خاموش احتجاج کی علامت: ڈاکٹر نوازؔ دیوبندی

افروز عالم

 تاریخ شاہد ہے اور سیانے بتاتے ہیں کہ ’’ آواز‘‘ جمہوریت کی بنیادی سوتن ہے۔ بولنے کی آزادی، سوال کرنے کا حق اور برداشت کرنے کی روش ہی دراصل جمہوریت کے زیور ہیں۔ آواز اٹھانے کا فن ہر ذی شعور کے بس کا روگ نہیں۔ جسے آواز اٹھانے کا فن آ گیا وہ قوم اور ملک کا لیڈر ٹھہرتا ہے، وہ لوگ جو پوری قوت کے ساتھ آواز نہیں اٹھا سکتے اُس میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ لوگ جو شعوری طور پر بالغ نہیں ہوتے ہیں،  اُن کا استحصال ہوتا رہتا ہے اور وہ بے بس و مجبور ہو کر خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں ایسے جیالے تاریخ کے کھنڈر میں بیتی ہوئی شتابدیوں کے ملبے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ وہیں بالغ ذہن کے باشعور لوگ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار فن کے ذریعہ کرتے رہتے ہیں۔ اِس میں بیشتر حصہ فنکاروں کا ہوتا ہے، یہ اہلِ فن کبھی قلم کے ذریعہ تو کبھی مکالمہ کے ذریعہ تو کبھی ساز کا سہارا لے کر اپنی بات کو سماج کے منظر نامے پر رکھتے ہیں۔ تاریخ کے باب میں یہ لوگ معزز کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔ ان کی خاموشی دراصل ان کی حکمت ہوتی ہے۔ حکمت جو یہ بھی کہتی ہے کہ چپ رہو۔ دراصل خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ الفاظ زبان سے ادا ہونے کے بعد اتنے خوبصورت نہیں رہ جاتے جتنے محسوس کرتے وقت ہوتے ہیں کسی پینٹنگ سے زیادہ دلکش ہوتا ہے اُس کے بنائے جانے کا تخلیقی سفر جیسے آرٹسٹ کے ارد گرد پھیلے ہوئے وہ رنگ جو دراصل خود اُس کی ذات کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال سخنور، مصور اور موسیقار کا بھی ہوتا ہے، اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے رنگوں اور حالات و معاملات کو وہ اپنے فن کے سانچے میں ڈھال کر اپنے سامعین، قارئین اور شائقین کو جب پیش کرتا ہے تب سماج کو وہاں سے زندگی کرنے کی نئی راہیں ملتی ہیں۔

 آئیے آپ کی ملاقات ایک خاموش معزز آواز سے کرواتا ہوں، جو خاموشی سے اپنے نقطۂ نظر کو اپنے اشعار میں ڈھال دیتا ہے اور جب وہ اشعا ر قرطاس پر آتے ہیں تو بے حِس سماج کے سامنے چیخ چیخ کر کہتے ہیں     ؎

اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا یہاں کبھی

دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

  ( ہمایوں )

ڈاکٹر نواز دیوبندی خاموش رہنے کے ہنر اور چپ رہنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔ موصوف کی شخصیت پر گفتگو سے پہلے کچھ اشعار پر روشنی ڈالتے ہیں ممکن ہے وہیں سے شاعر کی شخصیت سے پرتیں بھی ہٹنی شروع ہو جائیں    ؎

جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے

اُس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

 بھارت کے سینئر اہل قلم خوشونت سنگھ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ بھارت کا خاتمہ ‘‘ کے صفحہ نمبر ۲۱ ؍ پر بیان کیا ہے کہ ’’ گیتا ہری ہرن نے اپنی ناول  ’’In Times of Siege  ‘‘  میں ایک جرمن پادری مارٹن تھلر کا حوالہ دیا ہے جسے نازیوں نے سزائے موت دے دیا تھا

’’رمنی میں پہلے وہ کمنینسٹوں کے خلاف حرکت میں آے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ میں کمیونسٹ نہیں تھا،  پھر انہوں نے یہودیوں کے خلاف اقدام کیا لیکن میں نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ میں یہودی نہیں تھا۔  پھر انہوں نے  ٹریڈیونینوں کا قلع قمع کیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر انہوں نے ہم جنس پرستو ں پہ ستم کر کے نیست و نابود کیا، اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ میں ہم جنس پرست نہیں تھا پھر انہوں نے کیتھو لیکوں پر ظلم و ستم کئے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیوں کہ میں پروٹسٹنٹ تھا پھر انہوں نے میرا رخ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس وقت کوئی بچا نہیں تھا جو میرے لئے آواز اٹھاتا۔

اس طویل اقتباس کو چار مصرع میں شعر بند کر کے ڈاکٹر نواز دیوبندی نے اردو شاعری کے سامعین و قارئین پر احسان کیا ہے، ان اشعار کی قرأت سے شاعر کے قوی مشاہدہ اور وسیع مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ سن ۱۹۹۰ کے پہلے کے بھارت اور بعد کے بھارت میں آج کوئی تال میل نہیں ہے، بہت کچھ بدل چکا ہے جو کچھ بچا ہوا ہے وہ بدلنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ یوں تو پوری دنیا کا ماحول ہی انکل سام کی نامعقول نظریات اور ان کی سر پھری اولادوں کے زیر اثر قتل و غار ت گری کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہے۔  انہیں طاقتوں کی رہنمایٔ میں انتہا پسند تنظیموں کے کارکن بھارت کی مشترکہ ثقافت، گنگ و جمن کی تہذیبیں اور ہند و سندھ کی روایات کو مسمار کرنے کی ضد پہ اڑے ہوے ہیں۔  آج جو صورتحال بھارت کی ہے ۱۹۳۵ سے ۱۹۴۲ کے درمیان یہی صورتحال جرمنی کی تھی، جرمنی کے ماتھے پر ہٹلر جیسی سیاہ کار شخصیت کا بدنما داغ ہے، جس کے دست و دامن لاکھوں یہودیوں کے لہو سے لتھپت ہے، جس کی وحشی ذہنیت نے ووسری جنگ عظیم کا صور پھونکا تھا، جس کے نتیجے میں تاریخ کے اوراق صدیوں سیاہ رہیں گے۔ آج کا بھارت کل کیا گل کھلائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ایسے ماحول میں ڈاکٹر نواز دیوبندی نے ان مصرعوں کے ذریعہ پوری بنی نوع انسان کو آگاہ کیا ہے۔      میرے نزدیک ان چار مصرعوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جو سر سر دبے پاؤں آگے بڑھ رہی ہے اسے اگر اپنی آواز و عمل سے نہ روکا گیا تو آنے والے سالوں میں اس طوفان کو روکنے کے لئے کوئی نہیں رہے گا۔ میرا دِل چاہتا ہے کہ آپ اس شعر کو مکر ر ملاحظہ فرمائیں۔

جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے

اُس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

ڈاکٹر نواز دیوبندی کی شخصیت کا اندازہ اس شعر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ؎

شہروں شہروں خونریزی میں شیطانوں کا نام نہ لو

اس سازش کے پیچھے کوئی انساں بھی ہو سکتا ہے

مشہور زمانہ غز ل خواں آنجہانی جگجیت سنگھ نے ڈاکٹر نواز دیوبندی کی ایک غزل کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا تھا، اُس البم کی کچھ اور بھی غزلیں سننے لائق ہیں۔ آئیے ڈاکٹر نواز دیوبندی کی اُس غزل سے کچھ شعر کا لطف لیتے ہیں     ؎

تیرے آنے کی جب خبر مہکے

تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے

شام مہکے ترے تصور سے

شام کے بعد پھر سحر مہکے

یاد آئے تو دِل منور ہو

دید ہو جائے تو نظر مہکے

ہیئت اور قواعد کے مد نظر ڈاکٹر نواز دیوبندی غزل کے شاعر ہیں۔ آپ کی غزلیں سنجیدہ قارئین کے لئے تنہائی میں گنگناہٹ اور فرحت کا احساس دلاتی ہیں۔  شاعر جب غزل کا شعر تخلیق کرتا ہے تب اس کے خیال میں ایک ایسی محبوبہ کا مجسمہ ہوتا ہے جس کا وجود کرۂ ارض پر ممکن نہیں ہے، وہ اس سے گفتگو کرتا ہے یہی گفتگو دراصل شعر ہے، جہاں وہ اپنی تصور بیگانگی کو ادب کا حصہ بناتا ہے، آپ بیتی کو جگ بیتی میں تبدیل کرتا ہے۔ دیوانگی کے عالم میں کی گئی گفتگو اپنے سامعین کو پیش کرتا ہے، جو سامعین کے لئے فرحت کے سامان ہوتے ہیں۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج کی غزل صرف محبوبہ سے گفتگو ہی نہیں بلکہ حالات حاضرہ کا نوحہ بھی ہے اور عصر حاضر کا قصیدہ بھی، شاعر کی آپ بیتی بھی اور زمانے کی جگ بیتی بھی۔ آج کی غزل اپنے دامن میں ہر خوش رنگ خواب کو بھی سمیٹے ہوئے ہے اور تازہ سماجی و سیاسی حالات پر حملہ آور بھی   ؎

ہمارے گاؤں سے ہو کر کئی ندیاں گزرتی ہیں

وہ یا تو خشک رہتی ہیں یا پھر سیلاب لاتی ہیں

میں نے ہوا کے شوق میں کھولی تھی کھڑکیاں

ساری گلی کا شور مرے گھر میں آگیا

ڈوبنے والا ہے سورج، قد کااب کیا دیکھنا

دھوپ ہوگی جب ترے سر پر تو سایہ دیکھنا

شعوری اور لاشعوری طور پر ہر شاعر کچھ خاص الفاظ کو مسلسل استعمال کرتا ہے، کسی خاص الفاظ کو علامت کے طور پر بار بار استعمال کرتا ہے۔     ڈاکٹر نواز دیوبندی نے لفظ ’’ چراغ ‘‘ کو اپنی شاعری میں مختلف زاویے سے خوب خوب استعمال کیا ہے۔ آئیے کچھ اشعار چراغ کی روشنی میں ملاحظہ  کیا جاے ٔ   ؎

پھر سرپھری ہواؤں نے گل کر دئیے چراغ

ایسی ہوا چلا، جو چراغوں کا  ساتھ  دے

رونا پڑا کسی کو ہنسانے کے واسطے

ہم خود جلے چراغ جلانے کے واسطے

میں برے وقت کا رفیق ہوں تمہیں کچھ تو سوچنا چاہئے

میں چراغ محفل ہجر ہوں مجھے وصل میں نہ بجھائیے

راستوں میں جب اندھرے گھیر لیتے ہیں

ہم جلا لیتے ہیں اکثر تیری یادوں کے چراغ

جسے نہ جلنے کی خواہش نہ خوف بجھنے کا

وہی چراغ ہوا کے اثر سے باہر ہے

بجھا بجھا کے سجاتا ہے وہ منڈیروں پر

اسے چراغ نہیں روشنی سے نفرت ہے

باد سموم باد صبا سے نہیں بجھا

تیری مری کسی کی خطا سے نہیں بجھا

افسوس ہے کہ اپنوں کی سازش سے بجھ گیا

میرا چراغ تیز ہوا سے نہیں بجھا

کوائف سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا پورا نام محمد نواز خان تاریخ پیدائش و جائے پیدائش ۶ ۱ ؍ جولایٔ ۱۹۵۶، دیوبند، یوپی ہے ۔ کئی سرکاری اور نیم سرکاری تنظیموں میں ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے اور اب بھی ہیں۔ بھاری بھرکم قد کے مالک، ہلکی داڑھی، نفیس رکھ رکھاؤ کے مالک جناب ڈاکٹر نواز دیوبندی کا نام اردو کے حالیہ منظر نامے پر بہت ہی صاف لفظوں میں آویزاں ہے۔ اندرون اور بیرون ملک کے بڑے بڑے ادبی و عوامی مشاعروں میں آپ کی شرکت بہت ہی باوقار طریقے سے ہوتی ہے۔ جہاں آپ کی شمولیت سے مشاعرے کو بہترین مانا جاتا ہے۔  موصوف آج اردو ادب کی دنیا میں سر فہرست  ۱۰  ؍  دس ناموں میں شامل ہیں، مشاعرے، رسائل اور اخبارات کے ذریعہ آپ کا کلام شہروں شہروں، ملکوں ملکوں پہنچ رہا ہے اور خوب خوب داد حاصل کر رہا ہے۔ آپ کی شہرت کی وجہ ایک طرف آپ کے کلام میں مصرعوں کی چستی ہے تو دوسری طرف ہر قسم کے مضامین سے لبریز کلام قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہیں۔

فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ؎

ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی  ہے رقم کرتے رہیں گے

   پرورش لوح و قلم کا یہی سلسلہ ڈاکٹر صاحب کے یہاں بھی مسلسل جاری ہے، جس کی بنیاد پر میں، آپ کو کسی خاص ازم کا شاعر نہیں سمجھتا۔ آپ کا شعری قرطاس ایک بحر بیکراں ہیں جس میں رنگ بر نگے قیمتی پتھر نگینے کی طرح محفوظ ہیں۔ آئیے چند اشعار کی روشنی میں شاعر کے تخلیقی شعور تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں      ؎

بڑی مشکل سے نکلے گی کوئی صورت تعلق کی

تمہیں رونا نہیں آتا مجھے ہنسنا نہیں آتا

وہ مجھ سے دور ہوتا جا رہا ہے

غزل کہنے کا موسم آرہا ہے

شہر میں ایسے تو حالات نہیں تھے پہلے

رنجشیں تھیں یہ فسادات نہیں تھے پہلے

   آپ کے اشعار کو پڑھ کر اور سن کر جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ یقیناً ڈاکٹر صاحب کے ادبی قد کے مطابق نہیں ہے۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس اور اُن کے مرتبے کا خیال ہے۔ آپ کی شخصیت اور فن اس قدر محبوب ہے کہ بہت دیر تک اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن میں یہاں ایک وکیل کی حیثیت سے آپ کی عدالت میں چند منتخب اشعار پیش کر کے آپ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں، کیونکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان خلق کو نقارۂ خدا کہئے؎

میرے جیسی ہی فطرت پائی ہے اس پھول نے شاید

اکیلا رہ کے بھی گلدان میں ہنستا رہا  برسوں

بتا اے چشم تر تو ہی بتا وہ آگ کیسی تھی

کہ دل بھیگا ہوا کاغذ تھا اور پھر بھی جلا برسو ں

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی

بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

حریفوں کا اپنے بھرم توڑ دینا

غزل ایسی لکھنا قلم توڑ دینا

تبصرے بند ہیں۔