ختم نبوت

ڈاکٹر ساجدخاکوانی

ہر نبی اور ہر آسمانی کتاب نے اپنی امت کو اپنے بعد پیش آنے والے حالات کے بارے میں اطلاعات دی ہیں ۔ کتب آسمانی میں یہ اطلاعات بہت تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ۔ گزشتہ مقدس کتب میں اگرچہ انسانوں نے اپنی طرف سے بہت سی تبدیلیاں کر دیں ، اپنی مرضی کی بہت سی نئی باتیں ڈال کر تو اپنی مرضی کے خلاف کی بہت سی باتیں نکال دیں لیکن اس کے باوجود بھی جہاں عقائد کی جلتی بجھتی حقیقتوں سے آج بھی گزشتہ صحائف کسی حد تک منور ہیں وہاں آخری نبی ﷺ اور قیامت کی پیشین گوئیاں بھی ان تمام کتب میں موجود ہے۔ یہودونصاری نے بعثت نبوت اخری کے بعد ان نشانیوں کو مٹانے کی بہت کوشش کی لیکن پھر بھی بکثرت آثار اب بھی باقی ہیں اور علمائے امت مسلمہ نے انہیں تلاش کر کے عالم انسانیت کے سامنے پیش بھی کردیا ہے۔ اسی طرح وہ بعد میں آنے والے حالات مستقبل قریب سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقبل بعید سے متعلق ہوں ، ان کی جزوی تفصیلات ہر کتاب اور نبی نے پیش کی ہیں تاکہ امت کی راہنمائی ہر حال میں جاری رہے۔

 گزشتہ کتب اور گزشتہ انبیاء علیھم السلام کی طرح آخری نبیﷺ نے اور آخری کتاب قرآن مجید نے بھی اپنے بعد آنے والے حالا ت کے بارے میں بارے میں امت مسلمہ کو بہت تفصیل سے بتایاہے۔ نئے آنے والے حالات اچھے ہوں یا برے ہوں ، وہ دور فتن سے تعلق رکھتے ہوں یاقیامت اور اورآخرت کی نشانیوں کی طور پر ظہور پزیر ہونے والے ہوں ، وہ انسانوں کے رویوں سے متعلق ہوں یا آسمانی آفات و بلیات کی پیش آمدہ اطلاعات ہوں یا آنے والے حالا ت کے تجزیے، اسباب و نتائج ہوں یا ان کے اثرات ہوں اور یا امت میں آنے والی مقدس ہستیاں ہوں یا امت کے مقابلے میں آنے والے ظالم و جابر وقاہرافراد ہوں سب کی تفصیلات  قرآن مجید میں اجمالاَََ اور کتب حدیث میں تفصیلاََ وارد ہوئی ہیں ۔ بعض محدثین نے تو ان حالات کے بیان کے لیے الگ ابواب باندھے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات اور افراداہم تھے یا کسی نبی کی آمد کی اطلاع اہم تھی؟؟ظاہر ہے مذکورہ حالات تو ایمان کا حصہ نہیں ہیں لیکن اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو نبی تو ایمان کاحصہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد ہوتا ہے۔ پس اگر کسی نبی نے آنا ہوتا اور مشیت ایزدی میں کسی نبی کی بعثت اگر باقی ہوتی تو قرآن و حدیث کے مندرجات اس نبی کی اطلاعات سے بھرے پڑے ہوتے۔ یہ بات بہت بڑا دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادت اور ناقابل تردید امرہے کہ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کسی ہیشین گوئی کا ذکر نہیں ہے جس میں کسی نبی کی آمد کی اطلاع ہو اس لیے اب قیامت تک کسی نبی کی آمد قطعاََ نہیں ہوگی۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایمان و یقین جیسے نازک معاملے میں کوئی نبی اپنی امت کو یوں اندھیرے میں چھوڑ جائے۔ قرآن مجید میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں کسی آنے والے نبی کاذکر موجود ہوناچاہیے تھامثلاََسورۃ بقرہ کے آغازمیں ہی فرمایا  وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ{۲:۴}ََ ترجمہ:’’اس پر ایمان رکھتے ہیں جوآپﷺ پر نازل کیاگیااور آپﷺ سے پہلے نازل کیاگیا۔ ۔ ۔ ‘‘۔ اگرآپﷺ کے بعد کوئی کتاب، کوئی شریعت، کوئی نبوت و رسالت یا وحی کاکوئی سلسلہ باقی ہوتاتواس مقام پر ضرور اس کاذکرکیاجاتا۔

 محسن انسانیت خاتم النبیین ﷺ نے انسانیت کے جملہ معیارات اخلاق کو مکمل کیا ہے، آج کئی صدیاں گزرنے کے باوجودا ن معیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔ خاتم النبیینﷺنے معاشرت کو مساوات کا درس دیا، نماز جیسے پنج وقتہ عمل میں اس مساوات کو قائم کیا، امیر، غریب، عالم، جاہل اور عوام حکمران سب کو تاقیامت ایک صف میں کھڑا کردیااور کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ پہلی صف میں جماعت شروع ہو چکنے کے باوجود اپنے لیے جگہ کو خالی رکھوائے بلکہ پہلے آؤپہلے پاؤکی بنیاد پر نماز میں جگہ حاصل کرنے کا اصول دیا۔ اسی طرح حج میں بھی مساوات قائم کی سب لوگ ایک ہی لباس پہنے ایک ہی کمرے کے گرد ایک ہی رخ میں چکر لگاتے ہوئے اور ایک ہی کلمہ زبان سے اداکرتے ہوئے حج کرتے ہیں ۔ آج صدیاں گزر گئیں کسی کتنے ہی نئے نظام ہائے فکروعمل آئے، کتنے ہی فلسفہ ہائے اخلاق آئے اور تہذیب و تمدن نے کتنی ہی ترقی کر لی لیکن انسانی معاشرے کوخاتم النبیینﷺکے درس مساوات سے بڑھ کر کوئی درس میسرنہ آ سکا۔ آپﷺنے معاشرے کے لیے مساوات کے درس اخلاق کومکمل کردیاجس میں آج تک اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔

 خاتم النبیینﷺنے انسانی معیشیت کوسود کی ممانعت، تقسیم دولت اور حقوق کی ادائگی کا درس دیا اور یہ درس دیا کہ ’’مزدورکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو‘‘اسکے دو مطلب ہیں ، ایک تو وہی جو سمجھ آگیایعنی ادائگی بروقت ہو جانی چاہیے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مزدوربھی مزدوری کرتے ہوئے اپنا پسینہ نکالے، یعنی اپنے کام کاحق تواداکرے۔ آج صدیاں بیت گئیں ، ماضی قریب میں کیمونزم، سوشلزم یااشتراکیت کے نام سے بہت بڑے بڑے معاشی انقلابات آئے جنہوں نے دنیا کے جغراافیے سمیت عالمی معیشیت کو نیچے سے اوپر تک ہلامارا، انکی پشت پر تاریخی شہرت کے حامل اہل فکرودانش کی کاوشیں کارفرماتھیں اور نسلوں کے استحصال کے بعد بہت بڑی بڑی افکار پیش کی گئیں جن کو بنیاد بناکر لاکھوں انسانوں کے خون کی قیمت پر ان معاشی نظاموں کونافذ کیا گیا لیکن ان سب کے باوجودبھی وہ حقوق کی ادائگی سے بڑھ کر کوئی نیادرس انسانوں کے سامنے پیش نہ کر سکے، جب کہ یہی درس صدیوں پہلے خاتم النبیینﷺاپنی معاشی تعلیمات میں پیش کر چکے تھے۔ آج کی تہذیب نے راتوں کودنوں سے زیادہ روشن کردیالیکن معیشیت کے میدان میں سوائے اندھیروں کے کچھ نہ دے سکی اورمحسن انسانیتﷺ جن معاشی اخلاقی حقوق و اعلی معاشی معیارات کاتعین فرماگئے ان میں بال برابربھی اضافہ ممکن نہ ہوسکا۔

خاتم النبیینﷺنے مذہب کوانسانیت کادرس دیا، جنگی قیدیوں کو حق زندگی دیا، غلاموں کی آزادی کو رواج دیا، دشمنوں کو معاف کیا، قاتلوں پر انعامات کی بارش کی، رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بجائے اخوت کو مذہب کا وسیع البنییاد پلیٹ فارم عطاکیا، خدمت کو انسانیت کی معراج  قراردیا اور صلہ رحمی کے احکامات جاری کیے۔ ہندومت آج بھی حقوق العبادکا استحصال کرتاہے، عیسائیت نے حقوق اﷲ میں غلو سے کام لیا، یہودیوں نے محض حقوق النفس ہی اداکیے، دنیامیں کم و بیش پچیس ہزارمذاہب پر انسانوں کے گروہ عمل پیرا ہیں لیکن تمام مذاہب افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔ ان مذاہب سے تنگ آکر یورپ نے ’’سیکولرازم‘‘کے نام پر مذہب سے روگردانی اختیارکرنا چاہی اورانسانیت کے نام سے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی اور اسی انسانیت کے ہی نئے معیار قائم کیے ان پر عمل پیرا بھی ہونے کی کوشش کرتے رہے  اسکا حق اداکیا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن تب بھی انسانیت سے بڑھ کرکوئی نیادرس تو انہوں نے بھی پیش نہ کیا اور اسی درس کو خاتم النبیینﷺصدیاں پہلے پیش کر چکے تھے۔ سیکولرازم نے انسانیت کے نام پر انسانیت کااستحصال کیالیکن انسانیت کی کوئی خدمت بجانہ لاسکی وہ انبیاء علیھم السلام ہی تھے جو بغیرکسی معاوضہ کے خدمت انسانیت کے اعلی ترین منصب پر فائزہوئے اور آخری نبیﷺ نے تواس معیار انسانیت کو اس کے بام عروج تک پہنچادیااور انﷺ کے بعد اس میں کوئی اضافہ ممکن ہی نہ ہوسکااگرچہ تعلیم و تہذیب کاسفرکائنات کے اسرارورموزکی تلاش میں زمین کے مدارسے باہربھی نکل گیا۔

 خاتم النبیینﷺنے سیاست کو’’ خلافت ‘‘کادرس دیا کہ اقتدارایک امانت ہے جواﷲ تعالی کی طرف سے انسان کو ملی ہے، خاتم النبیینﷺنے اپنی تعلیمات میں واضع کیا کہ اقتدار کوئی موروثی حق نہیں ہے، زورآوری اور طاقت و قوت کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی چیز نہیں جسے ذاتی ملکیت سمجھ لیا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس کے بارے میں سختی سے جوابدہی کی جائے گی۔ صدیاں گزر گئیں پولٹ بیورو، پارلیمانی نظام، صدارتی نظام، بنیادی جمہوریت اور نہ جانے کتنے ہی اورسیاسی نظام اس دنیا میں آئے، کتنے ہی سیاسی مفکرین نے اپنے اپنے سیاسی افکار پیش کیے ’’علم سیاسیات‘‘کے نام سے ایک علم و فن کی ایک شاخ بھی وجود میں آ گئی اور جمہوریت نامی سیاسی نظام سمیت کئی سیاسی نظاموں کو انسانیت نے آزما کر بھی دیکھ لیالیکن گھوم پھر کر چکر لگا کر اسی نقطے کے گرد ہی سب نظام گھومتے رہے کہ ’’اقتدار‘‘امانت ہے۔ کسی نے اسے عوام کی امانت کہاتو کسی نے اسے تاریخ کی امانت کہا تو کسی نے اسے آنے والی نسلوں کی امانت کہا، خاتم النبیینﷺکے عطا کردہ درس سے آگے بڑھ کر کسی نے کوئی درس پیش نہ کیا۔ خاتم النبیین ﷺنے میدان سیاست کی تمام اخلاقیات کوان کی معراج تک پہنچادیااور آپ کے مقدس وارثین نے ان سیاسی اخلاقیات کواس زمین کے سینے پر جاری وساری و نافذالعمل کر کے ان سیاسی اخلاقی معیارات کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔ اس کے بعد آج تک یہ آسمان ان سیاسی اخلاقی معیارات میں کوئی اضافہ نہ دیکھ سکا۔

 خاتم النبیینﷺنے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس دیا، صدیاں گزرجانے کے باوجود اور تہذیب و تمدن میں اتنی ترقی ہو چکنے کے باوجود کہ راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو گئی ہیں اس درس میں کوئی اضافہ آج تک نہ ہوسکا۔ خاتم النبیینﷺنے میدان جنگ کوجن اصولوں کاپابند بنایا ان میں آج تک کوئی اضافہ ممکن نہ ہوسکا، خاتم النبیینﷺنے بین الاقوامی قوانین میں برداشت و رواداری کی جو ریت ڈالی اس میں یہ آسمان آج تک کوئی بڑھوتری نہ دیکھ سکا، خاتم النبیینﷺنے خانگی زندگی میں پیارومحبت کا درس دیا اورنوجوانوں کو نکاح کا درس دیا ان سے زیادہ پاکیزہ درس آج تک کہیں سے ابھر نہ سکااورایک فرد کو تقوی کادرس دیا بھلا اس سے بہتر درس کب ممکن ہے۔ یہ سب تشریح ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے اور جو معیارات آپﷺ قائم کر گئے چونکہ ان میں اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی آمدبھی ممکن نہیں ۔

 ہماری عقل کہتی ہے کہ جس کسی نے ان معیارات اخلاق میں اضافہ کیا ہم اسے خاتم النبیین مانیں گے اور ہمارا ایمان کہتا ہے کہ اب تاقیامت ان معیارات میں اضافہ ممکن نہیں ایمان چونکہ عقل سے بڑا ہے  اس لیے ہم ایمان کو عقل پر ترجیح دیں گے۔ سب انسان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور چاہیں کہ ان تعلیمات میں کوئی اضافہ کر سکیں یا ن میں کوئی سقم ڈھونڈ کر اس کو ختم کر سکیں یا کوئی کمی تلاش کر کے اسکو پورا کرسکیں یا کسی طرح کی کوتاہی کاازالہ کر سکیں تو اسکا قطعاََ کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ حکم ربی ہے اور خدائی فیصلہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، کسی اورکاکلمہ نہیں پڑھا جائے گااور کوئی اور ’’مطاع‘‘اب تاقیامت پیدا نہیں ہوگا جس کسی نے اس طرح کے دعوے کیے بالاجماع امت وہ کذاب ہوگااور امت سے خارج سمجھا جائے گا۔ تاریخ نے ایسے لوگ دیکھے اور ممکن ہے مزید بھی نظر آنے لگیں لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کا کوئی دینی و اخلاقی مقام ہوگا۔ جو کوئی خاتم النبیینﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالے گا وہی دنیاوآخرت میں مسلمان گردانا جائے گا۔

 تاریخ اسلام میں سینکڑوں لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے ان میں خواتین بھی شامل رہیں لیکن کل امت نے اجماعی طورپر ان کاانکارکیا۔ کہیں بھی کسی عالم دین یاکسی حق پرست گروہ نے ایسے مدعیان نبوت کے بارے میں کسی طرح کے نرم گوشے کاقطعاََاظہارنہیں کیا۔ کل امت کی کل تاریخ میں تاشرق و غرب اور صحابہ کرام کے مقدس گروہ کے دورسے آج دن تک ختم نبوت پر کسی طرح کا سمجھوتہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ آپﷺ کے فوراََبعد تو کذابین کی وباپھوٹ پڑی تھی لیکن اصحاب رسولﷺکے پہاڑوں جیسے ایمان نے انہیں برداشت نہ کیااور اکثرکے ساتھ تو قتال تک کی نوبت آئی لیکن اجماع صحابہ نے اس قتال سے بھی گریزنہیں کیا۔ ان مدعیان نبوت کے حالات پڑھنے سے صاف محسوس ہوتاہے کہ حرص و لالچ کی کثرت کے باعث شیطان نے انہیں اس راستے پرڈال دیا۔ جب کہ ماضی قریب میں دورغلامی کے دوران جب کل میدان ہائے حیات میں تبلیس کے باوجود جب امت کے عقائد کوگمراہ نہ کیاجاسکاتو گورے سامراج نے عقیدہ نبوت میں نقب لگانے کی ناپاک سعی کی۔ امت نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس ناپاک سعی کے خلاف بندباندھااوراسے کفرکے کے اندھیرے غارمیں دھکیل دیااور آئندہ بھی اس طرح کی کوئی کاوش ناقابابل برداشت ہوگی تاآنکہ قیامت کاسورج طلوع ہوجائے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی نبوت اور وحی کا اختتام اور آپ ﷺ کا آخری نبی و رسول ہونا اسلام کے اُن بنیادی اور بلا شک و شبے والے مسائل اور عقائد میں سے ہے ، جن کو تمام عام و خاص ، عالم و جاہل ، شہری و دیہاتی مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی جانتے ہیں۔
    تقریباََ چودہ سو برس سے کروڑہا مسلمان اسی عقیدہ پر رہے ، لاکھوں علماء اُمت نے اس مسئلہ کو قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح کرتے ہوئے واضح فرمایا بلکہ اس کو اپنے ایمان کا مسئلہ سمجھا اور اس کی راہ میں حائل مصلحت و ضرورت کو برداشت نہیں کیا اور منکرین ختمِ نبوت کی طرف سے کھڑی کی گئی ہر دیوار کو گرا دینے میں کوتاہی اور سہل انگاری کا تصور بھی نہیں کیا اگرچہ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی۔
    تحفظ ختمِ نبوت کے لئے سب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد بالسیف کیا اور جنگ یمامہ میں سات سو صرف حفاظِ قرآن صحابہ کرامؓ نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کر کے عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کیا۔
    حضور ﷺ کی شانِ خاتمیت کے دو پہلو ہیں
    ۱ :کسی قسم کا کوئی نیا نبی پیدا نہ ہو
    ۲: پہلوں میں سے کوئی آ جائے تو وہ آپ کے احکام کے تابع ہو کر رہے۔
    آں حضرت ﷺ پر ہر طرح کی نبوت و رسالت ختم ہے ۔ آپ ﷺ بلا استثناء آخری نبی ہیں ۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔
    چونکہ آپؐ نے پیشن گوئی فرما دی تھی کہ میرے بعد دجال اور جھوٹے آئیں گے جو نبی ہونے کا دعوی کریں گے.حضرت ثوبانؓ راوی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہےکہ:

    لا تقوم الساعۃ حتی یبعث دجالون کذابون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔
    (ابو داود، ترمذی)
    ترجمہ:
    قیامت اُس وقت تک نہیں قائم ہو سکتی جب تک کہ بہت سے دجال اور جھوٹے نہ اُٹھائے جائیں_ جن میں سے ہر ایک یہ کہتا ہو کہ وہ نبی ہے ، حالانکہ میں خا تم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں____
    چنانچہ نبی آخرالزماں محمد ﷺ کے دور حیات کے آخری حصے میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جھوٹا دعوی نبوت کیا۔جھوٹے مدعیان نبوت کے دجل و کذب کا جو سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا آج مرزا غلام احمد قادیانی تک اس کا تسلسل جاری ہے_____
    ویسے تو قرآنِ پاک میں سو سے زائد آیات میں معنی و مفہوم کے اعتبار سے ختم نبوت کے مسئلہ کو ذکر فرمایا ہے لیکن یہاں صرف چند حوالوں پر اکتفا کیا جا تا ہے۔
    ۱ : ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خا تم النبین و کان اللہ بکل شی ء علیم ۃ-(الاحزاب، ۳۳:۴۰)
    ترجمہ: نہیں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن آپ اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے ختم کرنیوالے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
    ۲: الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی –(مائدہ، ۵:۳)
    ترجمہ: ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی۔
    ۳: و اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لمآ اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ و لتنصرنہ -(آل عمران، ۳:۸۱)
    ترجمہ : اور جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں پھر تمہارے پاس وہ رسول تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور ان کی مدد کرو گے۔
    ۴ :قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا- (الاعراف، ۷:۱۵۸)
    ترجمہ : آپ فرما دیں اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں
    ۵ : تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا۔(الفرقان، ۲۵:۱)
    ترجمہ : بڑی برکت والا ہے جس نے فیصلہ کرنے والا اپنے بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے ۔
    ۶: وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا – (سباء)
    ترجمہ : اور ہم نے آپ کو رسالت اس لیے دی ہے کہ اب آپ تمام لوگوں کے لیے بشارت اور نذرات دینے والے ہیں۔
    ختم نبوت احاد یث کی روشنی میں
    حضرت ابو ہریرہؓ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
    کہ میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کوئی گھر بنایا ہو اور اُس کو آراستہ پیراستہ کیا ہو مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ہو اور لو گ اُس کے پاس چکر لگاتے اور خوش ہوتے ہوں اورکہتے ہوں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی، فرمایا آں حضرت ﷺ نے کہ :
    پس وہ آخری اینٹ میں ہی ہوں اور میں ہی خا تم النبیین ہوں۔
    (بخاری ومسلم)

تبصرے بند ہیں۔