خواجۂ اجمیر کا پیغام: عہدِحاضر کے نام

شاہ اجمل فاروق ندوی

قدرت الٰہی کے کرشمے بھی عجیب ہیں ۔ حکمت خداوندی کب کس چیز کا فیصلہ فرمادے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکمت الٰہی کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں خراسان کا ایک شخص ہندستان پہنچا اور اپنے علوم و معارف سے پورے ملک کو ایسا مسخر کیا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اس کا نام سکۂ رائج الوقت کی طرح چلتا ہے۔ یہ صرف سرزمین ہند پر اﷲ تعالیٰ کی نظرعنایت کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف شہاب الدین محمد غوری (متوفی 602ھ) نے ہندستان میں حکومت اسلامی کا قیام کیا تو دوسری طرف شیخ الاسلام حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (ولادت 537ھ، وفات 633ھ) نے دعوتی جدوجہد اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ ہندستان میں روحانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اسی لیے شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے ان کو ’’سرحلقۂ مشائخ کبار‘‘ کے عالی لقب سے یاد کیا ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے:

’’اگرچہ پہلی صدی ہجری میں ہی یہاں اسلام کے حوصلہ مند دستے آنے شروع ہوگئے تھے اور 93 ہجری میں محمد بن قاسم ثقفی نے سندھ سے ملتان تک کے علاقے کو اپنی شمشیر و اخلاق سے تسخیر کرلیا تھا اور اس برصغیر میں جابہ جا داعیان اسلام کے مراکز و خانقاہیں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح قائم ہوچکی تھیں ، جیسے ’’بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی۔‘‘ لیکن حقیقتاً ہندستان کی فتح کا سہرا سکندرِ اسلام سلطان محمود غزنوی کے سر اور مستحکم و مستقل اسلامی سلطنت کے قیام کی سعادت سلطان شہاب الدین محمد غوری کے حصے میں تھی اور آخری طور پر اس کی روحانی تسخیر اور اخلاقی و ایمانی فتح حضرت خواجۂ بزرگ شیخ الاسلام معین الدین چشتی کے لیے مقدر ہوچکی تھی۔‘‘ (تاریخ دعوت و عزیمت، ج سوم، ص21، 22)

مولانا ابوالحسن ندوی کی شہادت اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ اردو زبان میں اصلاح و تجدید کی مسلسل تاریخ مرتب کرنے کا شرف اُنہیں ہی حاصل ہوا اور اس مبارک سلسلے کی تیسری جلد مشائخ چشت کے لیے خاص کی گئی، جس کے مورث اعلیٰ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری تھے۔

اسے بھی حکمت الٰہی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جس ذاتی گرامی کا نام نامی 800 سال سے متواتر مسلمانان ہند اور دوسرے اہل وطن کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے، اس کی کوئی مستند اور معتبر تاریخ نہیں لکھی جاسکی۔ یقینا یہ علمی دنیا کا ایک ایسا خلا ہے، جسے اب چاہ کر بھی پُر نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ نہ خواجۂ اجمیر کے دیکھنے والے موجود ہیں اور نہ ان کے ذریعہ مرتب کردہ معلومات۔ اس علمی نقصان سے ہزار گنا بڑا خسارہ یہ ہوا کہ خواجہ کے متعلق وجود میں آنے والے غیرمستند اور ناقابل اعتبار واقعات و اقوال کے ڈھیر میں خواجہ کا اصل پیغام دب کر رہ گیا۔ صرف دبا ہی نہیں بل کہ اتنانیچے چلا گیا کہ شاید اس کو نکالنے کی کوشش کرنے والا بھی عوام کی نظر میں ملعون و مردود قرار پائے۔ بہ ہر حال اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ خواجۂ اجمیر اور ان کے سلسلے کے دوسرے مشائخ کے ملفوظات و حالات کی روشنی میں خواجہ صاحب کے اصل پیغام تک رسائی حاصل کی جائے، اس کو عام کیا جائے اور اس کی روشنی میں دوبارہ وہی تحریک چھیڑی جائے، جو خواجۂ بزرگ نے شروع کی تھی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور ان کے خلفاء کے حالات و ملفوظات کے مستند مجموعوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں موجودہ مادیت زدہ دور کے لیے بیش بہا ہدایات ملتی ہیں ۔ لیکن بات کو صرف خواجہ صاحب تک محدود رکھا جائے اور نہایت اختصار سے کام لیا جائے تو چار بنیادی نکات سامنے آتے ہیں ۔ ان چاروں کو خواجہ صاحب کی زندگی اور تعلیمات کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے۔ یہ چاروں چیزیں عہد حاضر کے مسلمانوں اور بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کے لیے لائحۂ عمل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

(1) خواجہ اجمیری کی زندگی کا نہایت اہم سبق جرأت و ہمت ہے۔ بعض کو تاہ چشم، صوفیائے کرام اور بزرگان دین کو جرأت و بے باکی سے عاری سمجھتے ہیں ۔ لیکن خواجہ صاحب کی ہندستان آمد اور اجمیر میں قیام کا فیصلہ بتاتا ہے کہ یہ جلیل القدر ہستی جرأت و ہمت اور شجاعت و بہادری کا کیسا کوہ گراں تھی۔ کیوں کہ جس وقت وہ اجمیر میں قیام فرما ہوئے، اس وقت تک نہ صرف یہ کہ شہاب الدین غوری نے ہندستان پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اجمیر راجپوت حکومت اور ہندو مذہب کا بڑا مرکز تھا۔ کسی غیرملکی کا اجنبی ملک پہنچ کر مذہبی لحاظ سے بالکل مخالف ماحول میں قیام کرنا کس عزم و حوصلے کا متقاضی ہے، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خواجہ صاحب نے یہ نازک قدم اٹھایا اور پرتھوی راج چوہان کی حکومت میں اپنی روحانی حکومت کی بنیاد رکھی۔ راجا کی طرف سے مختلف مواقع پر سختیاں بھی ہوئیں لیکن خواجہ صاحب کو نہ وہاں سے ہٹنا تھا اور نہ وہ ہٹے۔ ان کے اس جرأت مندانہ فیصلے ہی کا نتیجہ تھا کہ بہت جلد ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا منظر سامنے آنے لگا۔ افسوس کہ خواجہ صاحب کہ قیام اجمیر کا یہ عظیم سبق نظروں سے پوری طرح اوجھل ہوچکا ہے۔

(2) خواجہ صاحب کی زندگی کا دوسرا پیغام رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش ہے۔ دلیل العارفین میں انہوں نے فرمایا ہے کہ:

’’تصوف نہ علم ہے اور نہ رسم، بل کہ مشائخ کا ایک خاص اخلاق ہے، جو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے۔ صوری لحاظ سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو۔ جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت سرزد نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا، جس کا نام طریقت ہے  اور جب اس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا اور جب اس میں پورا اترے گا تو حقیقت کا رتبہ پائے گا، جس کے بعد وہ جو کچھ مانگے گا، اس کو ملے گا۔‘‘  (دلیل العارفین، ص47)

رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش خواجہ صاحب کی زندگی کا عطر بھی ہے اور سب سے اہم پیغام بھی۔ اس لیے انہوں نے نماز، روزہ، حج اور تلاوتِ کلام اﷲ کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ فرماتے ہیں :

’’نماز رکن دین ہے اور رکن و ستون مترادف ہیں ۔ اگر ستون قائم رہے گا، گھر کھڑا رہے گا اور جب ستون ہی گر جائے گا، گھر گرپڑے گا۔ جس نے نماز میں خلل ڈالا، اُس نے اپنے دین اور اسلام کو خراب کیا۔‘‘ (دلیل العارفین، مجلس دوم)

مزید فرمایا:

جب نماز پڑھے تو اس طرح گویا کہ انوارِ تجلی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ (ایضاً، ص5)

غرض یہ کہ خواجہ صاحب کامل اتباع شریعت کے زریعے رضائے الٰہی کے حصول کی دعوت دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ادنیٰ تساہل کو ناقابل برداشت اور دین کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں ۔

(3)  انسانی ہمدردی شریعت محمدی کا مزاج بھی ہے اور صوفیائے کرام کی بنیادی تعلیم بھی۔ یہی وہ چیز ہے، جس نے اﷲ کے ان بندوں کو تنگ حال و تنگ دست ہونے کے باوجود بڑے بڑے امراء و سلاطین سے زیادہ مقبولیت و محبوبیت عطا کی۔ ہندستان میں مشائخ چشت کے امام ہونے کی حیثیت سے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے بھی انسان دوستی، ہم دردی، رحم دلی اور بے لوث خدمت خلق کے ذریعے ایک جہان کو اپنا مرید و متبع بنالیا۔ خواجہ صاحب کی زندگی کے اس اہم پیغام کو آج اُس سے کہیں زیادہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندستان میں اور پوری دنیا میں جہاں جہاں ان کے ماننے والے اور عقیدت مند موجود ہیں ، ان پر لازم ہے کہ وہ بغیر کسی مادی منفعت کے خدمت خلق کا فریضہ انجام دیں ۔ سوشل ورک کے اس نظام کے ذریعے وہ نہ صرف یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکیں گے، بل کہ خواجہ صاحب کی طرح اشاعت اسلام کی عظیم خدمت بھی بڑی آسانی کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔

(4) خواجہ اجمیری کی زندگی کا یکسر فراموش کردہ پیغام دعوت اسلامی بھی ہے۔ ان کی عوامی خدمات نام و نمود یا کسی اور مقصد کی وجہ سے نہیں تھیں ، بل کہ ہر چیز کا مقصد کلمۂ توحید کی اشاعت اور اسلام کے پیغام کو عام کرنا ہوتا تھا۔ قرآنی تعلیم اور اسوۂ رسول کے مطابق وہ جبر و اکراہ سے مکمل گریز کرتے تھے ، لیکن ہرعمل سے اسلام کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گنت لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ صرف ایک سفر میں جب وہ دہلی سے اجمیر جارہے تھے، راستے میں سات سو ہندوئوں کو مسلمان کیا۔(بزم صوفیہ از سید صباح الدین عبدالرحمن، ص68)

ظاہر سی بات ہے کہ مسلمان ہونے والے ان سات سو افراد میں سے کچھ صرف ان کے اخلاق دیکھ کر متاثر ہوئے ہوں گے اور کچھ ان کی زبانی دعوت سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ عہدحاضر میں بالخصوص ہندستان کے اندر خواجۂ اجمیر کی زندگی کے اس ناقابل فراموش پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہندستانی مسلمانوں فرض ہے کہ وہ صحیح بنیادوں پر، نام و نمود اور شہرت و پروپیگنڈے سے بچتے ہوئے، صرف اﷲ کے لیے دعوتِ اسلام کے لیے تیار ہوں ۔

مذکورہ بالا چار چیزیں حضررت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی شخصیت اور تعلیمات کا نچوڑ بھی ہیں اور مسلمانوں کی انتہائی اہم ضرورت بھی۔ وقت آگیا ہے کہ خواجہ صاحب کے پیغام کو عملی طور پر اختیار کرکے ان کے پیغام کی آفاقیت کو بھی واضح کیا جائے اور ان سے حقیقی محبت کا ثبوت دیا جائے۔ خواجۂ اجمیر کی مبارک روح گویا کہہ رہی ہے:

مجھے لمحے نہیں صدیاں سنیں گی

سلامت تم مری آواز رکھنا

تبصرے بند ہیں۔