آزادیء نسواں کا فریب 

آج جس موضوع پر لکھنےکی جسا رت کر رہا ہوں وہ ہے آزادیء نسواں کا فریب کسطرح بنت حوا کو تعلیم نسواں کےنام پر دین اسلام کو عورت کی ترقی کے راہ میں رکاوٹ کاجھانسا دیکر انھیں گھروں سے نکال کر سیلزگرل سے لےکرایئر  ہوسٹس  تک پہنچادیا اور بنت حوااس بات پر فخرمحسوس کرتی ہے انھیں یہ نہیں پتہ کہ وہ دن بھر میں کتنے نا محرم مردوں کی حوس بھری نگاہوں کا شکار ہوتی ہے،عورت پردے میں چھوپی ہوئ شئے کا نام ہیں آج جسطرح سے بنت حواکومغربی تہذیب نےاپنے جال میں پھنسایا ہے بڑےہی چالاکی سےآزادیء نسواں اورتعلیمء نسواں کے نام پرمخلوط تعلیمی نظام نے اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ کردیا ہے !مغربی تہذیب کو ہی اپنی تہذیب سمجھ لیاہے، غیرمذہبی تہوارکو سیلیبریٹ کرنامعاشرے میں ایک عام بات ہوگئ ہے،

بنت حوا کو آزادی نسواں کا نعرہ دیکر مغربی تہذیب نے اس جگہ لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ غلط کام کوغلط تسلیم کر نے پر بھی راضی نہیں دین اسلام کے خلاف کام اور عوامل کو جدت پسندی آزاد خیالی کا نام دیکر انجام دیا جاتا ہے۔ مغربی تہذیب غیر محسوس طریقے سے معاشرے میں داخل ہو چکی ہے یوم جمہوریہ کے موقعہ پر اسکولوں اور کالجوں میں ثقافتی پروگرام کے نام پر بنت حوا کواسٹیج کی ذینت بنا کر اور نا محرومو کی نگاہوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور اس بات پر والدین کو ذرا بھی افسوس نہیں ہو تا انکی غیرت ایمانی کو جوش نہیں آتا۔ کہاں سے آۓ جب حرام کا لقمہ جسم کی غذا ہو۔ اور تو اور مبارک باد دیتے ہے کہ میری بچی اول نمبر سے آئی ہے فلاح فلاح ڈانس میں ۔ خدا کی نافرمانی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اور پھر حالات کا رونا روتے ہیں کے مسلمانوں پر ہی کیوں ظلم ہورہا ہے۔ کیوں نا ہو جب معاشرے میں بےحیائی پھیل گئی ہو۔ جب معاشرے میں ناچ گانا پھیل جاتا ہے۔

اُس معاشرے میں زنا ضرور پھیل کر رہے گا اور جب زنا پھیل جاتا ہے تو اُس معاشرے کو اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا جس کے باعث قوم لوطؑ پر عذاب آیا جس کے باعث قوم لوطؑ کی بستیاں آسمان تک لے جا کر الٹی گرائی گئی اور اُوپر سے پتھر برسائے گئے آج معاشرے میں وہ سب ہوں رہا ہے مرد عورت کا آزادانہ اختلاط اور عریانیت وفحاشی عروج پر پہنچ چکی ہے خدارا اپنے پیدا ہو نے کے مقصد کو سمجھے کیا دیا ہے مغرب نے ہمیں آزادی نسواں کے نام پر بے حیائی اور فحاشی کے سوا۔ یورپ کی خواتین خود کہتی ہے ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں عورت کو ٹیشو پیپر کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا دین اسلام نے عورت کو عزت بخشی ہے جو کسی مذہب نے نہیں دی عرب کا یہ رواج تھا اتنی جہالت تھی کہ لڑکی کے پیدا ہونے کو ذلت سمجھا جاتا تھا اسے پیدا ہو تے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جب اللہ نے نبیٌ کو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور آپ نے انسانیت کا درس پیش کیا عورتوں کے حقوق پیش کۓ انھیں عزت بخشی پر آج آزادی نسواں کے فریب نے بنت حوا کو اتنا گرا دیا کہ دو روپیے کے شیمپوں کو فروخت کرنے کےلئے بنت حوا کی نیم برہنہ تصاویر اُس پر دکھائی جاتی ہے

نئ تہذیب کا عجب فلسفہ ہے اگر عورت اپنے گھر میں رہے کہ اپنے شوہر کے لئے اپنے بچوں کے لئیے کھانا پکاتی ہے تو یہ رجعت پسندی اور دقیانوسیت ہے اور اگر وہی عورت جہاز میں ایر ہوسٹس بن کر سیکڑو انسانو کی ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بن کہ ان کی خدمت کرتی ہیں تو اسکا نام آزادی اور جدت پسندی ہے اگر عورت گھر میں رہے کہ ماں باپ بھائی بہن کےلئے خاناداری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے لیکن دوکانوں پر سیلز گرل بنکر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے یا دفتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے.

افسوس آج کل فروری کے آتے ہی بےحیائ کا ماحول سرگرم ہو جاتا ہے جو ذیادہ تر اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عروج پر ہے جسے ویلنٹائن کا نام دیا جاتا ہے آزاد خیال لوگ جو خود کو لبرل کہتے ہے ویلنٹائن کے دن کو جنسی آزادی کے طور پر مناتے ہے بے نکاح جوڑے حرام کام انجام دیتے ہے جس کا اسلام  میں کوئی تصور نہیں بلکہ اسلام تو یہ کہتا ہے  کہ بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ۔میں ان لوگوں سے کہتا ہوں اگر ان کو غیرت ہوگی تو ضرور سونچنے پر مجبور ہو نگے کہ وہ ویلنٹائن کو مناتے ہے تو اپنی بہن سے ضرور پوچھے کہ اسنے بھی ویلنٹائن منایا کہ نہیں معافی چاہتا ہوں پر حقیقت ہے بات کہاں نکل گئی بتانا یہ ہے کہ سب آزادی نسواں کا فریب ہےجس نے آزادی کے نام پر بنت حوا کو بازار کی ذینت بنا دیا اور جدت پسندی کے نام پر اسکے وجود کو تشہیر کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ خدارا اور اپنی عزت و عصمت کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کرو جدت پسندی آزاد خیالی نے کہا لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے

ہمیں کسی تہذیب کی ضرور ت نہیں نبیﷺ کےبتائے ہوئے طریقے ہماری کا میابی و کامرنی کے ضامن ہے اسلئے اپنے آپکو مکمل دین اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے  اور آزدادیء نسواں کے فریب کو سمجھتےہوئے اعتدال پسندی کو اپنائےہوس بھری نگاہوں سے بچنے کیلئے  مکمل پردےکا اہتمام کرے عشق محبت  کے جھوٹے تعلقات قائم کرنے سےبچے پردے کو قید نہ سمجھے یہ بنت حوا کی جان ،عزت و عصمت کا محافظ ہے  پردے کو غنیمت سمجھو مصیبت نہ سمجھو آخر میں اس حدیث کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں

” جو بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کر ے گا وہ انہی میں سے ہوگا”(حدیث نبویٌ)

تبصرے بند ہیں۔