خادموں  کے ساتھ حسنِ سلوک

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اللہ عزوجل نے اس کارخانۂ دنیا کے نظام کو چلانے اور انسانی ضروریات کی آپس میں  تکمیل کے لئے خود انسانوں  کے مابین فرقِ مراتب رکھا ہے، کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر؛ لیکن انسانوں  کے مابین یہ فرقِ مراتب اور یہ درجات اور مقام کے لحاظ سے یہ اونچ نیچ صرف اس لئے ہے کہ ہر ایک کی ضرورت کی تکمیل دوسرے سے ہوجائے. یہ مقام ورتبہ کا یہ فرق اس لئے نہیں  کہ اس کوبڑائی اور برتری کا پیمانہ قرار دیاجائے کہ جو بڑے رتبہ اور مقام کا حامل ہے وہ کمتر اور بے حیثیت شخص کو نیچ اور حقیر سمجھے، خصوصا اسلام کی تعلیمات اس حوالہ سے نہایت واضح ہیں  کہ اسلام نے خادم ومخدوم، آقا وغلام کے مابین اس طرح کا فرق کہ مخدوم اور آقا تو اپنے آپ کو نہایت مہذب اور اونچی شان والے گردانیں  اور غلاموں  اور خادموں  کے ساتھ حقیر اور ذلیل قسم کا برتاؤ کریں  اس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں  دیتا۔

اس سلسلے میں  معتدل ووسط اور درمیانی راہ وہی ہے جو نبی کریم ا نے اپنے ماتحتوں  اور غلاموں  اور خادموں  کے ساتھ برتی اور ان کے ساتھ جوبہتر سلوک اور حسن معاملت نے آپ ا نے فرمایا اور آپ ا کے اصحاب نے خادموں  سے جو حسن سلوک روا رکھا۔اور آپ ا کی تعلیمات اور ارشادات جو اس سلسلے میں  موجودہیں۔

غلاموں  اور خادموں  کے حقوق

جو خادم یا غلام ہوتا ہے وہ اپنے مخدوم اور محکوم کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے دیتا ہے، اس کے ہر حکم کوبجالانے اور اس کی تکمیل کی ممکنہ حد تک تگ ودو کرتا ہے، اس لئے مخدوم کے ذمہ خادم کے تئیں  کچھ حقوق لازم ہوتے ہیں ، ایسا نہیں  کہ مخدوم تو خادم سے خدمت لے اور وہ اس کے حقوق کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائے، ہوتا یوں  ہی ہے کہ خادم سے خدمت تو لی جاتی ہے لیکن جب مخدوم کے حق میں  خادم کے حقوق کی بات آتی ہے تو اس میں  بہت کمی کوتاہی ہوتی ہے، حضور نبی کریم ا نے خادموں  اور غلاموں  کی حقوق کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کہ آپ ا نے اپنے مرض الوفات اور زندگی کے آخری لمحات میں  بھی نماز جیسے اہم اسلامی رکن کے ساتھ ساتھ غلاموں  اور خادموں  کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت فرمائی۔

 حضرت  ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں  فرماتے رہے نماز کا اہتمام کرنا اور غلاموں  کا خیال رکھنا اور مسلسل یہی فرماتے رہے حتی کہ آپ زبان مبارک رکنے لگی۔ (ابن ماجۃ: باب ما جاء فی ذکر مرض رسول اللہ، حدیث: ۱۶۲۵)

خادم کے ساتھ بھائیوں  کا سا سلوک کریں

نبی کریم ﷺ نے خادموں  اور غلاموں  کے طبقہ کو جو اس وقت بالکل حقیر اورکمتر سمجھا جاتا تھا، ان کے مقام کو بلند کر کے آپ نے بھائیوں  کے درجے کا تک پہنچایا، یعنی ایک انسان جس طرح اپنے بھائی کے ساتھ مساوات اور برابری کا برتاؤ کرتا ہے غلاموں  کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔

چنانچہ اس حوالہ سے نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے:تمہارے خدمت گزار تمہارے بھائی ہیں  جنہیں  اللہ تعالی نے تمہارے ہاتھوں  (قبضہ) میں  دے دیا ہے؛ اس لیے جس کا بھائی اس کے قبضہ میں  ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی پہنائے جیسا خود پہنتا ہے، ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان سے نہ ہو سکے اور اگر انہیں  تکلیف دو تو ان کی مدد کرو۔(بخاری: باب ما ینھی من السباب واللعن، حدیث: ۵۷۰۳)

حضرت ابو ذر غفار رضی اللہ عنہ جو مقام ربذہ میں  رہتے تھے معرور بن اسود کہتے ہیں کہ میں  نے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک جوڑ ا پہنے ہوئے تھے، ان کا غلام بھی ویساہی جوڑا پہنے ہوئے تھا، ہم نے ان سے اس مساوات اور برابری کے تعلق سے دریافت کیا تو انہوں  نے فرمایا : یہ حضور اکرم ا کی مذکورہ بالا نصیحت کا نتیجہ ہے۔

یہ صحابی رسول حضرت ابو ذر ہیں  جنہوں  نے حضور اکرم اکے اس فرمان کی اتباع میں کہ غلاموں  اور ماتحتوں  اور خادموں  کو وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اپناہی جیسا کپڑا خادم کے لئے بنوایا، یہ حضور اکرم اکی تربیت کا نتیجہ تھا، ہم اس وقت اس قدر براری نہیں  کرسکتے تو کم از کم اتنا تو کرہی سکتے ہیں  کہ ان کی خدمت کا جو اجرہے  وہ تو برابر دیں۔ ان کے ذمہ مشکل کام ڈال کر محض کھڑے دیکھتے نہ رہیں ؛بلکہ اس مشکل کام میں  اس کی کچھ معاونت کریں ، کیوں  کہ مشکل کام کے انجام دینے میں  اس کو بھی ایسی ہی مشقت ہوتی ہے جیسی ہمیں  مشقت ہوتی ہے۔

تنخواہ اور محنتانہ وقت پر ادا کریں

خادم چونکہ وہ بھی انسان ہیں ، ان کے بھی اہل وعیال ہیں، ان کی اپنی ذاتی ضروریات ہیں ، اس لئے ان کی اجرت اور محنتانہ کو وقت مقررہ پر ادا کریں، ٹال مٹول نہ کریں، نبی کریم ا نے اجرت اور محنتانہ کی ادائیگی بعجلت ادا کرنے کو یوں  فرمایا:مزدور کواس کی اجرت اس کے پسینہ سوکھنے سے پہلے اداکرے (سنن ابن ماجۃ، باب أجر الأجراء، حدیث:۲۴۴۳)مطلب یہ ہے کام کی تکمیل پر یا وقتِ مقررہ پر اجرت کی ادائیگی کا اہتمام کیاجائے۔

اجرت کی ادائیگی میں  ٹال مٹول پر نبی کریم انے سخت وعیدیں  ارشاد فرمائی ہیں :

آپ انے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں  قیامت کے دن میں  ان کا دشمن ہوں  گا، ان میں  سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے ( بخاری: باب اثم من باع حرا، حدیث:۲۱۱۴)۔

کام کی مقدار کی تعیین ہو

ساتھ ہی ساتھ کام کی مقدار بھی متعین ہونی چاہئے، نہ کہ خادم اور مزدورسے اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کام لے کراس کو گراں بار اور بوجھل کردیاجائے، اسی کو نبی کریم انے فرمایا: غلام سے ایسا کام نہ لو جو ان کی طاقت اور قوت سے باہر ہو( موطا امام مالک، الأمر بالرفق بالمملوک، حدیث:۳۵۹۳)

مثلا اصول صحت کے اعتبار جن کاموں  کو چھ گھنٹے کیا جاسکتا ہے ان کے چھ گھنٹے اور جن کاموں  کو آٹھ گھنٹے کیا جاسکتا ہے ان ملازمین کوآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوگی، بعض لوگ کم عمر بچوں  اور بوڑھوں سے ان کی طاقت اور قوت سے زیادہ کام لیتے ہیں  یہ قانونا جرم ہے، مستقل ملازمین کے لئے ہفتہ میں  ایک دن تعطیل اور رشتہ داروں  سے ملاقات کے لئے بھی رخصت ہونا چاہئے (رد المحتار: ۳؍۸۰)

کام میں  اس کا ہا تھ بٹائے، پورے کام کا بوجھ اسی پر نہ ڈالے مثلا وہ کسی بوجھ کو اٹھا رہا ہے اور اس کے اٹھانے میں  اس کو کافی مشقت ہورہی ہے تو تھوڑا ہاتھ خود بھی لگائے، آپ ا نے خادم کے کام میں  ہاتھ بٹانے پر اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے : ارشاد نبوی ہے : ’’ما خففت عن خادمک من عملہ کان لک أجرا فی موازینک‘‘(شعب الإیمان، الإحسان إلی الممالیک، حدیث:۸۲۲۲۶)۔

خدام سے در گذر سے کام لیں  

انسان غلطی کا پلندہ ہے، انسان ہونے کے ناطے اس سے غلطی سرزد ہوجائے تو اس سے درگذر سے کام لیا جائے، نہ یہ اس کو ہدفِ تنقید بنایاجائے اور اس کو کھری کھری سنادیجائے، ذرا ذرا سی معمولی معمولی سے غلطی پر اس کی گرفت کی جائے، اس پر سختی کی جائے، حضور نبی کریم ا کا عمل  اس حوالے سے ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے :

اسی لئے نبی کریم انے فرمایا: ’’ برتنوں  کے ٹوٹنے پر اپنے خادموں  کو نہ مارو، کیوں  کہ تمہاری عمر کی طرح برتنوں  کی بھی عمر ہوتی ہے ‘‘(کنزالعمال: الإکمال من الصحبۃ مع المملوک، حدیث:۲۵۰۸۱)نبی کریم ا نے یہاں  خادموں  سے کسی غلطی کے سرزد ہونے پر ان کو مارنے پیٹنے پر تنبیہ فرمائی اور خود مخدوم کی تسلی کا سامان یوں  فرمایا کہ : اس سے کہا: تم کو افسوس اس برتن کے ٹوٹنے پر نہیں  کرناچاہئے کہ یہ برتن اپنے مدت عمر کے ختم پر ٹوٹ گیا ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اپنے خادم کی غلطیاں  کس حد تک ہمیں  معاف کرناچاہئے، اس نے دو مرتبہ پوچھا: آپ ا نے خاموشی اختیار کی، پھر جب اس نے تیسری دفعہ عرض کیا تو آپ ا نے فرمایا : ہر روز ستر مرتبہ (ابوداؤد: باب فی حق المملوک، حدیث: ۵۱۶۴)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ عوالی مدینہ تشریف لے جاتے، وہاں  کسی غلام کومشقت انگیز کام میں  مشغول پاتے تو اس کے کام میں  ہاتھ بٹاتے (موطامالک:الأمر بالرفق بالمملوک، حدیث:۳۵۹۴)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں  نے ایک شخص کو دیکھا وہ سواری پر سوار ہے اور اس کا غلام پیچھے دوڑا جارہا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : اس کو اپنے پیچھے سوار کر لو چونکہ یہ تمہارا بھائی ہے، اس کی روح اور جان بھی تمہارے مثل ہے، اس نے اس کو سوار کر لیاتو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  جس قدر آدمی کے پیچھے آدمی چلتے ہیں  اسی قدر بندہ اللہ سے دور ہوتا جاتا ہے۔ (إحیاء علوم الدین للغزالی: :۲؍۲۲۰)

خدام کی تنبیہ میں  اعتدال

خدام سے اگر غلطی سرزد ہوجائے تو واقعی غلطی پر ان کو تنبیہ کی جاسکتی ہے، لیکن تنبیہ کا انداز یوں  ہو کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو، چہرے یا نازک جگہوں  پر نہ مارے

چنانچہ اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم ا نے فرمایا: معاف کردو، اگر انہیں  سزا بھی دو تو ان کی غلطی کے بقدر، چہرہ پر مارنے سے اجتناب کرنا(کنزالعمال، الصحبۃ مع المملوک، حدیث:۲۵۰۰۸)

اورابن عساکر کی روایت میں  ہے کہ :دو ضعیفوں  کے سلسلے میں  اللہ سے ڈرنا، ایک غلام اور دوسرے عورت(کنز العمال الصحبۃ مع المملوک، حدیث: ۲۵۰۰۴)

چنانچہ حضرت عائشہ اس تعلق سے حضور اکرم ا کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں : نبی کریم ا نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی عورت یا خادم کو نہیں  مارا (مسلم: باب مباعدتہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث:۲۳۲۸)

جس طرح نبی کریم ا نے کبھی خدام کو نہیں مارا اسی طرح حضرات صحابہ کو بھی ان کے مارنے سے منع فرمایا:حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں  اپنے غلام کو مار رہا تھا تو میں  نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ابومسعود !جان لے کہ اللہ تجھ پر تیری اس پر قدرت سے زیادہ قادر ہے، میں  متوجہ ہوا تو وہ رسول اللہ اتھے میں  نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ا !وہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے، آپ ا نے فرمایا :اگر تو ایسا نہ کرتا تو جہنم کی آگ تجھے جلا دیتی یا تجھے چھو لیتی۔(مسلم : باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطمہ، حدیث: ۱۶۵۹)

اس حدیث میں  نبی کریم  ا نے غلام کو مارنے کاکفار اس کی آزادی قرار دیا، اسی رحمت ورافت کا نتیجہ تھا کہ غلامی کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا۔

حضرت زاذان سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے غلام کو بلوایا اور اس کی پیٹھ پر نشان دیکھے تو اس سے کہا کہ میں  نے تجھے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس نے کہا نہیں  تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو آزاد ہے پھر ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زمین سے کوئی چیز اٹھائی اور فرمایا میرے لیے اس کے آزاد کرنے سے اس کے وزن کے برابر بھی اجر ثواب نہیں ؛ کیونکہ میں  نے رسول اللہ اسے سنا آپ ا فرماتے تھے کہ جس نے اپنے غلام کو بغیر قصور کے مارا یا اسے تھپڑ رسید کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔(مسلم: باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ، حدیث:۴۳۸۹)

عون بن عبد اللہ کا معمول تھا کہ جب کوئی غلام ان کی نافرمانی اور حکم عدولی کرتا تو فرماتے :کیا ہی تو اپنے مولی کے مشابہ ہے، تیرامولا اپنے مولا کی حکم عدولی کرتا ہے اورتم اپنے مولی کی حکم عدولی کرتا ہے، ایک دفعہ ان کو اپنے غلام پر غصہ آیا تو فرمایا: میں  تو تم کو مارنا چاہتا تھا، جاؤ تم آزاد ہو۔ (الإحیاء)۔

یہی نہیں  بلکہ ان غلاموں  کو نبی کریم ا نے ’’عبدی‘‘یا ’’امتی‘‘ کہنے سے بھی منع فرمایا، بلکہ ان کو مہذب اور شائستہ انداز سے مخاطب کرنے کوفرمایا کہ جس میں  اپنی تعلی اور برتری کی بو نہ آتی ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا :تم میں  سے کوئی ’’عبدی ‘‘یا’’امتی‘‘نہ کہے تم سب اللہ تعالی کے بندے ہو اور تمہاری سب عورتیں  اللہ کی باندیاں  ہیں  ؛لیکن چاہیے کہ وہ کہے :میرا غلام، میری لونڈی میرا جوان اور میری جوان۔(مسلم:باب حکم اطلاق لفظۃالعبد،حدیث:۶۰۱۱)

آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم جب خادموں سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو عفو ودرگذر تو دور کا رہا ہم اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ، اس کو زدوکوب کرتے ہیں ، پھر تھوڑی دیر بعد اسی سے خدمت لیتے ہیں ، یہ کہاں  کا انصاف ہے کہ ہم اس کو ماریں  بھی پھر تھوڑی دیر بعد اس سے خدمت کے بھی خواہاں  ہوں۔ وہ بھی انسان ہے بشر ہے، اس کے بھی جذبات ہیں، وہ بھی اپنے دل میں  درد اور کسک رکھتا ہے، اس کے دل کو ٹیس پہنچتی ہے، اس کاجسم بھی درد محسوس کرتا ہے۔انسان ہونے کے ناطے اس کے ساتھ حسن سلوک روا رکھئے۔

 حضرت ابوسعید کہتے ہیں  کہ رسول کریم ا نے فرمایا کہ مثال کے طور پر اگر تم میں  سے کوئی شخص اپنے غلام کو مارنے لگے اور وہ اللہ کو یاد کرے یعنی یوں  کہے کہ تمہیں  اللہ کا واسطہ مجھے معاف کر دو تو تم اس کو مارنے سے اپنا ہاتھ روک لو(ترمذی : أدب الخادم، حدیث: ۱۹۵۰)

اور ایک روایت میں  ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا خیبر سے واپس تشریف لائے تو ان کے ہمراہ دو غلام بھی تھے جن میں  سے ایک غلام نبی کریم اینے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا اسے مارنا نہیں  کیونکہ میں  نے نمازیوں  کو مارنے سے منع کیا ہے اور اسے میں  نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرا غلام حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا میں  تمہیں  اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں  انہوں  نے اسے آزاد کر دیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا وہ غلام کیا ہوا؟ انہوں  نے عرض کیا یا رسول اللہا !آپ نے مجھے اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی تھی لہٰذا میں  نے اسے آزاد کر دیا۔(مسند احمد : حدیث أبی أمامۃ الباہلی، حدیث:۲۲۲۰۸)

اور ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی غلام کوبرا بھلا کہاتو نبی کریم انے فرمایا: اے ابو بکر، برا بھلا کہنے والے اور صدیق رب کعبہ کی قسم یہ دونوں  (اکٹھے )نہیں ہوسکتے، دو یا تین مرتبہ آپ ا نے یہ بات دہرائی، اسی دن حضرت ابو بکر ا نے اپنے چند غلاموں  کو آزاد کردیا، پھر نبی کریم ا کی خدمت میں  تشریف لائے تو آپ ا نے فرمایا: پھر ایسے نہ کرنا (الأدب المفرد: باب من لعن عبدہ فأعتقہ، حدیث:۳۱۹)

جو خود کھائیے اس سے ان کو بھی کھلایئے

بہت سارے گھروں  میں  خادم اور خادمائیں  کام کرتی ہیں ، محنت وجستجو سے، گرمی کو سہہ کر، آگ کی تپیش کو برداشت کر کے وہ اپنے مالک اور اس کے اہل وعیال کے لئے لذیذ اور مزیدار اور مرغن غذائیں  تیار کرتے ہیں، ان کو بھی اس میں  کچھ ضرور کھلایئے، یہ نہیں کہ وہ تو نوکر اور خادم ہیں ، وہ کھانے پکانے اور خدمت کی تنخواہ پاتے ہیں، بلکہ جس کھانے کو ہم بڑے مزے سے کھارہے انہوں  نے اس کے لئے اپنے آپ کو تجا ہے، کھپایا ہے، تب کہیں  جا کر یہ کھانا تیار ہوا ہے، پکانے کی بعد ان کو بھی اشتہاء ہوتی ہی ہوگی، وہ بھی انسان ہیں ، اس لئے ان کو بھی شریک طعام کرلیا کیجئے، ورنہ کچھ نہ کچھ اس میں  سے ان کو مرحمت کیجئے۔

اسی خصوص میں  نبی کریم ا نے نہایت اہتمام سے توجہ دہانی فرمائی ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا: جب تم میں  سے کسی کا خادم اس کے لیے اس کا کھانا تیار کرے پھر اسے لے کر حاضر ہو جب کہ اس نے اس گرمی اور دھوئیں  کو برداشت کیا ہو تو آقا کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے پس اگر کھانا بہت ہی کم ہو تو چاہیے کہ اس کھانے میں  اسے ایک یا دو لقمے اس کے ہاتھ پر رکھ دے۔(مسلم : باب إطعام المملوک مما یأکل…،حدیث:۴۴۰۷)

اور ایک روایت میں  ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں  کہ :  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا جب تم میں  سے کسی کا خادم کھانا پکا کر لائے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اگر ایسا نہیں  کرسکتا تو ایک لقمہ لے کر ہی اسے دے دے۔(مسند احمد، مسند أبی ہریرہ، حدیث:۷۵۰۵)

خادم کو دعائیں  دیں

کوئی انسان کسی کی خدمت کرتا ہے، اس کے راحت وآرام کا سامان کرتا ہے تو مخدوم تو حقیقت میں  خادم کا صلہ اوربدلہ نہیں  دے سکتا، تھوڑا سامعاوضہ وخرچ یہ خدمت کا صلہ نہیں  ہوسکتا، اس لئے خادموں  کو کم ازکم دعاؤں  سے نواز تے رہنا چاہئے، نبی کریم ا حضرت انس رضی اللہ کو جو آپ اکے خادم خاص تھے، آپ ا نے ان کو تین دعاؤں  سے سرفراز فرمایا: عمر میں  برکت کی، مال میں  برکت کی، اولاد میں  برکت کی، اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ: میں  نے طویل عمر فرمائی، ۱۱۰ ھ میں  انتقال فرمائے، مال میں  برکت کا اثر یوں  ظاہر ہوا کہ سب کے باغ مدینہ میں  سال میں  ایک دفعہ پھل دیتے تو میرے باغ دو دفعہ دیا کرتا، اولاد میں  یوں  برکت ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی صلبی اولاد کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبی کی صراحت کے مطابق ۱۰۶ تک پہنچ گئی تھی (سیرأعلام النبلاء: ۳؍۳۹۹، بیروت)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو آپ ا کے چچاز اد بھائی ہیں ، ایک موقع سے انہوں  نے آپ ا کی خدمت کی تو انہیں  یوں  دعامرحمت فرمائی :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی احضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں  تھے، میں  نے رات کے وقت ان کے لئے وضو کا پانی رکھا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ یا رسول اللہا! یہ پانی آپ کے لئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور کتاب کی تاویل و تفسیر سمجھا۔(مسند احمد:مسند عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حدیث: ۳۰۳۳)۔

نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بڑے محقق اور فقیہ کہلائے، اور تفسیر اور علم قرآن میں  آپ رضی اللہ عنہ کو جو درجہ اور مقام حاصل ہے وہ ظاہر وباہرہے، آپ رضی اللہ عہ امام المفسرین سے جانے جاتے ہیں۔

اس لئے مخدوم کوچاہئے کو وہ خادموں  کو اس طرح خدمت پر دعاؤں  سے نوازتے رہے، کبھی طبیعت کے خلاف خادم کی جانب سے کوئی امر درپیش ہوجائے تو صبر وضبط سے کام لے ایسا نہیں  کہ اس کے حق میں  بددعا کے الفاظ الفاظ استعمال کئے جائیں، آپ ا نے خادموں  کے حق میں  بددعا کرنے سے منع فرمایا ہے کہ کبھی قبولیت کی گھڑی ہوسکتی ہے جس سے اس کی دنیااور عقبی خراب ہوسکتی ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بددعا نہ کرو اپنے اوپر، نہ اپنی اولاد پر، نہ اپنے خادموں  پر، اور نہ اپنے مالوں  پر کیونکہ کہیں  ایسا نہ ہو کہ وہ گھڑی ایسی ہو جس میں  دعا قبول ہوتی ہے۔ (ابوداؤد:باب النھی أن یدعو الإنسان علی أہلہ ومالہ، حدیث: ۱۵۳۴)

خادم رسول انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم ا کا برتاؤ

حضرت انس رضی اللہ نے نبی کریم ا کی نوسال تک مسلسل خدمت کی، اور آپ ا کے ساتھ سایہ کی طرح لگے رہے، جن کی وساطت سے امت مسلمہ کو ہزاروں  حدیثیں  ملیں وہ نبی کریم ا کااپنے ساتھ حسن سلوک اور برتاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ :

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر چل پڑے اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! انس عقلمند لڑکا ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرے گا، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ میں  نے سفر اور حضر میں  آپ کی خدمت کی اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے بارے میں  جو میں  نے کیا ہو کبھی نہیں  فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں  کیا اور نہ ہی اس کام کے بارے میں  جس کو میں  نے کیا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں  فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں  نہیں  کیا۔۔(مسلم : باب کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس خلقا، حدیث:۲۳۰۹)۔

اور ایک روایت میں  ہے :

 مجھے رسول اللہ ا کی دس سال تک خدمت کا شرف حاصل ہوا اللہ کی قسم آپ ا نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں  فرمایا اور نہ ہی کبھی یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں  کیا اور یہ کام کیوں  نہیں  کیا۔ (مسلم:باب کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس خلقا، حدیث:۲۳۰۹)

اورایک روایت کے الفاظ ہیں  :مجھے نو سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے میں  نہیں  جانتا کہ آپ انے کبھی فرمایا ہو تو نے یہ کام اس طرح کیوں  کیا اور نہ ہی کبھی آپ انے کوئی نکتہ چینی کی۔(مسلم : باب کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس خلقا، حدیث:۲۳۰۹)۔

اورایک روایت میں  حضور اکے حسن اخلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ :

 رسول اللہا وسلم تمام لوگوں  سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے ایک دن آپ انے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں  نے کہا: اللہ کی قسم میں  نے نہیں  سوچا تھا کہ نہیں  جاؤں  گا اور میرے جی میں  یہ بات تھی کہ جس کام کا اللہ کے نبی انے مجھے حکم فرمایا ہے اس کے لئے میں  ضرور جاؤں  گا تو میں  نکلا،میں  کچھ ایسے بچوں  کے پاس سے گزرا جو بازار میں  کھیل رہے تھے اچانک میں  کیا دیکھتا ہوں  کہ رسول اللہ ا پیچھے سے میری گدی پکڑے ہوئے ہیں  حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں  کہ میں  نے آپ صلی اللہ ا کی طرف دیکھا تو آپ امسکرا رہے تھے اور آپ انے فرمایا: اے انس کیا تم وہاں  گئے تھے؟ جہاں  جانے کا میں  نے تجھے حکم دیا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ میں  نے عرض کیا: جی ہاں  اے اللہ کے رسول امیں  اب جا رہا ہوں۔ (مسلم : باب کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس خلقا، حدیث:۲۳۱۰)۔

یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ خادم رسول ا ہیں ، یہ اپنی زبانی ارشاد فرماتے ہیں  کہ میں  نے نبی کریم اکی نو سال کی مدت خدمت کی کبھی آپ ا نے کسی کام کے تعلق سے لعن طعن کرنا، برا بھلا کہنا تو دور کا رہا، آپ ا نے کبھی مجھے اف تک نہیں  کہا، نہ کسی میرے کام پر نکتہ چینی یا عیب جوئی فرمائی، ایک مرتبہ تو یوں  ہوا کہ کسی کام سے آپ ا نے انس رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ کھیل کود میں  مصروف ہوگئے، خودتلاش کرتے ہوئے حضور اکرم ا  تشریف لائے، آپ ا نے کچھ نکیر نہ فرمائی، خدمت میں  کوتاہی پر حرف زنی نہ کی، بلکہ انداز تخاطب میں  بھی کچھ تبدیلی نہیں  لائی ؛ بلکہ رحیمانہ ومشفقانہ انداز میں  جس کو عربی میں  ’’تصغیر ‘‘ کہاجاتا ہے مخاطب فرمایا: ’’اے انیس‘‘ چھوٹے بچوں  کو بطور محبت کے اس طرح پکارا جاتا ہے، آپ انے بجائے ڈانٹنے اور غصہ کرنے کے محبوبانہ انداز میں  صرف استفسار فرمایا کہ وہاں  نہیں  گئے جہاں  میں  نے بھیجا تھا، خدام کے ساتھ حسن سلوک کے تعلق سے ان واقعات میں  بہت کچھ درس عبرت موجود ہے۔

حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ آپ ا کا حسن سلوک

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ جو حادثاتی طور پر غلام ہوگئے تھے، غلامی کی حالت میں  آپ ا کی ملکیت میں  آگئے تھے، ان کے والد بیٹے کی جدائیگی اور فراق پر بہت زیادہ غم زدہ رہاکرتے تھے، انہوں  نے بیٹے کے فراق پر اشعار بھی کہے،انہیں  کسی طرح یہ علم ہوا کہ زید آپ ا کے غلام ہیں ، حاضر ہو کر بیٹے کی آزادی کا مطالبہ کیا تو آپ ا نے فرمایا : زید کو اختیار ہے کہ وہ چاہیں  تو اپنے والد کے ساتھ جائیں  اور چاہیں  تو یہیں  رہیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے والد کے بجائے آپ ا کی غلامی کو پسند کیا، آپ ا کے رحم وکرم اور آپ اکے شفقت وبرتاؤ کا نتیجہ تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اپنے والد اور خاندان اور قبیلہ پر آپ ا کی ذات اور آپ کی صحبت کو اختیار کیا، (طبرانی ۴۶۵۹)۔

خلاصہ کلام

خلاصہ یہ کہ خادموں  کو نیچی اور حقیر نگاہ سے نہ دیکھا جائے، ان کے ساتھ بھی بھلائی اور حتی المقدور مساوات اور برابری کا برتاؤ کیا جائے، ان کی ضروریات اور حاجیات کا خیال رکھا جائے، ان کے کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے کا نظم وانتظام کی بھی نگرانی رکھے، ہوسکے تو جو کھانا خود کھائیں  وہ ان کو کھلائیں ، جو کپڑا خود پہنیں  انہیں  پہنائیں، کم ازکم انہیں  اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ کھلائیں  ضرور، ان پر کاموں  کا اسی قدر بوجھ نہ ڈالیں جس کا تحمل وہ نہ کر سکتے ہوں ، اگر وہ کسی گراں  بار اور مشقت آمیز کام میں  مصروف ہو ں  تو ان کا ہاتھ بٹائیں ، ان کو ماریں  نہیں ، انہیں  برا بھلا نہ کہیں ، انہیں  لعن طعن نہ کریں، ان پر لعنت وملامت کے تیر ونشتر نہ چلائیں، ان کی ہمت افزائی کریں ، ان کی غلطیوں  کو نظر انداز کریں ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے باز آئیں، انہیں  برے اور حقیر القاب سے نہ پکاریں، ان کو دعاؤں  سے نوازتے رہیں، ان کے لئے بد دعاء نہ کریں۔ ان کا محنتانہ اور مزدوریں  وقت پر ادا کریں۔

تبصرے بند ہیں۔