مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا نظریۂ تعلیم

آصف علی

مولانا مودودی ؒ کی شخصیت ایک متکلم اسلام کی حیثیت سے متعارف ہوئی ہے۔ مغرب کے فکری وسیاسی غلبہ و تسلّط کے نتیجے میں مسلمانوں اور بالخصوص ان کی نوجوان نسل کا ایمان اسلامی عقائد واقدار سے متزلزل ہو رہا تھا۔انھوں نے اپنی طاقت ور اور موثر تحریروں کے ذریعے کمیونزم، سرمایہ داری اور دیگر غیر اسلامی نظریات پر زبردست حملے کیے اور اسلامی اقدار و تعلیمات کی حقانیت اور معقولیت ثابت کی۔ انھوں نے ’جماعت اسلامی‘ کی تشکیل کی، جس نے دین کی اقامت کو اپنا نصب العین بنا یا اور جو سماج میں اس کے نفاذ کے لیے برابر کوشاں ہے۔

سیدمودودی نے اسلام کا ایک جامع اور ہمہ گیر تصور  پیش کیا، جس کے تحت نظامِ تعلیم بھی آجا تا ہے۔ انھوں نے جدید اور قدیم دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں جاکر ان کے ذمہ داروں کے سامنے اپنا یہ تصور تعلیم پیش کیا۔انھوں نے ۱۹۳۶ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک مقالہ پیش کیا، جس میں جدید نظام تعلیم کے نقصانات بیان کیے۔ ایک دوسری تحریر کے ذریعے مسلم یونیورسٹی کی مجلس اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کا جواب دیا۔ اسی طرح ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی  انجمن اتحاد الطلبہ میں ایک مقالہ پڑھا، جس میں قدیم نظامِ تعلیم کے نقائص پر روشنی ڈالی۔اسلامیہ کالج( لاہور) کے ایک جلسۂ تقسیم اسناد میں خطبہ پیش کیا۔تقسیم ملک کے بعد اصلاح تعلیم کے سلسلہ میں پاکستان کے قومی تعلیمی کمیشن کے سوال نامے کے جواب میں اسلامی نظام تعلیم کا مفصل خاکہ پیش کیا۔

مولانا مودودی اگرچہ  تعلیمی اداروں سے وابستہ نہیں رہے، لیکن مروجہ تعلیمی نصاب میں اصلاح اور اسلامی نظام تعلیم کی تشکیل کے سلسلے میں وہ واضح تصورات رکھتے تھے۔تقسیم ملک سے قبل جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد انھوں نے اس کی تعلیمی کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔ تاکہ وہ ان کے پیش کردہ نظریۂ تعلیم کے مطابق تعلیمی اداروں کے قیام کی منصوبہ بندی کر سکے۔

تعلیم کے موضوع پر مولانا مودودی کی بھی کوئی مستقل کتاب نہیں ہے۔انھوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں جو مقالات پیش کیے ان کا مجموعہ’ تعلیمات‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب مولانا کے چار مقالات کا مجموعہ ہے۔ دو مقالات( ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص  اور مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل) انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیش کے تھے۔مقالہ’ نیا نظام تعلیم ‘دارالعلوم ندوۃ العلماء میں پڑھا تھا اور خطبۂ تقسیم اسناد کے عنوان سے مقالہ اسلامیہ کالج کے جلسۂ تقسیمِ اسناد کے موقع کا ہے۔آخر میں جماعت اسلامی کی مجلس تعلیمی کی نشست منعقدہ دار الاسلام ۱۹۴۴ء کی روداد شامل کردی گئی ہے۔تعلیم کے موضوع پر مولانا کی ایک اہم تحریر    ’ اسلامی نظام تعلیم‘ کے عنوان سے الگ سے شائع ہو رہی ہے۔ اسے مولانا نے پاکستان کے قومی تعلیمی کمیشن کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا کی تحریروں، تقریروں، انٹرویو، عصری مجالس کی رودادوں، استفسارات کے جوابات وغیرہ کے جو مجموعے شائع ہوئے ہیں (مثلاًادبیات مو دودی، تنقیحات، تصریحات، استفسارات، مولانامودودی کے انٹرویو، گفتاروافکار، ۵۔اے، ذیلدار پارک(مولانا مودودی کی عصری مجالس)وغیرہ، ان میں بھی ان کے تعلیمی افکاروتصورات کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

ذیل میں تعلیم کے مختلف پہلؤوں پر مولانا مودودی کے افکار کا مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے.

مقصدِ تعلیم

تعلیم کا مقصد محض معاشی ضروریات کی تکمیل نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی مقصد تہذیب و تمدن کی ترقی اور انسانوں کو اچھا شہری بنانا ہے۔مسلمانوں کے تعلق سے اس کی اور بھی اہمیت ہے۔جو تعلیم انھیں ان کے مذہب سے بے گانہ اور ان کی نئی نسل کے اخلاق کو پراگندہ کردے وہ کس کام کی؟  انھوں نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ تعلیم دیتے وقت اس کا مقصد(مذہبی وابستگی اور اخلاقی تربیت) کو ہر حال میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔

قومی ترقی اس وقت ہو سکتی ہے جب ترقی کے ساتھ مذہب بھی قائم رہے، ورنہ اگر مذہبی حالت درست نہ رہی تو یہ ترقی کسی اور قوم کی ترقی ہوگی، مسلمانوں کی نہ ہوگی۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ترقی کی اصلی بنیاد تعلیم ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ جدید تعلیم مذہب سے خالی ہے اور قدیم تعلیم دنیاوی ترقی کے لیے کارآمد نہیں۔ ‘‘ (روداد ندوہ، مارچ ۱۹۰۷ئ)

مولانا مودودی نے لکھا ہے:

’’لازما ہمارے پیش نظرتعلیم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جوہماری قومی تہذیب کو (اور ہماری قومی تہذیب ہمارے دین کے سوا کیا ہے؟لہٰذا)ہمارے دین کو اچھی طرح سمجھتے ہوں،  اس پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوں،  اس کے اصولوں کوخوب جانتے ہوں اور ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہوں، اس کے مطابق مضبوط سیرت اور قابل اعتماد اخلاق رکھتے ہوں اور اس قابلیت کے مالک ہوں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے پورے کارخانے کو ہماری اس تہذیب کے اصولوں پر چلا سکیں اور مزید ترقی دے سکیں۔ ‘‘   (اسلامی نظام تعلیم،  مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ۲۰۰۷ء ص ۱۴۲)

وہ مروّج تعلیمی نظاموں پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کی تکمیل نہیں کر سکتا:

’’اس وقت ہمارے  ملک میں جتنے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کے لیے آدمی تیار نہیں کرتا جو ہمارے پیش نظر ہے۔۔۔ ہمیں صرف یہی نہیں کرنا ہے کہ نو خیز نسلوں کی علمی اور ذہنی تربیت کا انتظام اپنے نصب العین کے مطابق کریں،  بلکہ اس کے ساتھ ان کی اخلاقی اور علمی تربیت کا بندوبست بھی کرنا ہے۔‘‘ (تعلیمات، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ۱۹۷۸ء، ص۸۶)4

مولانا مودودی نے بھی جدید تعلیم کے اداروں پر سخت تنقید کی ہے۔اپنے ایک خطبے میں انھوں نے ان کو’ قتل گاہ‘ قرار دیا ہے:
’’ در اصل میں آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کے بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں یہ در اصل موت کے صداقت نامے ( DEATH CERTIFICATES)    ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو دیے جا رہے ہیں ‘‘(تعلیمات، ص۵۲)5

مولانا مودودی بھی قدیم طریقۂ تعلیم کے سخت ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں :

’’ اب جو لوگ اس نظام تعلیم کے تحت پڑھ رہے ہیں اور اس سے تربیت پاکر  نکل رہے ہیں ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں،  یا کچھ مدرسے کھول لیں یا وعظ گوئی کا پیشہ اختیار کریں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں،  تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔‘‘(اسلامی نظام تعلیم، ص۶)

لیکن ساتھ ہی ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اصلاحِ نصاب سے اس کی بنیادی خامی دور نہیں ہو سکتی ہے۔ انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں جو مقالہ پڑھا تھا، اس میں اصلاح نصاب کی کوششوں پر ان الفاظ میں تنقید کی تھی:

’’ لوگ اس گمان میں ہیں کہ پرانی تعلیم میں خرابی صرف اتنی ہی ہے کہ نصاب  بہت پرانا ہوگیا ہے اور اس میں بعض علوم کا عنصر بعض علوم سے کم یا زیادہ ہے اور جدید زمانہ کے بعض علوم اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اصلاح کی ساری بحث اس حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کہ کچھ کتابوں کو نصاب سے خارج کرکے کچھ دوسری کتابوں کو شامل کر دیا جائے۔۔۔۔۔اور بہت زیادہ روشن خیالی پر جو لوگ اتر آتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ صاحب ہر مولوی کو میٹرک تک انگریزی پڑھاکر نکالو،  تاکہ کم از کم تار پڑھنے اور لکھنے کے قابل تو ہوجائے۔‘‘  (تعلیمات:ص۵۵۔۵۶)

مولانا مودودی کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ان کے نزدیک’’علوم کو دینی و دنیوی دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دنیا کی علیٰحدگی کے تصور پر مبنی ہے اور یہ تصور بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ ‘ ‘(تعلیمات، ص۰ ۷)

انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں دینی تعلیم کی شمولیت پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

’’ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بہ حیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں،  پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں۔ ‘‘ (تعلیمات، ص۲۴)

وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں :

’’درحقیقت اب یہ ناگریز ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظام تعلیم ختم کر دیے جائیں جو اب تک ہمارے یہاں رائج ہیں۔ پرانا مذہبی نظام تعلیم بھی ختم کیا جائے اور یہ موجودہ نظام تعلیم بھی، جو انگریز کی رہ نمائی میں قائم ہوا تھا۔ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیا نظام تعلیم بنانا چاہیے جو ان نقائص سے پاک ہو اور ہماری ان ضرورتوں کو پورا کرسکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے  اس وقت لاحق ہیں۔ ‘‘(اسلام کا نظام تعلیم:ص۱۳)

اسلامی نظام تعلیم سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا:

’’اسلامی نظام تعلیم سے مراد ایسا نظام تعلیم ہے جس میں تعلیمی نصاب کے جملہ اجزاء کو اسلامی اصول و نظریات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہو۔معلمین و متعلمین دونوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا گیا ہو اور عربی زبان اور کتاب و سنت کی ضروری و اساسی تعلیمات کو نظام تعلیم کا جز لازم قراردیا گیا ہو۔‘‘ (رسائل و مسائل، المنار بک سینٹر، لاہور، ۱۹۸۴ئ:۵؍۳۹۷)7

مولانا مودودی نے مسلم یونیورسٹی کی مجلس اصلاح نصاب دینیات کو نصاب کے سلسلے میں جو تجاویز بھیجی تھیں ان کا خلاصہ یہ ہے:

۔ مسلم یونیورسٹی  کے حدود سے فرنگیت کا کلی استیصال کرکے اسلامی تہذیب کا تحفظ کیا جائے۔

۔ مسلم یونیورسٹی کے معلمین ایسے مقرر کیے جائیں جو ظاہری و باطنی طور سے مسلمان ہوں۔

۔ یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کی تعلیم لازمی ہو۔

۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو تمام بنیادی اسلامی عقائدو تصورات، تاریخ، فنون اور اسلامی ادب و ثقافت کی تعلیم  لازماً دی جائے۔

۔ ہر فن کے سلیبس میں اسلامی نظریات و تعلیمات کو اس طرح پیوست کردیا جائے کہ وہ اس کا جز لاینفک بن جائے۔

۔ اختصاصی تعلیمات میں علوم اسلامیہ کو بھی شامل کیا جائے۔

۔ بی ٹی ایچ اور ایم ٹی ایچ کرانے کے بجائے اسلامی علوم کو متعلقہ علوم کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

۔ علوم اسلامیہ میں ریسرچ کا ایک مستقل شعبہ ہو۔( تعلیمات، ص۲۸۔۳۶ )

مولانا مودودی نے اصلاح تعلیم کے سلسلے میں پاکستان کے قومی تعلیمی کمیشن کو جو تجاویز بھیجی تھیں ان میں بھی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا عملی نقشہ شامل تھا اور ہر مرحلہ کے لیے مضامین اور طریقۂ تعلیم کی نشان دہی کی گئی تھی۔( اسلامی نظام تعلیم، ص۱۷۔۲۸ )8

مولانا مودودی کو بھی انگریزی زبان کی اہمیت کا احساس ہے، لیکن وہ اسے ذریعۂ تعلیم بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک طلبہ کی مادری زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانا چاہیے۔ان کا خیال ہے:

’’جہاں تک انگریزی زبان کی تعلیم کا تعلق ہے، جدید علوم کے حصول کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی شخص بھی انصاف کے ساتھ انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ بات بہ ہر حال غلط ہی نہیں،  سخت نقصان دہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں ذریعۂ تعلیم کے طور پر جاری رہے۔۔۔انگریزی کو ایک اہم زبان کی حیثیت سے شاملِ نصاب ضرور رکھنا چاہیے اور جو لوگ سائنس اور دوسرے جدید علوم حاصل کرنا چاہیں ان کے لیے اس زبان کو سیکھنا لازم بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اسے ذر یعۂ تعلیم بنائے رکھنا انتہائی غلط فعل ہے۔‘‘  (اسلامی نظام تعلیم، ص۳۶ )

مولانا مودودی نے بھی تعلیم نسواں کی پرزور وکالت کی ہے اور اس کو اسی طرح ضروری قرار دیا ہے جس طرح مردوں کی تعلیم ضروری ہے۔۔وہ فرماتے ہیں :

’’جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضروری ہے جتنی کہ مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پس ماندہ رکھ کر دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی بہتر سے بہتر انتطام کرنا ہے، جیسا کہ مردوں کی تعلیم کے لیے‘‘    (اسلامی نظام تعلیم، ص۳۱)

لیکن وہ اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ عورتوں کو ایسی تعلیم دی جائے جس سے ان کی فطری ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’ عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل اور فطری ذمے داری زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کے بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو ان کے اندر ایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظامِ زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔‘‘    (حوالہ سابق، ص۳۱)

مولانا مودودی نے جہاں تعلیمِ نسواں کی حمایت کی ہے وہیں وہ اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ طالبات کی تعلیم کا انتظام طلبہ سے الگ کرنا ضروری ہے۔ مخلوط تعلیم کو وہ سراسر غیر اسلامی اور ضرررساں سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں :
’’ ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف و ضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کسی سطح پر بھی مضلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔‘‘        (حوالہ سابق، ص۳۱)

مخلوط تعلیم کے بارے میں ایک سوال کا جواب انھوں نے ان الفاظ میں دیا:

’ہم مخلوط تعلیم کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔  میں سمجھتا ہوں کہ مغربی اقوام آج جس اخلاقی پستی اور معاشرتی انتشار میں مبتلا ہیں اور وہاں خاندانی نظام جس اخلاقی پستی کو پہنچا ہوا ہے اس میں دوسری چیزوں کے علاوہ مخلوط تعلیم کا بھی زبردست حصہ ہے۔‘‘    (ماہنامہ آئین، اپریل۱۹۷۶ )

سید مودودیؒ اس کے تعلق سے بڑی قیمتی تجاویز پیش فرماتے ہیں۔ آپ کی یہ تجاویز مغربی ماہرین تعلیم کی طرح سے دنیاوی نظام کو چلانے کے لئے معاشیات، سیاسیات، قوانین اور شیئربازاری کا علم نہیں ہے۔ بلکہ خدا کے مطالبات کا علم، اس کی وحی کے متعلق واقفیت، آفاق وانفس میں اس کی آیات پر غور یہی حقیقی علم ہے۔ اس کے برعکس جو کسی اور علمی دنیا میں رہتاہے خواہ وہ کتنا ہی روشن خیال(Broad minded) ہو وہ روشنی میں نہیں بلکہ تاریکی میں رہتاہے  جسے اصل علم اور معرفت بھی نہیں مل سکتی۔

’’سید مودودیؒ‘‘ تحریر فرماتے ہیں۔

’’درحقیقت علم سے مراد فلسفہ وسائنس اور تاریخ وریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں۔ بلکہ صفاتِ الٰہی کا علم ہے۔ قطعِ نظراس سے کہ آدمی  خواندہ ہو یا ناخواندہ۔ جو شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علامۃ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہل محض ہے۔‘‘(تفہیم القرآن۔ چہارم۔ ص۲۳۲)

سید مودودی ؒ‘‘ کہتے ہیں :۔

’’علم کی بنیاد قرآن ہے۔ اس کتاب پاک میں وہ تمام اصول اور قوانین بیان کردیے گئے ہیں جن پر اسلام کا مدار ہے۔ علم کادوسرا سرچشمہ رسول اللہ کی زندگی ہے۔ آپ  نے ایک نبیؐ کی حیثیت سے ۲۳ سال تک جو کچھ کیا اورجو کچھ کہا ہے وہ سب قرآن کی تفسیر ہے۔ علم کا تیسرا سرچشمہ صحابہ ٔ کرام کی زندگی ہے۔ انہوں نے قرآن کو خود حاصل قرآن سے سمجھا ہے۔ ۔۔۔ جولوگ ان تینوں سرچشموں سے استفادہ کرکے اسلام کے اصول اور زندگی کے جزئی مسائل پر ان کو منطبق کرنے کے طریقوں کو اچھی طرح سمجھ لیں ان میں یہ قابلیت پیدا ہوجاتی ہے کہ زندگی کے عام معاملات میں جو ہر ملک اورہرزمانے میں نئے ڈھنگ اور نئے طور سے پیش آتے ہیں۔ اصول اسلام کے مطابق احکام اورقوانین بنا سکیں ‘‘۔

(دین کے اصل مطالبات اورہمارا طرز عمل۔ ص  ۱۳۔۱۴)

بایں ہمہ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جدید دور کے وہ طبعی اور مادی علوم جن کا تعلق دنیوی ترقی سے ہے اور جن میں اغیار نے بہت ترقی کر کے تمدن اور انسانیت کے دامن میں سہولیات کا سرمایہ ڈالا ہے ان کا حصول بھی امت پر لازم ہے۔ سائینسی علوم، جن میں طب کی ترقی یافتہ صورت ہے اس میں مسلمانوں کو پیچھے نہیں رہنا۔چاہیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم اقتصادیات میں دنیا کی پیش قدمیوں کا مقابلہ کرنا بھی جہاد میں شامل ہے۔ جدید پیچیدہ ہتھیاروں کے لیے مسلمان اپنے ہی دشمنوں کے محتاج ہیں۔ جدید علوم کی اب بے شمار شاخیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ان سے بے خبر رہ کر ہم دشمن کا مقابلہ کیوں کر کر سکیں گے؟ ہمارے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک نے علوم کو دین و اخلاق سے پوری طرح جدا کر دیا ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ جدید علوم کو مقاصد اور استعمال دونوں پہلووں سے اپنے دین اور اسلام کے اخلاقی نظام کے تابع رکھ کر ان مادی علوم کو حاصل کریں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مولانا سید مودودی رحمہ اللہ کا بہت بڑا۔ کارنامہ یہ ہےکہ انہوں نے اقامت دین کے لیے صرف گھر بیٹھ کر کتابیں نہیں لکھیں بلکہ عملی میدان میں اتر کر اس کے لیے ایک منظم تحریک برپا کی، جو پوری دنیا میں پھیل گئی ،اور پوری دنیا میں مختلف ناموں سے اقامت دین کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے _ظاہر ہے جو میدان میں اترے گا اس سے غلطیاں بھی ہو نگی_

    گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
    وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے

    پیغمبروں کے علاوہ کوئی بھی معصوم عن الخطا ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا مولانا سے بھی غلطیاں ہوئیں ونگی ،لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جماعت کے سب افرادکو میرے اجتہادات ضروری ماننے ہیں_ انہوں نے دلیل سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی ،کچھ لوگوں نے ان کی دلیل مظبوط مان کر ان کا ساتھ دیا کچھ نے مخالفت بھی کی ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے__
    سید مودودی رحمہ اللہ نے نوجوانوں میں ایک نئی امنگ اور ایک نیا حوصلہ پیدا کیا ،مسلم نوجوان بھی اسلامی نظام کا خواب دیکھنے لگے ،یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جو مولانا نے انجام دیایہ دوسری بات ہے کہ بعد میں آنے والوں کی رفتارتھوڑی سست پڑ گئی ایسا تحریکوں میں ہوتا ہے سست ہی سہی لیکن چل رہے ہیں___

تبصرے بند ہیں۔