خلیل الرحمن اعظمی کی نظمیں

سلمان فیصل

’’ زندگی اے زندگی‘‘ کے حوالے سے

خلیل الرحمن اعظمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ اور اس کے پروردہ ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے ترقی پسندانہ رنگ کی شاعری میں کلاسکیت کی آمیزش کی ہے۔ خلیل الرحمن کی ادبی تربیت ترقی پسند ادیبوں کے زیرسایہ ہوئی۔ آپ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ اسی کے زیراثر اپنی شاعری کو پروان چڑھایا مگر ان کا ذہن اور مزاج صرف اسی تحریک تک محدود ہوکر نہیں رہا ، بلکہ انھوں نے اردو ادب کے کلاسیکی سرمایے سے بھی استفادہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں انتہا پسندی نہیں ہے اوران کی شاعری اشتہار بازی اور پروپیگنڈے سے کوسوں دور ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی ایک اچھے نقاد بھی ہیں ،لیکن ان کی تنقیدی بصیرت بھی صرف ترقی پسندی کے اصول و نظریات تک محدود نہیں ۔ خلیل الرحمن نے جس طرح کی ترقی پسند شاعری کی تنقید کی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعری کے صرف موضوعات کونہیں دیکھتے ،بلکہ فن کو بھی پرکھتے ہیں ۔ اسی لیے انھوں نے اپنا جوشاعری کاسرمایہ چھوڑا وہ ترقی پسندی اور کلاسکیت کی آمیزش کا نتیجہ اور نمونہ ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی کے تین مجموعہ کلام منظر عام پر آئے۔ ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’کاغذی پیراہن‘‘ 1955 میں شائع ہوا، دوسرا مجموعہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ 1965 میں منظر عام پر آیا اور تیسرا مجموعہ کلام ’’زندگی اے زندگی‘‘ 1983 میں اترپردیش اردو اکادمی سے ان کی وفات کے چار سال بعد شائع ہوا۔ اس مجموعہ کلام میں خلیل الرحمن اعظمی کی زندگی کے آخر ایام کی شاعری ہے۔ ان کے آخری دور کی شاعری سے اس کلام کو منسوب کیا جاتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی اس مجموعہ کلام کی روشنی میں ایک نئی شخصیت میں ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ زندگی کے مسائل اور زندگی گذارنے کی ضروریات اور موضوعات پرشاعری اس مجموعہ کلام میں نظر آتی ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں اس مجموعہ کلام کی نظموں کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے گا۔

خلیل الرحمن اعظمی کے آخری مجموعہ کلام ’’زندگی اے زندگی‘‘ کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان نظموں میں زندگی اور موت کا تذکرہ حاوی ہے۔ چونکہ یہ نظمیں زیادہ تر ان کی عمر کے آخری دو سال کے دوران لکھی گئی تھیں اور اس وقت وہ بلڈکینسر یعنی مرض الموت میں مبتلا تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ زندگی کے کچھ ایام ہی ان کے پاس بچے ہوئے ہیں ۔ اسی لیے ان کی فکر اور ان کا ذہن اور مزاج زندگی اور موت کی گتھیوں میں الجھ چکا تھا۔ وہ اس سے باہر نہیں نکل پائے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جو نظمیں لکھیں اس میں موت حاوی ہے۔انھوں نے چھ کتبے لکھے۔ اپنے رشتہ داروں کے نام نظمیں لکھیں ، جن میں وعظ و نصیحت اور پرانی یادیں ہیں ۔ ان کی نظموں میں ہر رشتے کے فنا ہوجانے پر زیادہ زور ملتا ہے۔ اس مجموعہ کلام کے آغاز میں ’’چند باتیں ‘‘ کے عنوان سے خلیل الرحمن اعظمی کی بیگم راشدہ خلیل نے پہلے ہی پیراگراف میں اس مجموعہ اور خلیل صاحب کی بیماری اور آخری دور کی شاعری کے تعلق سے لکھا ہے :

’’میرے شوہر خلیل الرحمن اعظمی مرحوم کے انتقال کو چار سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مرحوم کے اس آخری مجموعہ کلام کی اشاعت میں کافی تاخیر ہوگئی ہے، اس تاخیر کی تھوڑی بہت میں بھی ذمہ دار ہوں کیونکہ اس کی اشاعت کا آخری فیصلہ بھی مجھی کو کرنا تھا اور میں اس کو ٹالتی رہی کہ اس مجموعے میں شامل زیادہ تر شاعری ان دو سالوں کی یادگار ہے جب وہ موت سے دست و گریباں تھے اور بے بسی سے میں اس جنگ کے انجام کاانتظار کررہی تھی۔ (زندگی اے زندگی: خلیل الرحمن اعظمی، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ، 1983، ص: 12)

تقریبا ڈیڑھ صفحہ کی اس پوری تحریر میں بھی موت و زیست کا تذکرہ حاوی ہے ۔غالبا بیگم راشدہ خلیل کے اعصاب پر چار سال گذر جانے کے باوجود ان کے شوہر کی ہمت اور موت سے لڑنے کا حوصلہ حاوی رہا تھا۔ وہ آگے لکھتی ہیں :

’’مرحوم موت سے یوں شکست کھانے والے نہ تھے، زندگی سے محبت کس کو نہیں ہوتی لیکن موت اور زمانے سے بیک وقت مردانہ وار لڑنے کا حوصلہ اور بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے، مرحوم نے بغیر کسی کی مدد کے اس جنگ کو آخر تک جاری رکھا۔‘‘(ایضاً، ص: 13)

بیگم راشدہ خلیل کی اس غم انگیز اور دل کو جھنجھوڑنے والی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجموعہ کلام کی پوری شاعری کا لب لباب اور نتیجہ فکر موت و زیست کی جنگ ہے۔ اس تناظر میں ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو الفاظ کے پیکر اور بین السطور مخفی افکار تک پہنچنا آسان ہوتا نظر آئے گا۔

زندگی اے زندگی میں شامل نظمیں ایک ساتھ نہیں بلکہ دو حصوں میں ہیں ۔شروع میں نعت اور غزلیں ہیں اس کے بعد سات نظمیں اور پھر غزلیں اور آخر میں چند نظمیں شاملِ مجموعہ کلام ہیں ۔ جو نظمیں پہلے پیش کی گئی ہیں ان نظموں کے آخر میں سنہ بھی درج ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے وہ نظمیں 1962 سے 1966 کے درمیان کی ہیں گویا کہ یہ نظمیں وفات سے دس سال قبل لکھی گئی ہیں جبکہ کتاب کے آخر میں شامل نظموں کے آخر میں کوئی اندراج نہیں ہے مگر داخلی شواہد بتاتے ہیں اور بقول راشدہ خلیل کے کہ یہ نظمیں موت سے قبل دو چار سالوں کے اندر لکھی گئی ہیں ۔

مرزا خلیل احمد بیگ نے خلیل الرحمن اعظمی کے تعلق سے لکھا ہے:

آخر دور کی تخلیقات میں مذہبی جذبے کا بھی شدید رجحان پایا جاتا ہے۔ خلیل صاحب نے انتقال سے قبل بہت سے نعتیں ، کتبے اور روحانی نظمیں لکھیں جن سے مذہب میں ان کے گہرے عقیدے اور ایقان کا پتا چلتا ہے۔ ’’کتبہ‘‘ کے نام سے انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی اور مخصوص صنف کا اضافہ کیا ہے جس میں وہ خود اپنے مرنے کا ذکر کرتے ہیں اور مرنے کے بعد خود اپنے تاثرات اور عزیز و اقارب اور احباب کے احساسات اور رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ بڑی دل ہلا دینے والی نظمیں ہیں ۔ ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے موت کو کتنے قریب سے اور کس کس طرح سے سرپر منڈلاتے دیکھا ہے۔ ان کے لیے یہ بڑی بے بسی اور بے چارگی کا عالم تھا وہ ایک ایک اپنے گھر کے تمام افراد کو یاد کرتے ہیں ۔ چنانچہ مکو، اجو، پی چو، ہما اور ان بچوں کی ماں پر نظمیں انھیں ایام کی یاد گار ہیں جو بہ ظاہر بیانہ نظمیں ہیں لیکن جذبے کی فراوانی اور ایک خاص صورت حال کی سچی ترجمانی نے ان نظموں کو نہایت پر درد اور پر اثر بنا دیا۔

مرزا خلیل احمدبیگ نے خلیل الرحمن اعظمی کے اس مجموعہ کلام پر یہ بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ ان کے تبصرے سے خلیل صاحب کے اس مجموعہ کلام کی شاعری کی تاریخی اہمیت اور اس کے موضوعات کا علم ہوتا ہے۔ انھوں نے ایک پیراگراف میں تمام باتوں کوسمیٹ دیا ہے۔

اس مجموعۂ کلام میں ’’ان کہی‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی ایک ایسی نظم ہے جس میں سیاسی نظام کی قلعی اتاری گئی ہے۔ کس طرح کرسیوں یعنی اعلی عہدوں اور مناصب پر جاہل، غبی، مسخرے اورایب نارمل لوگ براجمان ہیں ، بلکہ قابض ہیں ؛ مگر یہ ان کی اپنی قسمت، کوئی ان کے خلاف کچھ کہے تو کیسے کہے ،لیکن خلیل الرحمن اعظمی کا ذہن کہہ رہا ہے کہ ان مسخروں پر اور ان سے روبرو ہوکر انھیں کھوکھلا کہاجائے:

مجھ کو محسوس ہوتا ہے

خود میرے اندر

کوئی بیٹھا ہوا

کہہ رہا ہے

جی میں آتا ہے

ان مسخروں پر ہنسوں

کھوکھلے آدمی جو بھی ہیں

ان سے کہہ دوں کہ تم کھوکھلے ہو

اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی احمق

اونٹ کی طرح سے بلبلائے

تو کہہ دوں ۔۔۔۔۔ کہ کیا بک رہے ہو؟ (ص 38)

ایک دوسری نظم "پچھلے جنم کی کتھائیں ” میں لمحہ لمحہ زندگی بدلنے کی کہانی ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر گذرتا لمحہ پچھلا جنم ہے اور ہر لمحہ انسان کی شخصیت بدل رہی ہے۔ اس لیے وہ گو تم کی طرح نروان حاصل کرنے نکل جانا چاہتے ہیں ، مگر انھیں کہنا پڑتا ہے کہ "میں گوتم نہیں ہوں ” کیونکہ وہ گھر سے نکلتے ہیں اپنے آپکو ڈھونڈنے ، لیکن وہ جسم کی آگ میں سلگ سلگ کر اپنے راستے سے بھٹک کر خلا میں پہنچ جاتے ہیں اور انھیں نروان پراپت کرانے دالا گوتم کا درخت نصیب نہیں ہوتا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی نے چھ کتبے کہے ہیں ۔ انھوں نے کسی کتبے میں خدا کو مخاطب کیا ہے تو کسی میں رشتہ داروں اور دوست احباب کو،اور کسی میں اپنی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے۔ بہر حال یہ کتبے اس بات کے شاہد میں کہ ان کو اپنی موت کے قرب کا کس قدر احساس تھا۔ ان کتبوں کے ذریعہ انھوں نے وصیتیں بھی کی ہیں ۔ ایک کتبے میں لکھتے ہیں :

اے آدمی

اے وہ اک شخص

جو مرے مرنے کی پہلی خبر سن کے دوڑے

اور آواز دے بھائیو آؤ اس کا جنازہ اٹھاؤ

اور اس آواز پہ کوئی آواز اس تک نہ پہنچے

اور پھر مجھ سے بیکس اکیلے کو کاندھوں پہ اپنے دھرے

اور اکیلی سی اک قبر میں مجھ کو پہنچا کے محفوظ کردے

میرا وہ دوست اتنا سا احسان مجھ پر کرے

وہ مری قبر پر ایک سادہ سا کتبہ لگائے

اور اس پر مرا نام لکھ دے

سچ کہوں اس سے میں اپنی شہرت نہیں چاہتا

کیا مرا نام اور کیوں وہ باقی رہے

میں اس واسطے چاہتا ہوں کہ جب

شہر کے لوگ یہ سن کے دوڑیں

کہ دیکھو یہ مشہور ہے، لوگ کہتے ہیں وہ شخص تو مرگیا

سوچتے ہیں یہ اسی کی شرارت نہ ہو

تاکہ ہم لوگ اب اس سے غافل رہیں

اس کے فتنے سے اپنے کو محفوظ سمجھیں

بس یہی چاہتا ہوں

کہ ایسا کوئی شخص ڈھونڈھے مجھے

تو سہولت ہو اس کو یہ تصدیق کرنے کی

یہ شخص سچ مچ نہیں ہے

وہ اب مرچکا ہے                    (زندگی اے زندگی،ص 80-81)

ان کتبوں کے بارے میں مظہر احمد اپنی کتاب جدید اردو شاعری اور خلیل الرحمن اعظمی میں لکھتے ہیں :

’’ان کتبوں میں ایک المیاتی کیفیفت اور المیاتی طنز و گہرائی پائی جاتی ہے اور اسی لیے یہ جاوداں بن گئے ہیں ۔ یہ کتبے جہاں شاعر بہت رجعت پرست یا قنوطی نظر آتا ہے بباطن ان میں زندگی سے اس محبت کا احساس بھی پوشیدہ ہے جو انسان کو زندگی گوارا بنانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ جہاں شاعر امید کرتا ہے کہ اس کی قبر پر آنے والے رشتہ دار، دوست، احباب اس کے ہمدرد ہیں اور انھیں اس کے کھو جانے کا دکھ ہے۔ شاعر زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ دشمنوں کے آرام کی دعا کا طالب ہے اور خود بھی ایک ازلی آرام کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے ۔جہاں اسے امید ہے کہ کوئی اس کا ہمدرد آکر اس کی قبر پر اپنا نام کندہ کردے اور اپنی محبت کا ثبوت بہم پہنچائے کہ دوست کے مرجانے سے وہ بھی مرگیا ہے ۔ ‘‘ (جدید اردو شاعری اور خلیل الرحمن اعظمی: مظہر احمد،شبانہ پبلیکیشنز دہلی، 1989،ص: 120)

خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے رشتہ داروں کے نام یا ان کے لیے چند نظمیں کہی ہیں ۔ یہ بھی آخری عمر کی نظمیں ہیں ۔ انھیں رشتوں کا بڑا خیال تھا۔ وہ رشتے نبھانے پر بہت زور دیتے تھے۔ جن لوگوں پر انھوں نے نظمیں لکھی ہیں ان میں ان کے دونوں بیٹے عدنان خلیل اور سلمان خلیل کے لیے ’’اجّو پی چو‘‘ کے عنوان سے ہے۔ عدنان اور سلمان اجّو اور پی چو ہیں ۔ اس نظم میں خلیل صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں کے بارے میں خاص طور سے ان کے بچپن اور ان کی عادتوں کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ ایک نظم ’’ہما‘‘ کے عنوان سے ہے، جو ان کی بیٹی کے بارے میں ہے اور ہما کے لیے انھوں نے ایک ’’لوری‘‘ بھی لکھی ہے۔ خلیل صاحب نے ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’’ماں ‘‘۔ لیکن یہ نظم ان کی ماں کے بارے میں نہیں بلکہ ان کی بیگم راشدہ خلیل کے بارے میں ہے۔ اس نظم کی ابتداء ان مصرعوں سے ہوتی ہے:

میرے بچو  !

یہ تمھاری ماں ہے

جنھیں تم پیار سے امی کہا کرتے ہو

اس نظم میں انھوں نے اپنی بیگم کی سادگی ، ان کی وفاداری اور محبت کو بیان کرتے ہوئے اپنے بچوں سے گویا ہیں کہ انھیں کے قدموں میں تمھاری جنت ہے اور اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صبح سب سے پہلے اپنی ماں کو سلام اور ان سے دعا لینے کا کام ہونا چاہیے۔

اس مجموعہ کلام میں دو حصوں پر مشتمل ایک ایسی نظم شامل ہے جسے کہ خلیل الرحمن اعظمی نے غنودگی اور خواب دمستی کی حالت میں لکھی ہو۔ اس میں جام و پیمانہ اورساقی کا کثرت سے ذکر ہے ۔ساقی کے حدسے زیادہ کثرتِ استعمال سے یہ اندیشہ ظاہر ہوتا ہے کہ خلیل صاحب پر دجد طاری ہے اور وہ بہک رہے ہیں اور جھوم رہے ہیں اور اسی کیفیت میں ان کی زبان سے جو الفاظ ادا ہو رہے ہیں اس میں ایک عجیب قسم کی نغمگی اور موسیقیت سرایت کیے ہوئے ہے۔

چند اشعار ملاحظہ ہوں :

ساقی!ساقی!ساقی!ساقی! میں متوالا ساقی کا

کم کم کم کم تھم تھم تھم تھم پیالہ ساقی کا

میں ساقی کا میں ساقی کا ساقی میرا ساقی میرا

میں نے چکھا میں چکھا منہ کا نوالا ساقی کا

ہلکی ہلکی، جھلکی جھلکی، بس اس کے رخساروں کی

چم چم چم چم چم چم چمکے سرخ دو شالہ ساقی کا

ڈھل ڈھل ڈھل ڈھل کرے صراحی کھل کھل کھل کھل جام دسبو

جگمگ جگمگ جگمگ کرتا، کیسا مالا ساقی کا

سارے گاما سارے گاما گاما سارے گاما سا

دھیمے دھیمے سر کو اٹھائے گانے والا ساقی                     (زندگی اے زندگی ،ص 91)

………………………………

ساقی آیا ساقی آیا ساقی کا مستانہ بولا

آؤ اے ساقی ! آؤ اے ساقی اس کا اک دیوانہ بولا

ڈم ڈم کرتی ٹم ٹم کرتی جاگیں پلکیں شمعوں کی

ہم بھی ہم بھی، ہم بھی کہہ کر ساقی کا پروانہ بولا

کھٹ کھٹ، کھٹ کھٹ، پٹ پٹ، پٹ پٹ، کھل گئے سب دروازے بھی

جے ہو، جے ہو، جے ساقی کی میخانہ میخانہ بولا

قل قل قل قل کرے ہے مینا، چھل چھلکے شیشہ سے

سب کو پلا دے، سب کو پلا دے، پیمانہ بولا

پی لے، پی لے، پی لے، پی لے، پی لے جی بھر بھر کے پی

چھن چھن، چھن چھن بولے گھنگرو، اس کا دانہ دانہ بولا        (زندگی اے زندگی، ص: 93)

اس طرح ان کی دو اور نظمیں ہیں ایک "اصحاب فیل” اور دوسری ”تانڈو ناچ” ۔یہ دونوں نظمیں مجموعہ کلام کی آخری نظمیں ہیں ان کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی بالکل آخری وقت کی نظمیں ہیں ان میں بھی ایک عجیب قسم کی موسیقیت اور غنانیت کا عنصر شامل ہے، مکرر الفاظ کا کھیل ہے۔ ان کی قرات سے قاری کے ذہن و دماغ پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ جب پڑھنے والے پر یہ اثر ہے تو تحریر لکھنے والے کے ذہن پر کیا بیت رہی ہوگی اس کااندازہ کرنابھی مشکل ہے۔ ان کا ذہن کس کرب کا شکار ہوگا یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اصحاف فیل کے چند اشعارملاحظہ ہوں :

کالے کالے ر تھ میں بیٹھے کالے کالے ہاتھی سب کے

کالے ہاتھی کے کندھوں پر اپنا بوجھ سنبھالے بادل

کم کم کم کم کم کم کرتی لہراتی ہے ان کی کماں

چل چل چل چل چل چل کر کے تیر چلاتے بادل

کالی گھٹائیں ، کالی ہوائیں کالی صداؤں کے لشکر

کل کل کل کل کل کل کر کے آج ہی آنیوالے بادل

کالے کالے سر پر کالا خود چڑھائے

کالی زر ہیں ، کالے بکستر، کالے بدن پر ڈالے بادل

…………

ابرہہ ابرہہ کون سا ابرہہ کون وہ شاہ افریقہ

اپنا سب سے پرانا دشمن اس کو جانتے ہیں ہم سب

دیکھو دیکھو خانہ کعبہ کی جانب ہیں بڑھتے جاتے

اپنے اپنے تیرو کماں کو اس کی سمت اٹھائے سب

یہ کعبہ تو اہل عرب کی سب سے بڑی نشانی ہے

یہ تو ان کے خدا کا گھر ہے، اس کا خدا جو سب کا رب

…………

جمع ہوئے سب اہل عرب بن گیا اک مطلبی لشکر

سب نے سوچا پہلے دیکھیں کون ہے کیاہے اور کیونکر

گریہ وہی ہیں دشمن اپنے ہم بھی کریں گے فوج کشی

فوج کشی سے پہلے دیکھیں اور ذرا آگے بڑھ کر

………

اتنا بڑا لشکر دیکھا ان کے جواں گھبرانے لگے

پھر ان کا سردار یہ بولا ان سے نام خدا کر لے لر

دیکھو دیکھو مت گھبراؤ اپنے خدا کے نام پہ آؤ

ایک پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے پھینکو کنکر

……

سب نے فلک کی سمت کو دیکھا اک آواز بلند ہوئی

دیکھو دیکھو اوپر کی جانب سے آتا ہے اک لشکر

فیل سیہ کی فوج کے آگے آگے بڑھتا جائے

سر سر، سرسر،سرسر،سر سر، سرسر،سرسر،

شہ شہ،شہ شہ،شہ شہ،شہ شہ،

کرکر، کرکر، کرکر،کر

چچ چچ  چچ چچ  چچ چچ  چچ چچ

چرچر  چرچر  چرچر  چر

پھاں پھاں پھاں پھاں پھاں وپھاں پھاں پھاں پھاں

پھر پھر  پھر پھر  پھرپھر  پھرپھر پھرپھر

کن کن  کن کن   کن کن   کن کن

کنکر کنکر  کنکرکنکر  کنکر کنکر  کنکر کنکر  کنکر

کنکر کنکر  کنکر کنکر  فیل سیہ پر برسائے

یہ تھی فوج ابابیلوں کی یہ تھا ایک خدائی لشکر          (زندگی اے زندگی،ص :103-108)

خلیل الرحمن اعظمی نے اصحاب فیل، کعبہ پر ابرہہ کا حملہ اور اہل مکہ کا رد عمل ان تمام واقعات کو جس طرح سے بیان کیا ہے، یوں تو ایک قصہ معلوم ہوتا ہے ؛ لیکن اس نظم کی لفظیات قاری کے دل ودماغ کو جھنجھوڑ دیتی ہے ۔ دوران قرأت قاری کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ مرض الموت میں مبتلا اور اس قسم کی نظم کی تخلیق سے کہیں نہ کہیں یہ واضح ہوتا ہے کہ خلیل الرحمن کے اعصاب اور ذہن پر موت سوار ہے۔

اسی طرح ان کی دوسری نظم ’’تانڈو ناچ ‘‘ بھی ہے۔ اس نظم میں زمین اور پانی کو محور بناکر موت و زیست کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پانی ہی سے زندگی اور پانی ہی سے موت کے فلسفے کو متعد مثالوں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ یہ نظم چار حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلے حصے میں زمین اور اس کی زر خیزی اور زمین کے اندر پوشیدہ قیمتی اشیاء کا ذکر ہے۔ اور اسی زمین پر جب پانی کا طوفان آتا ہے تو کسی کی ناؤ ڈوبتی ہے تو کسی کی پار اتر جاتی ہے۔ دوسرے حصے میں بھی ایک طوفان کا ذکر ہے ، جو کا لے سمندر سے اٹھا ہے ، بستی اور صحرا پر غرّاتا پھر رہا ہے۔ تیسرے حصے میں پھر پانی کا تذکرہ ہے کہ اسی پانی سے ہی زندگی کی نمو ہے اور یہی پانی فنا کا باعث بھی ہے۔ نظم کا چوتھا حصہ پانی، ناچ، متعدد تلمیحات اور علامات کا ذکر ایک ایسا ماحول تیار کرتے ہیں کہ آدمی کو ان اشعار کی قرأت سے ہول آنے لگتا ہے بالخصوص متعد الفاظ کی دسیوں بار تکرار اور اس تکرار میں موسیقیت ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے۔ پانی کے باعث زیست اور وجہ فنا ہونے کی مثال ،چند اشعار میں دیکھیں :

کیوں لوگو پانی سے بھاگو پانی کا کیا پاپ

پانی ہی تو باپ تمھارا سب کے سب پانی کی بھرن

پانی کا قطرہ نہ پلاؤ بچہ چاٹے چھاتی

جھولے پے پاؤں کو پٹکے گر جائے جھولے کی جھلن

سب کو اس کی پیاس ستاتی سب کی پیاس بجھائے پانی

تلسی داس مہا کوی ہوں یا یو ہوں سب جمو اور جمن

……

پانی پانی  پانی کہہ کر سب مرجاتے ہیں

پانی کو پانی ہی بلاے پانی ہی دیتا ہے کفن

……

سب کے سب اونچے ہی ڈوبیں نیچوں کا کیا

ویسے نیچے بپی سب ڈوبیں سب کا نیچا ۔۔۔۔پن

سب سے اونچی گھاس بھی ڈوبے سب سے اونچا بانس بھی ڈوبے

سب سے اونچا تھان بھی ڈوبے سب سے اونچے تھن

سب سے اونچا تاڑ بھی ڈوبے سب سے اونچا پہاڑ

سب سے اونچی جھاڑی ڈوبے سب سے اونچا بن

سب سے اونچا نام بھی ڈوبے سب سے اونچا کام بھی ڈوبے

سب سے اونچا دام بھی ڈوبے سب سے اونچا دھن                (زندگے اے زندگے  111۔112)

اس نظم کے آخر میں ’’ڈراپ سین‘‘ بریکٹ میں درج ہے۔ ا س سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ نظم ایک ڈراما ہے۔ اسٹیج پر تمام کردار اپنے اپنے رول ادا کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں اور آخر میں پردہ گرتا ہے۔ آخر کے اشعار مفہوم سے عاری ہیں ، لیکن ان میں الفاظ کی تکرار سے ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے کہ پانی کی غڑغڑاہٹ کی آواز ہے اور سب کچھ اس میں غرق ہورہا ہے۔

خلیل الرحمن اعظمی کے مجموعہ کلام ’’زندگی اے زندگی‘‘ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خلیل صاحب نے اپنی عمر کے آخری دوسالوں کو کس طرح گذارا ہے۔ ان کے ذہن و دماغ پر کیا چھایا رہا ۔ وہ کیا سوچتے رہے۔ بالخصوص موت اور زندگی کے بارے میں ، بقا اور فنا کے بارے میں انھوں نے اپنی نظموں میں فلسفے بیان کیے ہیں ۔ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ عنقریب اس کی موت اس کے سر پر سوار ہونے والی ہے اور اس سے فرار ناممکن ہے اور ایسے ذہنی کرب میں جب آدمی کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے سنجیدہ اور سلجھی ہوئی زندگی اور موت کے فلسفے کی باتیں کرتا ہو تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک نابغہ روزگار تھے۔

تبصرے بند ہیں۔