خدارا! اردو کو قربان مت کیجئے

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

        ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں چند ماہ بعد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، ملک کی تما م بڑی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں اپنی کامیابی کے لئے جنگی پیمانے پر مہم کا آغاز بھی کر دیا  ہے۔ حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی جہاں اپنی کارگزاریوں کے دم پر واپس آنے کے لئے جی جان کا زور لگا رہی ہے وہیں اپوزیشن جماعتیں بشمول بھاجپا، بی ایس پی اور کانگریس حکمراں جماعت کی نظم و نسق  کے معاملہ پر ناکامی جیسے موضوعات کو اٹھا کراپنی اپنی پالیسی کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کرچکی ہیں۔

        اسی درمیان ایک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چند مسلم سیاسی پارٹیاں اتحاد فرنٹ کے تحت الیکشن کے میدان میں کودنے کا ارادہ رکھتی ہیں، اور حیدرآباد کی سیاسی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین(ایم آئی ایم) تنہامیدان میں آنے کو تیار ہے۔ ان تمام مسلم سیاسی جماعتوں کا مرکزی موضوع مسلمانوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافی ہی ہے، انصاف کا حصول ہی ان کی سیاسی کاوشوں کا محور ہے۔ لیکن ایک بات جو کھٹکنے والی ہے وہ یہ کہ ان سیاسی جماعتوں نے ریاست اترپردیش کی دوسری سرکاری زبان، ریاست کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کی مادری زبان اردو کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ آزادی کے بعد سے اردو زبان سیکولر اور مسلم سیاسی جماعتوں کا اہم مدعا ہوا کرتی تھی آج اس سیاسی گہما گہمی میں اس کا نام لینے والا بھی کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی نے ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر جاری اپنے منشور میں اردو کی ترقی و بہتری کے لئے اقدامات کرنے کے وعدے کئے تھے، جس میں اردو میڈیم اسکولوں کا قیا م اہم وعدہ تھالیکن یہ وعدہ کب حکومت کے منصوبہ سے باہر ہوگیا احساس ہی نہیں ہوا، البتہ پرائمری اسکولوں میں اردو کے چند ہزار اساتذہ کی بحالی کی گئی، ایک قدآور شاعر کو اردو اکاڈمی کا سربراہ بنایا گیا، اردو آئی اے ایس اسٹڈی سنٹر قائم کیا گیاجس کا مقصد اردو میڈیم سے سول سروسزکی تیاری کرانا تھا جو آج ہندی اور انگریزی میڈیم میں کم وبیش تبدیل ہوچکا ہے۔ سرکاری عمارتوں کے بورڈوں سے اردو یا تو غائب کردی گئی یا پھر اسے اس ڈیزائن اور زبان میں لکھا گیا کہ اسے ہم اردو تو کم ازکم نہیں کہہ سکتے۔ یہ وہ معاملات ہیں جس کا شکوہ ہم حکومت کے افراد سے کرتے رہے ہیں اور شاید آگے بھی کرتے رہیں گے۔

        لیکن اسے کیا کہئے کہ مسلمانوں کی بہی خواہ ہونے، ان کے مسائل کو حل کرانے کے لئے مسلمانوں کے دم پر انتخابی میدان میں اترنے کو پر تول رہی مسلم سیاسی جماعتیں اردو کے حوالے سے جس سرد مہری کا شکارہیں اور اسے کوئی اہمیت دینے کو تیارنظر نہیں آرہی ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے دلچسپی رکھنے کے بجائے اپنی سیاسی تمناؤں کے حصول کے لئے زیادہ بیتاب ہیں۔ کل ہندمجلس اتحادالمسلمین کے حالت حاضرہ کے جلسے ’وشال جن سبھا‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں جسے مجلس کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی رکن لوک سبھا خطاب کررہے ہیں، جس میں لاکھوں کا ہجوم ہوتا ہے، ان جلسوں کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پنڈال میں جو طویل بینر لگائے جارہے ہیں ان میں اردو کو کوئی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ بینر اور پوسٹرخالص ہندی زبان میں ہی لگائے جارہے ہیں، راقم نے لکھنؤ کی اہم شاہراہوں او ر چوراہوں پرایم آئی ایم کے ذریعہ عید قربان پر لگائی گئی مبارکباد کی ہورڈنگ کا خود مشاہدہ کیا ہے جس میں ایک کونے میں اوپر کی جانب بہت ہی مختصر اً اردو میں پارٹی کا نام درج تھا باقی ہورڈنگ ہندی میں تھی۔ ایم آئی ایم کے قومی سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی کا تعلق حیدرآباد سے ہے جو کہ اردو زبان کا اہم مرکز ہے اور جہاں پر اردو اپنی آب و تاب کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔ اویسی اردو زبان پر قدرت رکھتے ہیں اور بہترین مقرر ہیں اور اپنے مخصوص انداز سے اپنے مخالفین کو زیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں، ان کی پارٹی یوپی میں اپنی تشہیری مہم میں جس انداز سے اردو کے تئیں اپنی بے رخی ظاہر کر رہی ہے وہ اہل اردو کی تمناؤں کا قتل ہے۔ اسی طرح سے انڈین یونین مسلم لیگ یوپی میں کوئی نئی جماعت نہیں ہے، یہ تقریباً ہر انتخابات میں اپنی موجودگی درج کراتی رہی ہے، مسلم لیگ کااردو کے ساتھ ایک پرانااور تاریخی رشتہ ہے اور اس کی تنظیمی پالیسیوں میں اردو کو اہمیت حاصل رہی ہے، مگر یہ بات بڑی عجیب ہے کہ اس پارٹی کے ضلعی سطحی پر جو اجلاس زور شور سے منعقد کئے جارہے ہیں ان کے بینر اور پوسٹروں سے اردو بالکل ہی غائب ہو چکی ہے، اترپردیش مسلم لیگ کے ریاستی صدر ڈاکٹر محمد متین خان اردو زبان کے شیدائی ہیں اور ایک عرصہ سے بنیادی سطح پر اردو کی تعلیم کے لئے کوشاں ہیں ان کی قیادت کے دوران اردو سے بے اعتنائی اس کی سابقہ پالیسیوں کی نفی کرتی ہے۔ البتہ مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل اور ڈاکٹر ایوب خاں کی پیس پارٹی اپنے اشتہارات اور پوسٹروں میں اردو کا استعمال کر رہے ہیں مگر اسے جو مقام ملنا چاہئے تھا وہ نہیں مل پارہا ہے۔

        آزادی کے فوراً بعد سے ہی اتر پردیش میں اردو کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، حکومت نے اردو کی ثقافتی اور معاشی اہمیت کو ختم کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی، اردو ذریعہ تعلیم کو ختم کردیا گیا، سرکاری معاملات میں اردو کا عمل دخل صفر ہوگیا، تعلیم کے میدان میں اردو کو درکنا ر کرنے کے سبب مسلمانوں کی کئی نسلیں اردو سے تقریباً نا بلد ہو چکی ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ اس خوبصورت زبان کو مسلمانوں نے نہ صرف گھر سے بے دخل کردیا بلکہ اب تو اسے مدارس اور مساجد سے بھی نکالنے کا عزم کیا جاچکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ اس زبان کو ریاست کے کروڑوں باشندے نہ صرف بولتے ہیں بلکہ وہ اسے سرکاری سے معاملات سے لیکر خانگی سطح پر نافذ کرنے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ مگر انہیں حکومت سے لیکر اپوزیشن جماعتوں تک، مسلم سیاسی پارٹیوں سے لیکر مذہبی قائدین تک کوئی بھی ایسا نظر نہیں آرہا ہے جو اردو کے نفاذ کے سلسلے میں سنجیدہ ہو۔

        اس وقت جومسلم سیاسی پارٹیاں نئے انداز سے سیاسی اکھاڑے میں کودنے کی تیاری ہیں، دیگر طبقات کے افراد کو اپنے ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی لائق تحسین ہے، مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی ان کا اہم مدعا ہے، لیکن ا نہیں چا ہئے کہ نا انصافی کے ہر پہلو پر غور کریں، اردو زبا ن کو ختم کرنے کی جو سازشیں حکومت کے ایوانوں میں رچی گئیں اسے بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ اسے انتخابی موضوع بنائیں، اس خوبصورت زبان کو اپنی انتخابی مہم میں جائز حق دیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہیں تو کمزور طبقات اور مسلمانوں کی ہمدردی میں بولے جانے والے جملوں کی حیثیت صر ف انتخابی وعدوں سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ اردو جو آزادی کے بعد اپنے اوپر پڑنے والے مصائب کی وجہ سے بستر علالت پر تھی، مسجدوں اور مدارس  سے نکالے جانے کی وجہ سے قوما کی حالت میں پہنچ چکی ہے۔ آج اسے ایسے معالجین کی ضرورت ہے جو اسے اس حالت سے باہر نکال سکے، اس کی نگاہیں اپنے مسیحاؤں کی طر ف لگی ہوئی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔