خواب میں صورتِ رغبت نظر آئی کیا کیا

افتخار راغبؔ

خواب میں صورتِ رغبت نظر آئی کیا کیا

 دیدہٴ شوق نے تعبیر چرائی کیا کیا

اے مِرے آئینے یوں سنگِ ملامت سے نہ ڈر

بے خطر بول کہ ہے مجھ میں برائی کیا کیا

اِس قدر کون نوازے گا حسیں زخموں سے

تیرے احسان گناؤں مِرے بھائی کیا کیا

غیر پر مجھ سے زیادہ تھا بھروسا اُن کو

پیش کرتا میں اُنھیں اپنی صفائی کیا کیا

قابلِ فخر یقیناً ہے یقینِ احباب

کس کو ہے فکر کہ غیروں نے اُڑائی کیا کیا

پیکرِ مہر سمجھتے تھے انھیں ہم راغبؔ

چشمِ ادراک نے تصویر دکھائی کیا کیا

تبصرے بند ہیں۔