حکیم کوثر چاند پوری

شمیم ارشاد اعظمی

حکیم سید علی جنھیں ادبی دنیا میں کوثر چاند پوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت بہت متنوع ہے۔ شاعر، ادیب، مؤرخ، افسانہ نگار وناول نگار، خاکہ نگار اورصحافی کی حیثیت سے ادبی دنیا میں آپ کی تشہیر ہوئی۔ شاعری اور صحافت بیچ راستے میں ہی دم توڑ گئی لیکن افسانہ نگار ی اور ناول نگاری سے تاحیات دامن نہیں چھڑا سکے۔ کوثر چاند پوری نے ناول و افسانہ نگاری کو ذریعہ معاش کے طور پر کبھی نہیں اپنایا۔ بلکہ اس سے ان کا مقصد سسکتی، بلکتی اور کراہتی انسانیت کاپیغام دردلوگوں تک پہونچاناتھا۔ ان سب کے علاوہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کوثر چاند پوری ایک اچھے معالج اور طبیب بھی تھے۔ یہی در اصل ان کی شخصیت کا اصل رخ ہے مگر اتنا ہی تشنہ ہے۔ بھوپال سے دہلی تک علاج و معالجہ کو جو خدمات انجام دی ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اردو والوں نے حکیم کوثر چاند پوری پر بہت سارے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں ۔ طبی حلقہ کی جانب سے بہت کم ان کی تحریروں اور کارناموں کا سراہا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی یہ ایک حقیر کوشش ہے۔

حکیم کوثر چاند پوری سیوہارہ کے مشہور طبی خانوادہ میں 8اگست 1900 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حکیم سید منصور علی اور والد محترم حکیم سید مظفر علی کا شمار بجنور کے مشاہیر اطبا میں ہو تا تھا۔ طبیبوں کا یہ خاندان ضلع میں بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس خاندان کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہ سے جاکر مل جاتا ہے۔

کوثر چاند پوری کی ابتدائی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد محترم سید علی مظفر چاند پوری سے حاصل کی۔ آپ کے والد جہاں ایک حاذ ق طبیب تھے وہیں آپ کا ادبی اور شعری ذوق بھی کافی بلند تھا۔ تحریک آزادی کے دوران خلافت اور دوسری تحریکوں کی تشہیر کے ساتھ ساتھ آزادی کے متوالوں کو اپنی نظموں کے ذریعہ للکارتے بھی رہے۔ یہ نظمیں کتابی شکل میں شائع ہو ئی تھیں مگر افسوس کی بر طانوی حکومت کی نذر ہوگئیں ۔ والد محترم کے علاوہ کوثر چاند پوری صاحب یہاں کی دو مشہور شخصیت میاں جی عبد العزیز اور منشی سلیم اللہ سے فارسی کی گلستان و بوستان پڑھیں ۔

کوثر چاند پوری اپنے بڑے بھائی حکیم سید علی اکبر کے ساتھ1914 میں آصفیہ طبیہ کالج بھوپال میں طب کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے داخلہ لیا۔ طب کے جدید مضامین میں اناٹومی اور میٹریا میڈیکا آگرہ کے ڈاکٹر مٹھن لال سے پڑھی اور میڈیسن رحمت اللہ سے پڑھا۔ کوثر صاحب کا شمار کلاس کے ہوشیار، محنتی ، سنجیدہ اور قابل طلباء میں ہوتا تھا۔ ہر سال اور ہر جماعت میں اوّل نمبر سے کامیاب ہوئے۔ سرجری اور میڈیسن میں انھوں نے امتیازی نمبرات حاصل کر کے نقرئی تمغہ کے مستحق ہوئے۔ فراغت کے بعد 1922 میں ریاست بھوپال میں ہی ملازمت مل گئی اور بھوپال ہی کے ہو کر رہ گئے۔ سب سے پہلے تحصیل سلوانی کے یونانی شفاخانہ میں مامور ہوئے گو کہ یہاں ان کو علمی و ادبی ماحول ملا مگرطبیعت یہاں نہیں لگ پائی اور اپناتبادلہ جاور کرا لیا۔ 1935میں قصبہ بیگم گنج میں تبادلہ ہوگیا۔ بیگم گنج سے رائے سین پہونچے اور پھر ترقی کرتے کرتے صدر یونانی شفا خانہ بھوپال میں افسر الاطبا مقرر ہوئے اور یہیں سے 1955میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھوپال میں ہی ’ کوثر صحت‘ نام سے ذاتی مطب قائم کیا۔

زمانہ طالب علمی سے ہی مضمون نویسی اور شعر گوئی کو ذوق پروان چڑھنے لگاتھا۔ طبی مضامین لکھنے کا سلسلہ آصفیہ طبیہ کالج میں منعقد مجلس مذاکرہ سے شروع ہوا۔  ہر سنیچر کو کالج میں مجلس مذاکرہ کا انعقاد ہوتا جس میں کوثر چاند پوری صاحب مضمون قلم بند کرتے۔ مضمون کو خوب پسند کیا جاتا۔  آپ کے ادبی و طبی مضامین اس زمانہ کے مشہور ومعیاری رسائل میں جگہ پاتے تھے۔ طبی مضامین الطبیب (لاہور)، الحکیم (لاہور)، خادم الاطبا (لکھنؤ )، مصباح الحکمت (سہارنپور)، ہمدرد صحت( دہلی) اور ہمدرد اخبار (کراچی)میں شائع ہوتے تھے۔ تاریخی و ادبی مضامین اور افسانہ و ناول نیرنگ خیال ، ادبی دنیا، شاہکار اور نگار میں چھپتے تھے۔ حکیم کوثر صاحب کی انہی طبی اور ادبی صلاحیت سے متاثر ہوکر ماہنامہ الطبیب لاہور کے مدیر حکیم محمد شریف نے آپ کو اپنے ماہنامہ کا نائب مدیر بنایا۔ حکیم صاحب جاور سے تین ماہ کی چھٹی لے کر لاہور گئے لیکن وہاں دل نہ لگا اور واپس بھوپال آگئے۔

کوثر چاند پوری سے حکیم عبد الحمید صاحب کے دیرینہ تعلقات تھے۔ آصف علی روڈ پر نو تعمیر شدہ ہمدرد نر سنگ ہوم کے چلانے کے لیے حکیم عبد الحمید صاحب کی جوہر شناس نظرحکیم کوثر چاند پوری پر گئی اور انہیں ہمدرد نرسنگ ہوم کے سر براہ کے طور پر بلا لیا گیا۔ اس طرح اپریل 1964کے آخری ہفتہ میں حکیم کوثر چاند پوری حکیم عبد الحمید صاحب کی دعوت پر ہمددر نرسنگ ہوم سے وابستہ ہو گئے اور 1988تک بہت ہی ذمہ داری اور خلوص نیت کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے۔ حکیم کوثر چاند پوری بہت ہی خوش مزاج ، روشن خیال، ہمدردوں کے ہمدرد ، علم دوست ، وسیع القلب اور سب سے بڑھ کر انسانیت پرست تھے۔ ملازموں اور اپنے ماتحتوں سے بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فر ماتے تھے۔ نر سنگ ہوم کے جونیر ڈاکٹر اور تمام عملہ ان کے حسن اخلاق کاگرویدہ تھا۔ درجہ چہارم کے ملازمین انھیں پیار میں ’ ابا حضور ‘کہتے تھے۔ حکیم کوثر چاند پوری کا نرسنگ ہوم میں یہ معمول تھا کہ صبح نو بجے سے ایک بجے تک مطب دیکھتے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد چند لمحات کے لیے کمرہ میں استراحت جسے عرف عام میں قیلولہ کہا جاتا ہے فر ماتے اور پھر نہایت یکسوئی کے ساتھ مضامین لکھنے یا کتابوں کے مطالعہ کے لیے بیٹھ جاتے۔ یہ شغل تین چار گھنٹہ جاری رہتا۔ شام کو انڈور (IPD) کے مریضوں کا دیکھنے کے لیے راونڈ پر جاتے تھے۔

حکیم کوثر چاند پوری کا طب کامطالعہ بہت وسیع تھا۔ قدیم اطبا کی نگار شات، تجربات اور ان کے طبی کارناموں پر بڑی گہری نظر تھی۔ جالینوس، رازی اور ابن سینا کے طبی نظریات اور ان کے تجربات و معمولات کی روشنی میں پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کے علاج کرتے تھے جس میں انہیں کامیابی بھی ملتی تھی۔ حکیم صاحب کا نسخہ کم ادویہ اور سہل الحصوول ادویہ پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ طویل نسخہ سے حتی الامکان گریز کرتے تھے۔ نبض شناسی، تشخیص اور تجویز میں منفرد تھے۔ امراض گردہ اور جلدی بیماریوں بالخصوص برص کے علاج میں ماہرتھے۔ گردے کی پتھری بغیر آپریشن کے نکالنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ اس کی شہرت عرب مما لک تک پھیلی ہوئی تھی۔

حکیم کوثر چاند پوری طب یو نانی کو زمانہ سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے تھے۔ خذ ما صفا اور دع مکدر کے اصول کے مطابق تشخیص امراض اور دوسازی کے میدان جدید سائنسی آلات و ذرائع سے استفادہ کو مستحسن سمجھتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ اگر طب کے حاملین تشخیص امراض اور دواسازی وغیرہ میں ان ذرائع سے کام لیں جن سے ڈاکٹر مستفید ہو رہے ہیں تو یہ وقت کے ساتھ چلنے کی دلیل ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کی فرمانروائی اور برتری مسلم ہو چکی ہے۔ اس حقیقت سے انکار بصیرت، بصارت اور دانس و بینش کے منافی ہے۔ ‘‘

اسی طرح ایک جگہ مزید رقمطراز ہیں :

’’ طب قدیم کی اساس اس بتا پر قائم ہے کہ قلب کسی بھی جراحت کو برداشت نہیں کر سکتا، مگر دور جدید کی سائنس نے نہ صرف قلب کو جراحت برداشت کر نے کا اہل سمجھا اس ی تبدیلی کو بھی ممکن العمل بنا دیا ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ سینہ کو چیر کراور ناکارہ دل کو نکال کر اس کی جگہ ایک مشین فٹ کر دی ہے جو اسے رمر طبعی گذارنے میں مدد دیتی ہے۔ اس بات کے کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اب یہ فن کہنہ، ناقص اور بوسیدہ ہو چکا ہے بلکہ ا ظہار اس بات کا مطلوب ہے کہ زمانہ کی ترقیا کے ساتھ ماضی کے بہت سے عقائد میں تبدیلیاں آچکی ہیں ۔ انسان پہلے جن چیزوں کو محض چھونے کی تمنا کر سکتا تھا آج ان کی گود میں بیٹھ کر ہمک سکتا ہے، چل بھر سکتا ہے اور سو سکتا ہے۔ انسانی ذہن  اور شعور کی ترقی لا محدود ہے اور یہ ہزارہا برس سے روبہ ارتقا ہے، اس کو ابھی کسی منزل پر ٹہرا لینااپنے ذہن و ادراک کے پیروں میں زنجیر ڈالنا ہے۔ ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ ابن سینا نے سب سے پہلے قلب کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ’’ رسالہ الادویہ القلبیہ‘‘ لکھا، یقینا اس کا یہ کام اس دور کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن زمانے بدل رہے ہیں ، حالات بدل رہے ہیں ، نت نئی تحقیقات اور انکشافات سامنے آرہے ہیں ۔ ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

 طبی تصانیف

حکیم کوثر چاند پوری کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی ہو چکی ہے، کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ سب سے مستند مآخذ ظفر احمد نظامی کی لکھی ہوئی کتاب’’ کوثر چاند پوری ‘‘ ہے، یہ کتاب ساہتیہ اکیڈمی، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ظفر احمد نظامی نے حکیم کوثر چاند پوری کی مختلف موضوعات  پر لکھی ہوئی کتابوں کی فہرست بھی دی ہے۔ ان کاتعلق  ناول، افسانہ، ، تنقید و تحقیق، انشائیے، رپورتاژ، سوانح، طنز و مزاح، ادب اطفال  اورطب  ہے۔ طب سے متعلق نو کتابوں کا ذکر ہے جبکہ سوانح کے ذیل میں طب سے متعلق اطباء عہد مغلیہ اور حکیم اجمل خاں جیسی دو اہم کتابیں بھی شامل ہیں ۔ ان کتابوں کا تعلق علاج و معالج، کلیات طب اور تاریخ طب سے ہے۔ مترجم کی حیثیت سے بھی حکیم کوثر چاند پوری کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔ موجز القانون اور لوامع البشریہ اس کی روشن مثال ہیں ۔ کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے۔

1- اطبا عہد مغلیہ (1960 )

2- حکیم اجمل خاں (1973)

3- طب قدیم میں دوسرے علوم کی آمیزش  (1976)

4- موجز القانون (1984)

5- الدق مسمیٰ بہ تدقیق کوثر،مطبوعہ

6- محسن اطفال مسمیٰ بہ علاج کوثر، مطبوعہ

7- رسالہ آتشک، مطبوعہ

8- قدح کبریٰ، مطبوعہ

9- دستور العمل، مطبوعہ

10- لوامع شبریہ فی علاج امراض بشریہ ( ترجمہ ) مطبوعہ

11.کتاب المباحثہ العلائیہ والاغراض الطبیہ  (ترجمہ) غیر مطبوعہ

حکیم کو ثر چاند پوری بنیادی طور سے طبیب تھے اور آخر عمر تک فن شریف کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آپ نے ادب کو اصلاح معاشرہ کے طور پر اختیار کیا تھا۔ آج کے ادیبوں کی طرح آپ نے ادب کو پیشہ سے کبھی نہیں مربوط کیا۔ حکیم کوثر چاند پوری نے طب وادب پر بہت کچھ لکھا ہے۔

13جون1990میں دہلی میں آپ کا انتقال ہوا۔ اورجامعہ ملیہ کی قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔

   مآخذ

 (۱)تذکرہ اطباعصر، حکیم سید ظل الرحمن، ابن سینا اکیڈمی علیگڈھ، 2010

 (۲)جگر لخت لخت، حکیم سید غلام مہدی راز، نیو پرنٹ سنٹر، نئی دہلی، 2007

 (۳)ریاست بھوپال اور مشاہیر اردو، ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں ، کھرے پریس، تلیا، بھوپال، 2012

 (۴) کوثر چاند پوری، ظفر احمد نظامی، ساہتیہ اکیڈمی، دہلی، 2008

 (۵) موجز القانون۔

تبصرے بند ہیں۔