ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

  آج سے سولہ سال قبل صوبۂ جھارکھنڈ کی تشکیل ہوئی تھی ۔ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود  ہمیشہ محرومی اور عدم توجہ کا شکار رہا ۔ہندوستان کے کل معدنی ذخائر کا 40 ؍ فیصد صرف جھارکھنڈ میں پایا جاتا ہے ؛اگر یہ کہوں کہ معدنی املاک کے معاملے میں جھارکھنڈ دنیا کا سب سے عطائی ریاست ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔یہاں کوئلے کا وافر ذخیرہ ہے ،ملک کا 27؍ فیصد کوئلہ یہاں پایا جاتا ہے ،ضلع دھنباد کو کوئلے کا دار الحکومت کہاجاتا ہے ۔اس کے علاوہ چار لاکھ ٹن آئرن ،باکسائٹ ،گولڈ،ڈائمنڈ،کرومائٹ،تانبا،لائم اسٹون اور گریفائٹ وغیرہ کی کانیں بھی ہیں لیکن افسوس صد افسوس۱۶ سالہ طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ریاست کے جو حالات قبل از وجود تھے آج بھی وہی ہیں یعنی معاشی ،اقتصادی ،تعلیمی اور سماجی پسماندگی ۔اورتشکیل کے بنیادی اسباب یہی تھے۔

     28؍دسمبر 2014 کو جب رگھوورداس نے وزیر اعلی ٰ کا حلف لیا تھا تو امید تھی کہ جھارکھنڈ کی قسمت بدلے گی ،اس کے اچھے دن آئیں گے لیکن ڈھا ک کے وہی تین پتے ،تاہم گزشتہ 16۔17فروری کو مومینٹم جھارکھنڈ گلوبل انوسٹرس سمٹ منعقدکرکے ایک امید جگائی ہے ۔اس پروگرام میں آسٹریلیا ،چیک جمہوریہ ،تیونس ،سعودی عرب ،روس ،جنوبی کوریا ،سنگاپور کے علاوہ 26 ممالک کے نمائندوں سمیت ملک کے رتن ٹاٹا،برلا کے کمارمنگلم،گوتم اڈانی ،فوربس مارشل کے نوشاد فوربس،ہیرو موٹو کاپوریشن کے پون منجھلا ،ایسار گروپ کے ششی روئیا ،ہنڈالکو انڈسٹری کے ستیش پائی،جندل اسٹیل کے نوین جندل اور دیگر چھوٹے بڑے سرمایہ کار و صنعتکار شامل ہوئے ،سبھوں نے جھارکھنڈ کو سرمایہ کاری کے لئے زرخیز زمین قرا ردیا اور یہاں سرمایہ کاری و صنعتکاری کی خواہش ظاہر کی ۔

جنوبی کوریا نے ای ۔کار پروڈکٹ ،آسٹریلیا نے زراعت اور مائننگ،چیک جمہوریہ نے ہیوی انڈسٹری ،تعلیم اور ٹیکسٹائل ،روس نے اسمارٹ سیٹی ،الیکٹرانک اور ریلوے ویگن ،سینگاپور نے ہسپتال اور کنونشن سینٹرکی تعمیر ،سعودی عرب نے آئی ٹی ،سولر پاور اور تیونس نے رانچی دھنباد جمشید پور کے درمیان مجوزہ گولڈن ٹرینگل میں سرمایہ کاری کی دلچسپی دکھائی جبکہ ملکی صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں میں ممبئی سے آئے کارنیول گروپ کے اجیت چندرشیکھر ن75 اسکرین ملٹی پلیکس مختلف اضلاع میں کھولنے ،میٹرکس کے گوتم نائر نے ٹیکسٹائل فیکٹری لگانے ،لالو جی اینڈ سنس نے نیچوروپیتھی بنانے،لیبرٹی کے سی او اودھیش کمار گپتا نے جوتا فیکٹری کھولنے کی خواہش ظاہر کی ۔اس پروگرام میں 209 کمپنیوں سے  یہ معاہدہ ہوا ہے کہ وہ9 شعبوں میں لگ بھگ 303987 کروڑ انویسٹ کریں گی۔سب سے زیادہ محکمہ صحت ،کان کنی اور جیولوجی کے تحت 121 ایم او یو ہوئے ،اس میں 210505 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ہوگی ،محکمہ توانائی  میں بھی 37150 کروڑروپئے کی سرمایہ کاری ہوگی،۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگر سارے معاہدے تکمیل تک پہونچے اور زمینی سطح پر کام ہوا تو اس سے چار لاکھ لوگوں کو ملازمت ملے گی ۔شرکا  ٔکا کہنا تھا کہ اس کے لئے جھارکھنڈ کے لوگوں کو ہی تربیت دی جائے گی اور ان ہی کو نوکری دی جائے گی ،یہاں کے لوگ محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں ۔یقینا ٰمومینٹم جھارکھنڈ کو ہم  ایک خوش آئند قدم کہہ سکتے ہیں ،اس سے ریاست ترقی کی طرف گامزن ہوگی لیکن راجستھان کی طرح یہاں بھی ناکام ہوا  تو پھرجھارکھنڈ ایک بیمارو ریاست ہی رہے گا ۔یاد رکھنے والی بات یہ ہے اس سے قبل بھی  اسی بی جے پی کی حکومت میں 26 سمجھوتے ہوئے تھے لیکن ان میں سے ایک پر بھی عمل در آمدنہیں ہوا تھا ۔

 جھارکھنڈ میں ترقی کے بے پناہ امکانات ہیں ،سرمایہ کاری کا بہترین ماحول ہے ،یہاں ریفارم ،پرفارم اور ٹرانسفرم کے تمام خصوصیات موجود ہیں ،آنے والے ایام میں ہندوستان کا ایک ملٹی ٹرمینل بن سکتا ہے ،قدرت نے  اس ریاست کو  بے بہادولت سے نوازاہے تاہم ضرورت اس دولت کو درستگی کے ساتھ استعمال کرنے کا ہے اور یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے کیونکہ شاہ سے لے کر گدا تک جن جن کو بھی جو خیراتی عہدہ ملا  سبھوں نے جھارکھنڈ کو صرف لوٹنے ،گھسوٹنے اور نوچنے کا کام کیا ہے ۔ گروجی (شیبو سورین ) نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ،مدھو کوڑا نے چھ ماہ میں آتنک مچادیا اور فقیر سے شاہ بن گئے ،بابو لال مرانڈی ،ارجن منڈا اور ہیمنت سورین کے سروں پر بھی گناہوں کی گٹھریاں ہیں ۔

 جھارکھنڈ کے برانڈ ایمبسڈر اور ٹیم انڈیا کے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بھی مومینٹم جھارکھنڈ گلوبل انوسٹرس سمٹ میں شرکت کی اور انہوں  نے ریاست کی عدم ترقی کا سبب سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا ،کچھ حد تک ان کی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر مکمل نہیں ، کیونکہ بی جے پی نے اب تک گیارہ سال حکومت کی ہے ،پچھلے زائد از دو سال رگھوور داس کی مستحکم سرکار ہے مگرکچھوے کی چال سے چل رہی ہے ۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ بھی عوام کو لولی پوپ دیتا رہاہے،جس کی وجہ سے گزشتہ اسمبلی الیکشن  میں منہ کی کھانی پڑی ۔اب وزیر اعلیٰ رگھوور داس نے کہاہے کہ ہم سرمایہ کاروں کو ہر ممکن مدد کریں گے ،سرمایہ کاری کو رفتار دینے کے لئے زمین حوالگی پالیسی میں بھی تبدیلی کی ہے ۔

ابھی تک محکمۂ اراضی کسی کو بھی زمین دینے پر اس کی ملکیت اپنے پاس ہی رکھتا تھا ،اور معینہ وقت کے اندر درست استعمال نہ ہونے کی صورت میں واپس لے لیتا تھا ،لیز پر زمین دینے سے ایک مشت میں قیمت بھی وصول کرتا تھا لیکن نئے نظام کے تحت حصول اراضی محکمہ لینڈ بینک کی زمین ریاستی ترقیاتی اتھارٹی کو فراہم کرے گااور اس کی اجازت سے ہی زمین الاٹ کرے گا ،اتھارٹی اپنا فنڈ بنائے گا اور پانچ سال حصول اراضی محکمہ کو ادا کرے گا ۔اس نئے نظام سے ایک نقصان یہ ہوگا کہ صنعتکار مختص زمین کو لیز پر بھی دے سکے گا نیز زمین کا صحیح استعمال نہ ہونے پر واپس بھی نہیں لی جاسکتی ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ اگر یہاں کی 41 کانوں کی نیلامی ہوگی تو اس سے ایک لاکھ کروڑ کا ٹیکس ملے گا جس سے جھارکھنڈ میں نمایاں تبدیلی آئے گی اورحکومت ہند سال آئندہ ملک کے 280 کانوں کی نیلامی کرے گی جس میں 30 جھارکھنڈ کی ہیں ۔

 مومینٹم جھارکھنڈ کے ذریعے رگھوور داس سرکار نے جھارکھنڈ کی ترقی کو رفتار دینے کی جو کوشش کی ہے یقینا یہ لائق ستائش ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنی والی بات ہے کہ اسی ریاست میں ساڑھے چار سو صنعتیں بند پڑی ہیں ؛ٹاٹا جیسے اہم شہر میں ٹایو کمپنی بند ہے ،دھنباد میں یوریا اور کھاد کی فیکٹریاں اور دیگر جگہوں میں بھی اسپات ،باکسائٹ وغیرہ کی نفع بخش فیکٹریاں بند پڑی ہیں ،حکومت کو چاہئے کہ پہلے ان کو بھی کھولنے کی سنجیدہ کوشش کرے تب ہی ریاست کی ترقی ممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں۔