خدمت خلق کے لئے پیدا کیا انسان کو!

سید آصف ندوی

انسان ایک سماجی و معاشرتی مخلوق ہے، وہ تمدن اور Civilization کے بغیر اس دنیا میں زندگی نہیں گذارسکتا، اس کے تمام تر مسائل اور ان کا حل ، اس کے دکھ درد اور ان کا مرہم ، اس کے مصائب اور ان کا مداویٰ، اس کی ضروریات اور ان کی تکمیل صرف اور صرف سماج اور معاشرے میں موجود دوسرے انسانوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔  ہزار صلاحیتوں اور مال و دولت کی بے پناہ فراوانی کے باوجود بھی اگر کوئی شخص دنیا و مافیہا سے صرف نظر کرکے خلوت نشیں ہوجائے،  یا اپنے خول میں بند ہو کر زندگی گذارتا رہے،  تو عام طور پر ایسے شخص کو کوئی مخلص ہم نواں و سچا رازداں نہیں ملتا،  اور اگر کبھی ایسا شخص سفاک زمانے کی بے رحم ستم ظریفی کا شکار ہوجائے،  یا بحر حوادث میں ڈوبنے لگ جائے  تواس کو کنارے تک پہنچنے کے لئے کشتیاں نہیں ملتیں ،  اور اگر مل بھی جائیں تو بادباں نہیں کھلتے۔  لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ذات کی فکر ہی کی طرح اور اپنے مسائل وضروریات کے حل ہی کی طرح معاشرہ اور سماج میں موجود دوسرے انسانوں کی ضروریات و مسائل کو حل کرنے کی بھی فکر کرے،  معاشرے میں موجود  محتاجوں وناداروں اور تنگدستوں و تہی دستوں کی ہمدردی و خیر خواہی میں اپنا مال،آرام اور وقت صرف کرکے ان کی راحت رسانی کاکام کرے ،  یہی وہ کام ہے جس کو خدمت خلق کہا جاتا ہے،  اور اس طرح کے رفاہی کاموں کی اہمیت و افادیت کو دنیا کے تمام مذاہب و مکاتب فکرکے نزدیک اور ہر وقت اورہر زمانہ میں تسلیم کیا گیا ہے ۔  چنانچہ رسالت مآب  ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل بھی زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی فراخدلی و مہمان نوازی کے واقعات آج بھی  معروف و زبان زدِ عام ہے ۔

 اس وقت اسلام دشمن میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی من موہنی تصویر کو جن جھوٹے و غلط پروپیگنڈوں کے ذریعے مسخ کرنے کی سعیٔ نامشکور کر رہا ہے ان ہی میں ایک یہ کذب بیانی بھی ہے کہ اسلام ایک ایسامذہب ہے جس میں بین الانسانی فلاح وبہبود، خدمت انسانیت اور رفاہ عام کا کوئی جامع اور مستقل نظام موجود نہیں ہے۔  جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔  اسلام ایک ایسا دینِ فطرت ہے جس میں بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کے بعد اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ اور بہت تاکید کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے تووہ حقوق العباد ہے۔  اس نے خدمت خلق اور فلاح وبہبود کے کاموں کی نہ صر ف تحسین کی بلکہ اس کو عبادت کا درجہ دیا،  اور معاشرے میں موجو د  محتاج، نادار، تنگدست، تہی دست، یتیم ویسیر ، مسافرو غریب الوطن اور مفلوک الحال افراد کی دلجوئی اور دادرسی کو ایک مسلمان کی رحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیا،  اور یہ تو ایک واضح اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنے حلقہ بگوشوں کی باطنی کوتاہیوں کے ازالہ کے لئے سماج میں موجود  ناداروں ،  محتاجوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کو کفارہ کی حیثیت سے پیش کیا۔

وہ دین جس کی اساس اور بنیاد عقیدہ توحید پر قائم ہے اور جو خدا ئے وحدہ لاشریک لہ کی وحدانیت  میں اتنا حساس ہے کہ اس نے ہر اس عمل کو ناپسند و ناجائز قرار دیا ہے جس سے ذرہ برابر بھی عقیدۂ توحید پر آنچ آتی ہو، اور جو پوری وضاحت اور تاکید کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کی کوئی اولاد نہیں ، اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا، اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا (قل ہو اللہ احد، اللہ الصمد، لم یلد ولم یؤلد ولم یکن لہ کفؤا احد)،  وہی دین اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے  (اَلْخَلْقُ کُلُّہُمْ عَیَالُ اللّٰہ ، فَاَحَبُّہُمْ إلي اللّٰہِ اَنْفَعُہُمْ لِعَیَالِہِ) ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا کے نزدیک سب سے محبوب ترین شخص وہ ہے جو اس کے کنبے کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع رساں ہو۔  نیز فرمایا خیر الناس من ینفع الناس سب سے  بہتر انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا                        کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا         خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

 خود رسالت مآب  ﷺ کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی،  نبوت سے قبل آپ  ﷺ سماج اور معاشرہ میں خدمت خلق ،  محتاجوں ومسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے،  اور نبوت سے سرفرز کئے جانے کے بعد تو پوری انسانیت اور تمام نوع انسانی جسطرح آپ کے احسانات کے زیر بار ہے اس کو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم دو تین مثالیں بطور مشتے نمونہ از خروارے پیش کرتا ہوں ۔

 آپ کی خدمت اقدس میں مدینہ منورہ کی لونڈیاں آکر کہتیں یا رسول اللہ ہمار ا یہ کام کردیجئے وہ کام کردیجئے، اور آپ  ﷺ اسی وقت کھڑے ہوجاتے اوروہ کام کرتے۔  ایک دن آپ نماز کے لئے کھڑے ہوچکے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا  ’’ میرا کچھ کام رہ گیا ہے ، ایسا نہ ہو کہ میں وہ کام بھول جاؤں ،  اسلئے آپ پہلے میرا وہ کام کردیجئے‘‘  رسالت مآب ﷺ نماز چھوڑ کراس دیہاتی کے ساتھ مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور اس کے کام یا ضرورت کو پورا کرکے پھر نماز ادا فرمائی ۔

 ایک مرتبہ ملک حبش سے شہنشاہ نجاشی کے کچھ مہمان دربار نبوی میں آئے تو رسالت مآب  ﷺ بذاتِ خود ان کی خاطر و دلجوئی اور مہمان نوازی میں لگ گئے ، جاں نثار صحابۂ کرام کہنے لگے ، یا رسول اللہ ہم خدام خدمت کے لئے حاضر ہیں آپ زحمت نہ فرمائیں  لیکن آپ ﷺ نے  ارشاد فرمایا :  ان لوگوں نے میرے ساتھیوں (مہاجرینِ حبشہ) کی  خدمت کی ہیں اس لئے ان کی خدمت میں خود کروں گا۔

 صحابہ کرام کی زندگیاں بھی نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کا پرتو اور آئینہ تھیں ، ہر وہ کام جس کو رسالت مآب  ﷺ نے کیا یا جو اعمال آپ کو پسند تھے ، صحابہ کرام کے نزدیک وہ کام اور وہ اعمال ان کی اپنی زندگیوں سے بھی زیادہ عزیز ہوا کرتے تھے ، چنانچہ خدمت خلق کا جذبہ بھی ان کی زندگیوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔

حضرت عمر فاروق کا معمول مبارک تھا کہ آپ راتوں کی خاموشی میں لباس بدل کر(تاکہ پہچانے نہ جائیں )مدینہ کا گشت فرمایا کرتے تھے ،  ایک مرتبہ آپ اسی طرح گشت فرمارہے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ ایک عورت چولہا جلائے ہانڈی پکارہی ہے اور اس کے قریب بیٹھے اس کے بچے رو رہے ہیں ،  آپ نے اس عورت سے پوچھا کیا بات ہے یہ بچے کیوں اس قدر روئے جارہے ہیں ؟ اس عورت نے جواب دیا ، کیا کہوں ، کئی دنوں سے ان بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے ،  بھوک کی شدت سے بے حال ہو کر روئے جارہے ہیں اور میں  نے جلتے چولہے پر ہانڈی میں پانی چڑہادیا ہے ، اور انہیں بہلا رہی ہوں ، تاکہ یہ کسی طرح بہل کر سوجائیں ،  سنا ہے عمر بن خطاب امیر المومنین ہے لیکن وہ بھی تو ہماری کوئی خبر گیری نہیں کرتا،  اس کا اور ہمارا فیصلہ تو اللہ کے ہاں ہوگا۔

 حضرت عمر نے فرمایا :  اللہ کی بندی عمر کو تمہارے حال کی کیا خبر؟ کیا تم نے عمر کو اپنے حالات کی اطلاع دی؟  اس عورت نے کہا:  سبحان اللہ! ہمیں عمر کو اپنے حالات سے باخبر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، اللہ نے اس کو ہمارا ذمہ دار بنایا ہے ، یہ اس کا کام ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کی خود خبر گیری رکھے۔

 عورت کی یہ باتیں سن کر عمر فاروق کانپ اٹھے ، اسی وقت بیت المال کی طرف نکل کھڑے ہوئے ، بیت المال کا دروازہ کھلوایا ، اور کھانے پکانے کی کچھ چیزیں نکال کر اپنی پشت مبارک پر لادا اور سیدھے اس عورت کے مکان کی طرف چل دیئے ۔ آپ کے غلام اسلم نے کہا : امیر المومنین آپ تکلیف نہ فرمائیں ، باربرداری کے لئے یہ غلام حاضر ہے ،  آپ نے فرمایا : آج تو تم میرا بوجھ اٹھا لوگے  لیکن کل قیامت کے دن کون میرا  بوجھ اٹھائے گا؟  اور اسی طرح  آپ  متاع خورد ونوش سے لدے پھندے اس عورت کے مکان پر پہنچے، عورت کو گوندھنے کے لئے آٹا دیا  اور خود چولہے میں پھونکیں مار کر اس کو جلانے لگے،  دھواں آنکھوں میں بھر بھر جاتا مگر آپ آگ دہکاتے رہے۔

  آخر کھانا تیار ہوگیا ، حضرت عمر نے اپنے ہاتھوں سے ان بچوں کو کھلایا، بچوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا ، اور پھر آسودگی کے بعد مارے خوشی کے اچھلنے کودنے لگے، حضرت عمر اس عورت کے آئندہ کے لئے کچھ انتظام فرما کرجب رخصت ہونے لگے تو اس عورت نے آپ کوخوب  دعائیں دیں  اور فرط مسرت سے یہ کہنے لگی :  سٖچ کہتی ہوں ، امیر المومنین بننے کے قابل تو تم ہو، کوئی عمر نہیں ۔۔۔

 حضرت عمر فاروق کے اس واقعہ کو میں نے محض ایک نمونے کے طور پرپیش کیا ہے ورنہ صحابہ کرام کی خدمت خلق اور رفاہی کاموں کا تو ایک لا متناہی سلسلہ ہے ،  حضرت ابوبکر صدیق کا تلاش کر کر کے غلاموں کو آزاد کرنا، رات کی تاریکی میں بوڑھوں اور معذوروں کے کام کاج کردینا،  حضرت عثمان کا اس یہودی سے جو پانی فروخت کیا کرتا تھا کنواں خرید کر مدینہ کے مسلم و غیر مسلم سب کے لئے وقف کردینا،  قحط کے زمانہ میں اپنے چالیس اونٹوں کا غلہ مستحقوں میں تقسیم کرادینا  اور اسی طرح دیگر تمام صحابہ کرام کی کتاب زندگی کے صفحات  خدمت خلق و رفاہی کاموں کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں ۔

 اگر ہم خدمت خلق اور بین الانسانی فلاح وبہبود کے متعلق آپ  ﷺ کی تعلیمات  پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اسوۂ حسنہ کے ساتھ ساتھ آپ  ﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ،  میثاقِ مدینہ اور خطبۂ حجۃ الوداع دنیا میں ایسی مثالیں ہیں جوحقوق انسانی کی نہایت ہی جامع ترین، ہمہ گیر اور عالمی و دائمی منشور کی حیثیت رکھتیں ہیں اور جو انسانیت کی بقا، صلح و امن اور محبت وبھائی چارے کی ضامن ہیں اور جن کی مثال دنیا کا کوئی مذہب یا مکتب فکر ، مفکرینِ عالم  اور ریفارمرس  نہ ماضی میں پیش کرسکے ہیں اور نہ آئندہ پیش کرسکیں گے۔  اور خطبۂ حجۃ الوداع اور میثاق مدینہ  میں رسالت مآب  ﷺ کی طرف سے پیش کی گئی یہی وہ تعلیمات تھیں جن سے متأثر ہو کرایک دنیا کی دنیا حلقہ بگوش اسلام ہوئی ۔

 آج  موجودہ حالات میں اس بات کی بہت سخت ضرورت ہے کہ و ہ  تمام افراد، مکاتب فکر، جماعتیں اور تنظیمیں جو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حوالے سے  مذہبی،  دعوتی، تبلیغی اور تعلیمی وغیرہ خدمات انجام دے رہے ہیں ،  وہ لوگ  خدمت خلق اور رفاہی میدان عمل میں رسالت مآب  ﷺ کی سنت مبارکہ اور صحابہ کرام کے طریقوں پر عمل پیرا ہو کر حالات کا شکار اور مسائل سے جوجھ رہی انسانیت کے دکھ درد کا مداویٰ کرنے ، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مصائب و مسائل کو حل کرنے کی بھی کوششیں کریں ۔  اگر ایسا ہوا تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد اور بڑی تیز رفتاری کے ساتھ حالات اسلام کے حق میں ہوتے چلے جائیں گے۔

خدمت خلق  کے لئے  پید ا  کیا  انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔