خود احتسابی کا فقدان

وصیل خان

ایک اچھا معاشرہ خوش اخلاق، خوش فکر اور صالح انسانوں کے درمیان ہی وجود میں آتا ہے اور اچھا انسان اچھی پرورش اور نگہداشت سے تشکیل پاتا ہے اور ہر انسان کی پرورش اس کے گھر سے شروع ہوتی ہے، اس لئے ہر گھر اور خاندان کےہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنےگھروں میں تعلیم و تہذیب اور تربیت کا ماحول پیدا کریں۔ جس طرح چکی کے دوپاٹ ایک دوسرے سے مل کر ہی اناج پیسنے کے لائق بنتے ہیں اسی طرح والدین باہمی ربط اور تال میل کے ذریعےبچوں کی تربیت کی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا کرسکتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی اگر کمزور پڑا تو سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ مرد کی ذمہ داری عموماً گھر کے باہرکی ہوتی ہے وہ محنت و مشقت جھیل کر افراد خانہ کی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے اسباب مہیاکرتا ہےجبکہ عورت کی ذمہ داری گھر کے اندرکی ہوتی ہے، اس کے کاندھوں پرگھریلو ضرورتوں کے ساتھ بچوں کی تربیت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔

 اس طرح  مردو عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیئےہوتے اور گاڑی کا سارا دارومدار انہی پہیوں پر ہوتا ہےاگر ان میں ذرا بھی خرابی یا کمزوری آئی تو زندگی کی یہ گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ایسابھی نہیں ہونا چاہیئے کہ مرد اپنی خارجی مصروفیتوں میں اتنا محو ہوجائے کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ چل سکے کہ گھر کے اندر کیا ہورہا ہے اور عورت اپنی داخلی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہوئے دوسرے غیر ضروری امور کی انجام دہی میں اپنے فرائض سے غافل ہوجائےاگرایسا ہوا تو یقینا ً زندگی کی گاڑی حادثے کا شکار ہوسکتی ہے اس لئے دونوں کو ہی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ خاتو ن خانہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی درست طور پر پرورش کرے اور ان کے اندر اسلامی تہذیب اور دینی و اخلاقی مزاج پیدا کرے ساتھ ہی ان کے لئے ایسی تعلیم کا انتظام کرے جو انہیں صالح انسان بنانے میں معاون ہو۔ چونکہ ماں کی گود بچوں کیلئے اولین درسگاہ ہوتی ہے۔یہاں سے وہ جو بھی سیکھتا اور سمجھتا ہے اور جس نہج پر اس کی پرورش و پرداخت ہوتی ہے اس کا اثر زندگی بھر قائم رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی فطری تربیت پر قائم رہتا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے،جن بچوں کی دادیاں اور نانیاں بھوت پریت اور چڑیلوں کے قصے سناتی تھیں (بدقسمتی سے اب وہ روایت بھی ٹوٹ چکی ہے)  ان کے تعلق سے یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ بچے جوانی سے بڑھاپے تک خوف و دہشت کی نفسیات کا شکار رہتے ہیں، اس کے برعکس جن بچوں کو شجاعان عالم کے واقعات سنائے جاتے ہیں ان کے اندر ہمت و استقلال پیدا ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی نڈر اور بے خوف رہتے ہیں۔

 لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہےاور گاڑی کے یہ دونوں پہیئے کمزور ثابت ہورہے ہیں۔ والدین بچوں کی پرورش سے پور ی طرح غافل ہوگئے ہیں وہ انہیں نہ تو وقت دے پاتے ہیں نہ ہی ان پر نظر رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ کیا پڑھ رہا ہے، کس طرح زندگی گزار رہا ہے، اس کی سرگرمیاں کیا ہیں، کس کس سے مل رہا ہے او ر کن لوگوں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے، انہیں نہ تو اس کی خبر ہوتی ہے نہ ہی وہ کوئی خبر رکھنا چاہتے ہیں۔

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ہم انسان نہیں جانوروں کا ریوڑ تیارکر رہے ہیں ظاہر ہے جانوروں سے اخلاق، ڈسپلن اور پرامن معاشرے کی تشکیل کی تو قع ہی فضول ہے اور نئی نسل اپنی تہذیب اور اسلامی مزاج سے نا آشنا اورشریعت سے دوربلکہ بہت دور ہوتی جارہی ہے اور معاشرہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اور ہم صرف اور صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ کیا ہم یہ نہیں چاہتے کہ معاشرے سے یہ خرابیاں دور ہوں اور ہمارا وجود دوسروں کیلئے رحمت ثابت ہو کیا ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آج پورے ملک میں ہم بے وزنی کا شکار ہیں اور ہمارے وجود کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ ہماری شناخت ایک جھگڑالو قوم کی بنتی جارہی ہے۔

 آج ہماری کم و بیش یہی کیفیت ہے یا بنادی گئی ہےلیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم اس کیفیت سےنکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ گذشتہ دنوں ہمارے ایک عزیز واشی سے بغرض ملاقات آئے، انہوں نے اپنی بائیک ایک کالونی کی دیوار سے لگادی تبھی کالونی کے واچ مین نے اعتراض کیا کہ یہاں پارکنگ نہ کریں اور بائیک ہٹالیں ، انہوں نے کہا کہ بس صرف پانچ منٹ کی مہلت دے دیجئے میں بس ملاقا ت کرکےجانے والاہوں، لیکن واچ مین بضد تھا کہ نہیں صاحب یہاں سے بائیک ہٹالیں، آخر وجہ کیا ہے  انہوں نے استفسارکیا  تو کہنے لگا آپ لوگ بہت جلدی اور ذرا سی بات پر غصہ ہو جاتے ہیں اور پھر گالم گلوچ کے ساتھ مار پیٹ پر اتر آتے ہیں ۔ کچھ سوچا آپ نے لوگوں کے درمیان ہماری شبیہ کس طرح کی بن گئی ہے یا بنادی گئی ہےاورہم اس تعلق سے سوچنے کی ضرورت بھی نہیں محسوس کرتے۔

گذشتہ دنوں ایک واقعہ ہمارے ہی سامنے ہیش آیا۔ ایک پیر صاحب ریلوے اسٹیشن کی بھیڑ میں مریدین کے ساتھ کہیں جارہے تھے، مریدین ان کے گرد  حلقہ بنائے ہوئے اس طرح چل رہے تھے کہ دوسرے راہ گیروں کو آنے جانے میں تکلیف ہورہی تھی، ایک صاحب کچھ زیادہ ہی عجلت میں تھے ان سے التجائیہ انداز میں کہنے لگے کہ آپ لوگ ایک طرف ہوکے چلیں اورمجھے نکل جانے دیں میرے پاس کچھ دوائیں ہیں جس کی ایک جاں بہ لب مریض کوسخت ضرورت  ہے۔یہ ایک معقول درخواست تھی لیکن مریدین نے ان سنی کردی وہ بار بار التجا کرتے رہے لیکن انہیں راستہ نہ مل سکا اس کے برعکس مریدین طیش میں آگئے اور اس شخص سے بدتمیزی کرنے لگے، اس نے کہا کہ آپ  لوگ  داڑھی رکھے ہوئے ہیں اور شریف لو گ ہیں آپ سے ایسی توقع نہیں تھی لیکن وہ لوگ اور بھی بپھر گئے اور یہ کہتے ہوئے گالیاں دینے لگے کہ تم ہماری داڑھی کامذاق اڑاتےہو کافر کہیں کے اور پھر اتنا مشتعل ہوئے کہ اسے لہو لہان کردیا۔

کیا اسلام نے ہمیں اسی طرز معاشرت کی تعلیم دی ہے، کیا ہمارے اس عمل سے اسلام کی شبیہ اچھی ہوسکتی ہے، اسلام نے ہمیں امن و سلامتی کا امین بنایا ہے لیکن ہم یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں سے کیوں اتارے ڈال رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنے موجودہ طرز عمل میں کچھ ترمیم کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی، اٹھیئے اور اس صورتحال کو بدلنے کیلئے پوری ذمہ داری سے آگے آیئے اور یہ عہد کیجئے کہ اب اپنے بچوں کیلئے وقت نکالیں گے ان پر نظر رکھیں گے اور ان کے اندر دینی مزاج کی تشکیل کریں گےاور اپنے کردار و عمل کی روشنی سے سارے معاشرے کو روشن و منور کردیں گے۔زمانہ بہت بے چین و مضطرب ہےاس کا مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔

 یہ اپنی تنگ ظرفی ہے کہ ہم خود بھی نہیں اپنے 

   زمانہ اپنا ہوجاتا اگر آغوش وا کرتے

تبصرے بند ہیں۔