فتح کا فتنہ

مسلمانوں کوورغلانے اور مشتعل رکھنے کی ایک اور سازش
پہلے ہندوستان پھر اسلام کا نعرہ لگانے والے فتح صاحب اپنے قول و فعل میں ثابت قدم نہیں رہ پاتے۔جب وطن عزیز مقدم ہے تو ملکی اہم و ضروری مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے سر گرم عمل ہونا چاہیے۔غریبی بھکمری مہنگائی رشوت خوری کالا دھن بے روزگاری تعلیمی پسماندگی سماج میں ہو رہے نچلی ذاتوں پر ظلم کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

ٹھیک الیکشن سے پہلے اصل مدعے سے عوام کا دھیان بھٹکانے کے لیے فتح کا فتنہ اس شو کا آغاز کیا گیا۔ ملک میں اقلیت میں رہ رہے طبقہ کو زہنی طور سے مجروح کر کے امن و یکجھتی کی فضا کو خراب کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔مختلف جماعتوں و فرقوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑ کائی جا رہی ہیں۔ اس ملک میں شیعہ سنی امن و امان سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔بین ا لا قوامی شیعہ سنی کی جھڑپوں کا منظر وطن عزیز میں بالکل بھی نہیں ہے۔ یہی بات کچھ لوگوں سے برداشت نہیں ہو رہی ہیں۔ امن و شانتی کا ماحول بگاڑنے کے لیے ہی منظم طریقے سے فتح کا فتنہ ایک نیوز چینل نے لے کر آیا ہے۔

ہندوستان میں اکثریت ہندو قوم کی ہے۔ اس قوم کے مذہبی رسوم و رواج جو واقعی انسانیت و ان کی مذہبی کتابوں کی رو سے بھی غلط ہے ۔ان پر کیوں لب کشائی نہیں کی جا رہی ہے۔ فتح و اسکے حواری چینل کو مسلمانوں سے اتنی محبت کہاں سے جاگ گئی کہ وہ ایک مخصوص شو اقلیتی طبقے کے لیے چلا رہے ہے۔ ملک میں رہ رہے 125 کروڑ ہندوستانیوں کے روز مرہ کے بنیادی مسائل سے آنکھیں بند کر کے صرف ایک مخصوص اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کسی کام و شو کا مقصد تعمیری ہونا چاہیے نہ کہ مرے مردے اکھاڑ کر امن پسند عوام کو لڑانا اور نفرت پھیلانا۔نیم برہنہ کپڑے پہنا کر مسلم خواتین کے کونسے مسائل حل کرنے کا دعوا کیا جا رہا ہے۔ آج کل بے پردگی کی وبا کو ہوا دینے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔جس بے حیائی اور فحاشی نے مغربی معاشرے کو تہس نہس کر دیا ہے اسی راستے پر چل کر اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے ہماری ماں بہنوں کو دعوت گناہ دی جا رہی ہے۔

دستورِہند نے ہر ایک ہندوستانی مرد و عورت کو اپنی پسند کا لباس پہننے اور طرز زندگی و غذا کھانے کا حق دیا ہے۔اس بنیادی حق کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کیو ں کی جارہی ہے۔یہ مسلمانوں کو زہنی طور سے مضطرب رکھ کر سماجی سیاسی تعلیمی و تعمیری میدان سے یکسر دور رکھنے کی ایک منظم سازش ہے جسے رہبرانِ قوم کو جلد از جلد سمجھ کر اس کے سد باب کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنانا چاہیے۔

اسے مسلمانوں سے ہمدردی کہا جائے یا کھلی دشمنی کہ ہمارے معزز علمائے دین و سماجی و تعلیمی خدمتگاروں کو شو پر مدعو کر کے ذلیل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا جا رہا ہے۔علماء کو بھری محفل میں پٹ ملا جھٹ ملا پلٹ ملا کہہ کر مذاق کا محور بنایا جا رہا ہے۔اگر واقعی مسلمانوں کی فکر ہے تو اصل مسائل جو تعلیم روزگار و سماجی برابری سے جڑے ہیں ان موضوعات پر خلوص نیت سے بات کرنا چاہیے۔کس بادشاہ نے کیا کیا یہ باتیں کر کے آج کے دور کے کون سے اہم و بنیادی مسائل حل ہو گے۔ہمارے علمائے اکرام شو میں جا کر بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں۔اللہ کے پیارے رسولﷺ کے پاکیزہ اخلاق و عظیم کردار کی سنت کو بھول کو چیخنا چلانا اور جوتے مارنے کی بات کرنا کسی بھی شخص کو زیب نہیں دیتا ہے۔شو میں جانے ولے حضرات مسلم قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بزرگانِ دین کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر ہی لوگ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں یہ لمحہ خود احتسابی کا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔