سمجھتے ہیں۔ حکیم اجمل خاں نے کتاب کے انیسویں باب میں کچھ الفاظ ذکر کیے ہیں اور ان کے درمیان پائے جانے والے معمولی فرق کی وضاحت کی ہے۔ یہاں چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں :

٭تناثر اور تمرّط :

  دونوں کے معنی بعض لوگوں کے نزدیک ایک ہی ہیں، یعنی طویل امراض کے بعد لاحق ہونے والے ضعف کے سبب بالوں کا گرنا۔ دونوں کے درمیان بسا اوقات یہ فرق کیا جاتا ہے کہ تناثر اس وقت کہیں گے جب بال متفرق جگہوں سے گریں اور تمرّط اس وقت کہیں گے جب وہ ایک ہی جگہ سے گریں۔

٭تہبّج اور نفخہ:

دونوں الفاظ بدن میں ریحی ہیئتوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ریح اگر عضو میں داخل ہوتو اسے تہبّج اور اگر بدن کے کسی ایک حصہ میں جمع ہو ( اس میں داخل نہ ہو ) تو اسے نفخہ کہتے ہیں۔ بسا اوقات دونوں میں یہ فرق بھی کیا جاتا ہے کہ تھبّج میں عضو کو دبانے پر دباؤ کا نشان بن جاتا ہے، لیکن نفخہ میں ایسا نہیں ہوتا۔

٭ امتزاج اور اختلاط : 

دونوں میں فرق یہ ہے کہ امتزاج میں اجزاء کے درمیان فرق و امتیاز کرنا ممکن نہیں ہوتا، لیکن اختلاط میں حس کے وقت فرق ظاہر ہوجاتا ہے، چنانچہ رقیق اجزاء جب غلیظ اجزاء کے ساتھ باہم یوں ملیں کہ ان میں فرق کیا جاسکے، مثلاً پانی اور مخاط، تو اس کو امتزاج نہیں کہیں گے ‘‘ ( ص ۵۳۔ ۵۴)۔

  اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکیم اجمل کا یہ رسالہ ’’مقدمۃ اللغات الطبیۃ‘‘ طبی اور ادبی دونوں پہلوؤں سے بہت اہم ہے۔ اس سے عربی زبان و ادب پر حکیم صاحب کی ماہرانہ دست رس اور طبی اسرار و رموز، دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔ راقم سطور کی سعادت ہے کہ اس نے حکیم اجمل کے دیگر عربی رسائل کے ساتھ اس کتاب کا بھی اردو ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ ۱۹۹۱ء میں ’طبی لغت نویسی کے مبادیات ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔

   ٭٭٭

1 تبصرہ
  1. Zubair alam کہتے ہیں

    Bahut umda tahreer /majmua it’s very beneficial for the students and Drs of Unani medicine .jazak Allahu hair

تبصرے بند ہیں۔