خطرے کا احساس!

شعيب طيار

ڈر اور خوف انسانی نفسیات کا ایک لازمی جزء ہیں ، خطرے کے احساس کے ساتھ ہی خوف و اندیشے بھی پیدا ہوتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ہر اندیکھی چیز سے ڈر لگتا ہے، جس چیز سے پہلے کوئی واسطہ نہیں پڑا ہوتا اس کے بارے میں لوگ بالعموم توہمات کا شکار رہتے ہیں ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اندھیرے میں ان علاقوں سے بھی گزرنے سے گریز کرتے ہیں جن کا کسی بھی موذی جانور سے خالی ہونا بالکل یقینی ہوتا ہے، وجہ صاف ہے، اندیکھی چیز کا خوف اور انجان مخلوق کا ڈر.

حتی کہ خود انسانوں کے مابین بھی یہ چیز بکثرت دیکھنے میں آتی ہے، کسی نئے آدمی سے ملنے سے قبل ہم اس کی شخصیت کے بارے میں طرح طرح کے وہم و گمان میں مبتلا رہتے ہیں اور ملاقات کے وقت ایک بالکل منفرد اور نئی شخصیت پاتے ہیں .

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے روز اول سے ہی لوگوں سے میل جول اور ملاقات کو لازم قرار دیا اور عُزلت کو ناپسند کیا، پانچ وقت کی نماز باجماعت فرض کی تاکہ محلے کے افراد باہم ایک دوسرے سے نہ صرف متعارف رہیں بلکہ خوشی و غم میں بھی شریک ہوں . جمعہ کی نماز، جامع مسجد میں ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ دور دراز کے لوگوں سے بھی واسطہ رہے، عیدین کی نماز کسی وسیع کھلے میدان میں پڑھنا پسند کیا تاکہ شہر اور گاؤں کے ان افراد سے بھی ملاقات ہو سکے جو دور دراز کسی محلے میں رہتے ہوں ، اور فریضہ حج لازم قرار دیا تاکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے کلمہ گو سے ملاقات ممکن ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ کس رنگ، نسل، زبان یا علاقے کا ہے.

ملاقات اور میل جول بڑی ہی اہم چیز ہے، یہ فاصلے مٹاتی ہے اور محبتیں بڑھاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت میں کسی بھی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ناچاقی کے بعد اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد بات چیت بند رکھے. دوریاں ، بدگمانیوں کو جنم دیتی ہیں اور بدگمانیاں نفرتوں کو، اور اس طرح رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے.

حتی کہ اسلام نے میاں بیوی کے درمیان بات چیت بند ہو جانے کی صورت میں ان کے تعلّق کو دوبارہ استوار کرنے کی غرض سے جھوٹ بولنا تک جائز قرار دیا.

منظر نامے کو ہم تھوڑا اور وسیع کریں تو یہ اصول و قوانین تمام انسانوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں ، ایک ہی عمارت کی مختلف منزلوں پر رہنے والے لوگ ہوں یا ایک ہی ملک میں رہنے والی دو قومیں ، فاصلے خواہ کم ہوں یا زیادہ، ملاقاتیں نہ ہوں تو اندیشے، بدگمانیاں اور نفرتیں جنم لیتی ہیں اور خوف کی فضا عام ہوتی ہے، پھر کبھی کبھی یہی خوف، Outrage اور غصے کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے اور ہزاروں معصوموں کو اپنی زد میں لے لیتا ہے، وجوہات اور بھی ہوتی ہیں مگر بنیادی کردار لاتعلقی اور باہم میل جول کا نہ ہونا ہی ہوتا ہے.

اس ضمن میں انسانی ذہن بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اپنا کام آسان کرنے کی غرض سے انسانی دماغ کسی بھی شخص کے بارے میں Pre-occupied یا پہلے سے قائم کردہ رائے کو ہی اختیار کرتا ہے، اس عمل کیلئے وہ افواہیں ، خبریں ، لوگوں کی بات چیت اور موجودہ زمانے میں ویڈیو، آڈیو اور تصاویر کا سہارا لیتا ہے، اس طرح کسی شخص سے ملاقات سے قبل ہی اس کے بارے میں ایک رائے قائم ہو چکی ہوتی ہے، بیشتر اوقات اس رائے میں بدگمانی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے.

تصور کریں جس شخص کے بارے میں آپ کا دماغ اس قسم کی رائے قائم کر رہا ہے اس سے آپ کی ملاقات ہی نہ ہو!!! یہ مظہر اور Phenomenon موجودہ زمانے میں عام ہے، Virtual Relationship اور غیر حقیقی تعلقات کی دنیا میں ہم صرف ان چیزوں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرتے ہیں جو ہمیں دکھائی یا سنائی جاتی ہیں ، قطع نظر اِس سے کہ اُس میں کتنی صداقت ہے.

صحافت جو کبھی محض خبروں کی ترسیل و اشاعت کا کام کرتی تھی، اب کچھ مخصوص افکار و نظریات کی ترویج اور کچھ خاص لوگوں کی ترجمانی کا کام کرتی ہے، معدودے چند کے سوا اب سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھتے ہیں .

خبریں اب وہ دکھائی یا چھاپی جاتی ہیں جو کسی مخصوص نظریے یا فکر کی تائید و توثیق کرتی ہوں ، ایسے میں کسی بھی مسئلے سے متعلق کوئی صحیح رائے قائم کرنا بڑا ہی دشوار امر ہے.

ان حالات میں ایک مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر محض ان وسائل پر تکیہ نہ کرے بلکہ باہر نکلے، چیزوں کی حقیقت و ماہیت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھےاور جہاں تک ممکن ہو معاملات کے متعلق خود اپنی رائے قائم کرے، حدیث میں آتا ہے کہ "انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں بیان کرے”.

یہ حدیث اعلامیہ ہے اس بات کا کہ دوریاں اور لاتعلقی، معاملات کے متعلق محض دوسروں کی رائے پر بھروسہ کرنا اور اس پورے Process میں کسی بھی طور اپنا کردار کرنا شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے.

ان دنوں وطن عزیز میں نفرت آمیز واقعات و حوادث کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے، ایسا لگتا ہے کہ نفرت کی کوئی مسموم سی ہوا چل رہی ہے، اخبارات میں اب خبریں بھی کچھ اسی قسم کے عناوین کے ساتھ آتی ہیں کہ "فلاں جگہ فرقہ وارانہ تشدد”،” یوگی راج میں دہشت کا ماحول، اب سنبھل میں فرقہ وارانہ کشیدگی”، "گئو رکشکوں کی غنڈہ گردی”،” کامن سِوِل کوڈ ماننا ہوگا”، "فلاں لیڈر نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا” وغیرہ وغیرہ.

ظاہر سی بات ہے اگر کہیں ایسے واقعات و حادثات ہو رہے ہیں تو اس کی رپورٹنگ تو کرنی ہی ہے لیکن ان خبروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ ملک کا ہر ہندو، مسلم مخالف نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر غیر معروف لیڈر کی زہر افشانی کو اخبارات کے صفحہ اول پر جلی حروف میں جگہ دی جائے، یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف انہی خبروں کو اخبارات کے صفحات میں زیادہ جگہ دی جائے جن میں دنگوں ، فسادات اور مسلم مخالف بیانات کا ذکر ہو، یہ خواہی نہ خواہی in-security اور غیر مامون ہونے کا تصور عام کرنا ہے، ملک میں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے، آج بھی سَلمان اور گَورَو دوست چلے آتے ہیں ، سلیم اور کرشنا میں محبت آج بھی قائم ہے، تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ہندو اور مسلمان ایک ہی کمپنی میں بڑے سکون سے کام کرتے ہیں اور بہت خوش ہیں .

ضروری نہیں کہ جو منظر نامہ، Virtual World اور ویڈیو، آڈیو یا تصاویر و اخبارات سے ظاہر  ہو رہا ہے وہ حرف بحرف سچ ہی ہو.

اس لیے، باہر نکلیے، حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیے اور جہاں تک ممکن ہو محض سنی سنائی باتوں پر بھروسہ مت کیجیے کیوں کہ ہر سنی ہوئی بات سچ نہیں ہوتی. فارسی کا ایک مقولہ ہے "شندیدہ کے بود مانند دیدہ” کہ سنا ہوا، دیکھے ہوئے کے مانند کیسے ہو سکتا ہے؟

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، آمین.

اللهم أرِنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرِنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه، آمين.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔