خسرہ روبیلا سے بچائو صحت کا ٹیکہ لگواو

سردی کے بعد جوں ہی گرمی شروع ہوتی ہے، کئی بیماریوں کے وائرس ہوش میں آکر ہوا میں گردش کرنے لگتے ہیں ۔ ان میں خسرہ روبیلا کا وائرس بھی ہے۔ یہ وائرس دنیا کیلئے اب بھی چیلنج ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جو بیکٹیریا، وائرس سے ہونے والی بیماریوں سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں وہاں بھی خسرہ روبیلا کے معاملے سامنے آئے ہیں ۔ پانچ سال کے دوران بچوں کی اموات کی ایک وجہ خسرہ روبیلا بھی ہے۔ یہ بیماری کئی مرتبہ مہا ماری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ عالمی سطح پر 2015 میں خسرہ روبیلا سے تقریباً 134200 جانیں گئی تھیں ۔ ان میں سے 49200 بچوں کے صرف بھارت میں مرنے کا تخمینہ ہے یعنی 36 فیصد۔ یہ اس وقت ہے جبکہ خسرہ کا ٹیکہ موجود ہے اور وہ معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل ہے۔ بچوں کے خسرہ کے دو ٹیکے لگائے جاتے ہیں ۔ ایک نو ماہ پر اور دوسرا 16 سے 24 ماہ کے دوران۔ سرکار کی جانب سے خسرہ کا ٹیکہ مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ سرکاری اسپتال، آنگن واڑی مراکز اور سرکاری ڈسپنسریوں میں مہیا رہتا ہے۔

خسرہ کے وائرس کے شہری علاقوں کے مقابلہ کم صفائی والے علاقے جیسے جھگی جھونپڑی، غیر منظم  بستیوں ، کچی کالونیوں اور نئی آبادیوں میں پھیلنے کا اندیشہ زیادہ  رہتا ہے۔ خسرہ ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماری ہے۔ اس کے وائرس سے سماج کو محفوظ رکھنے کیلئے سماج کے ہر طبقہ کو ٹیکہ لینے کی ضرورت ہے۔ 79 فیصد دنیا 2000 سے 2015 کے دوران ویکسین کی وجہ سے خسرہ روبیلا سے ہونے والی اموات سے محفوظ رہی ہے۔ جبکہ بھارت میں خسرہ کے 2015 میں تقریباً 27,68,032معاملے تھے جن میں سے 49200 موت کے شکار ہوئے۔ خسرہ کو لے کر کئی طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس سے بچائو کیلئے لوگ دیسی نسخے اور ٹوٹکے اپناتے ہیں ۔ جبکہ ڈاکٹروں کا یہ ماننا ہے کہ خسرہ سے بچائو ٹیکہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ مرض ہونے کے بعد اس کی کوئی دوا نہیں ہے صرف احتیاط برتنی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا ٹیکہ لگا ہو تو پھر یہ وائرس جو ہوا میں گھومتا رہتا ہے اثر نہیں کرتا۔ خسرہ کے دو ٹیکے پوری زندگی کیلئے کافی ہیں ۔ آنکھوں کا لال ہونا، کھانسی آنا اور ناک سے پانی ٹپکنا اس مرض کی شروعات کو ظاہر کرتا ہے۔ جسم پر لال دانے ابھرآتے ہیں اور مریض کو بخار چڑھ جاتا ہے۔80 فیصد مریض15 سال سے کم عمر کے پائے گئے، صرف 20 فیصد اس سے زیادہ عمر کے تھے۔ روبیلا اور کنپیڈا MUMPS میں بھی کچھ اسی طرح کی نشانیاں نظرآتی ہیں ۔ روبیلا اگر کسی حاملہ عورت کو ہوجائے تو اس سے عورت کو تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا لیکن اس سے پیدا ہونے والا بچہ اندھا، کمزور، دماغی و جسمانی طورپر مفلوج یا کسی کمی کا شکار ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر پردیپ ہلدر ڈپٹی کمشنر وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود کے مطابق حاملہ عورتوں کا روبیلا سے متاثر ہونا بچوں کیلئے زیادہ خطرناک ہے۔ انہوں نے بتایاکہ 2010 میں عالمی سطح پر تقریباً 103000 بچے پیدائشی طورپر روبیلا سنڈروم  سے متاثر پائے گئے۔ ان میں سے قریب

0 4700 معاملے یعنی 46 فیصد جنوب، مشرق ایشیاء کے تھے۔ جن میں سے تیس ہزار صرف بھارت میں ہونے کا تخمینہ تھا۔ انہوں نے بتایاکہ ایسے بچے بھی روبیلا سے متاثر پائے گئے جن کو خسرہ کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے کئی سالوں سے اس طرح کے واقعات برابر سامنے آرہے ہیں ۔ اس کے پیش نظر سرکار نے اس مہلک بیماری سے نپٹنے کیلئے خسرہ روبیلا (ایم آر) ٹیکہ کاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ملک میں 95فیصد ٹیکہ کاری سرکار کے ذریعہ کی جاتی ہے صرف 5 فیصد بچے ایسے ہیں جن کو ان کے والدین پرائیویٹ ڈاکٹروں سے ٹیکے لگواتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ واحد ٹیکہ کاری مہم پہلے مرحلے میں کرناٹک، تمل ناڈو، پوڈو چیری، گوا اور لکشدیپ سے شروع کی گئی ہے۔ ایم آر ٹیکہ 5 فروری کو باضابطہ بنگلور کرناٹک میں لانچ کیاگیا۔ یہ ٹیکہ ہر بچے کو دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کی شروعات سرکاری، غیر سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں میں پڑھ رہے بچوں سے کی گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خسرہ روبیلا سے نجات پانے کیلئے 9 ماہ سے 15 برس تک کے سو فیصد بچوں کو ٹیکے دینے ہوں گے۔ ان پانچ ریاستوں میں 3.6 کروڑ بچوں کو ایم آر ٹیکہ دیا جانا ہے۔ جبکہ پورے ملک میں تقریباً 41 کروڑ بچوں تک اس ٹیکے کو پہنچانا ہے۔ مہم کو 28 دنوں میں پورا کرنے کا ٹارگیٹ ہے۔ اب تک 90 لاکھ اہداف کو ٹیکہ دیا جاچکا ہے۔

ایم آر ٹکہ مہم مرحلہ وار پورے ملک میں چلائی جائے گی۔ یہ ٹیکہ 9 سے 12 اور 16 سے 24 مہینے میں دی جانے والی خسرہ کی دو خوراک کی جگہ ٹیکہ کاری میں متعارف کرایا جائے گا۔ اس ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری پر کولڈچین میں رکھا جاتا ہے۔ اسٹور سے نکلنے کے چار گھنٹوں کے اندر اس کو استعمال کیاجاسکتا ہے۔ چار گھنٹوں سے زیادہ وقت ہونے پر ویکسین کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ڈبلیو ایچ او کے ممبر161 ممالک میں سے 149 ممالک نے ایم آر ویکسین کو معمول کی ٹیکہ کاری مہم کا حصہ بنایا ہے۔ وزارت صحت ،ڈبلیو ایچ اور  یونیسیف کی تکنیکی مدد سے جس ٹیکے کو مفت فراہم کررہی ہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹراس کیلئے 400سے 900 روپے چارج کرتے ہیں ۔ ٹیکہ کاری سے جڑے ڈاکٹروں کے مطابق خسرہ روبیلا ویکسین پچھلے 40 برسوں سے دستیاب اور پوری طرح محفوظ ہے۔ اس کے کسی طرح کے سائڈ افیکٹ نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر ہلدر کے مطابق ہر سال ہزاروں بچے، بچیاں خسرہ روبیلا کے خطرناک جراثیم کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں ۔یہ دونوں بیماریاں بہت ہی خطرناک ہیں ۔ اس سے بچانے اور بچوں کی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے اس مہم کو تیزی کے ساتھ چلایا جارہا ہے تاکہ سو فیصد بچوں تک اس ٹیکہ کی رسائی ہوسکے۔

خسرہ روبیلا ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے کیلئے پبلک ہیلتھ سینٹر، کمیونٹی ہیلتھ سینٹر، اسپتال، اے این ایم، آشاورکر اور آنگن واڑی کارکنوں کی مدد لی جارہی ہے۔ ایم آر ٹیکہ کاری کا چیلنج پولیو سے بڑا ہے۔ کیوں کہ پولیو میں گھر گھر جاکر ڈراپ پلائی گئی تھی لیکن ایم آر ٹیکہ سوئی کے ذریعہ دیا جانا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی آشا کارکنوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ انیتا مہا نگر بنگلور، شکنتلا ہوسکوٹہ بنگلور اور میری بٹیا ہلسور بنگلور کا نام خاص طورپر لیا جا سکتا ہے۔ ان سبھی کو خسرہ روبیلا کے بارے میں مکمل معلومات تھی۔ انہوں نے بتایاکہ ہر ایک آشا ایک گائوں یا ایک ہزار خاندانوں کے درمیان کام کرتی ہے۔ ایک ہی گائوں میں لوگوں کے ساتھ 10 سے 15سالوں سے کام کرنے کی وجہ سے سب انہیں جانتے ہیں اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ وہ عورتوں اور بچوں کیلئے کام کرکے فخر محسوس کرتی ہیں ۔ میری کا کہنا تھاکہ یہ کام ہمارے لئے نیانہیں ہے۔ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ جس بچے کو خسرہ روبیلا کا ٹیکہ دیا جائے اسے 30 منٹ سے ایک گھنٹہ تک نگرانی میں رکھا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ روبیلا اتنی مہلک بیماری ہے کہ اگر کسی حاملہ خاتون کو ہوجائے تو اس پر بھلے ہی کوئی اثر نہ پڑے لیکن اس کے بچے کو آنکھ، کان، دل یا دماغ کی پریشانی ہوسکتی ہے۔

 ٹیکہ لانچ کے موقع پر موراجی ڈیسائی ریزی ڈنشیل اسکول نارتھ بنگلور کے بچوں سے بھی بات کرنے کا موقع ملا۔ راگھویندرا کلاس آٹھ، آشا کلاس نو، یشونت کلاس نو، وجے کمار کلاس آٹھ نے بتایاکہ ان کے اسکول میں خسرہ روبیلا کے بارے میں انہیں بتایا گیا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ انجکشن کے ذریعہ اس بیماری کا ٹیکہ دیا جائے گا۔ یہ معلوم کرنے پر کہ انہیں انجکشن سے ڈر نہیں لگتا، یشونت نے کہاکہ صحت مند رہنے کیلئے تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑے تو ہم اٹھانے کو تیار ہیں ۔ آشا ورکروں کے جوش، بچوں کے تجسس، اے این ایم کی سنجیدگی اورآنگن واڑی کارکنوں کی محنت کو دیکھتے ہوئے مرکزی کابینی وزیراننت کمار، وزیرصحت بھگنا سنگھ کلستے اور سابق وزیراعلیٰ سدانند گوڈا نے اس مہم کے کامیاب ہونے کی امید ظاہر کی۔

حکومت کرناٹک میں چیف سکریٹری ایس سی کنٹیا نے کہاکہ 2020 تک ملک کو خسرہ روبیلا سے نجات دلانی ہے۔ اس مرحلہ وار مہم کے مکمل ہونے پر ایم آر ٹیکے کو معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ابھی بھی ہر سال بھارت میں 30 سے 32 ہزار اموات  خسرہ روبیلا سے ہورہی ہیں ۔ ان کو روکنے کیلئے والدین، کمیونٹی لیڈرس فرنٹ لائن صحت کارکنوں ،مذہبی شخصیات اور نگراں حضرات کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا تبھی آخری بچے تک ویکسین کو پہنچایا جاسکے گا۔

ہر مہم کی طرح اس مہم کے بارے میں بھی افواہیں پھیلانے کا کام جاری ہے۔ سابقہ تجربوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ افواہیں پھیلانے والے کسی خاص طبقہ کو نشانہ بناکر اسے پیچھے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس جب مثبت نتائج سامنے آنے لگتے ہیں تو ان کی مخالفت حمایت میں بدل جاتی ہے۔ اس مہم کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ افواہوں پر دھیان نہ دے کر ڈاکٹروں کی صلاح لی جائے۔ خسرہ روبیلا سے اگر دیش کو محفوظ رکھنا ہے تو ٹیکہ لگوانا ہے۔ علاج سے بہتر ہے بچائو۔ اس کیلئے سماج کے ہر طبقہ کو سنجیدگی کے ساتھ  پوری توجہ دینی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔