کانگریس مکت بھارت کی طرف ایک اور قدم

ڈاکٹر عابد الرحمن

 بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کے اپنے مشن کی طرف ایک اور کامیاب قدم بڑھا دیا ہے، یہ بات الگ کہ وہ خود بھی اتنی تعداد سے کامیاب نہیں ہو پائی کہ حکومت بنا سکے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ کانگریس سے اقتدار چھین کر خود مقتدر ہونے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں اور اگر کامیاب ہو تی ہے تو کس طرح ؟ حالانکہ کرناٹک ایسی ریاست ہے جو کبھی بھی بر سر اقتدار پارٹی کو دوبارہ منتخب نہیں کرتی، کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسی منظر نامے کا حصہ ہے لیکن یہ کوئی عذر نہیں ہے کیونکہ اس منظر نامے میں کرناٹک کے لوگوں نے کانگریس کے مقابلے جے ڈی ایس کو نہیں چنا بلکہ اس پارٹی کو چنا جوہر انتخاب کانگریس مکت بھارت کے نعرے کے ساتھ لڑ رہی ہے،یعنی جو کچھ بھی ہوا کانگریس کی ہار ہی ہے۔

ایسی بھی خبریں ہیں کہ کانگریس کے خلاف جے ڈی ایس اور بی جے پی میں کچھ سمجھ بوجھ بن گئی تھی جس کے تحت ناقابل فتح نشستوں پر بی جے پی نے اپنے ووٹ جے ڈی ایس کو ٹرانسفر کروائے یہی کام کانگریس بھی کر سکتی تھی لیکن صاحب اسے کسی کی حصہ داری کہاں قبول ہے؟ ووٹنگ فیصد کے اعتبار سے کانگریس کو بی جے پی کے مقابلہ دو فیصدزیادہ ووٹ ملے لیکن یہ بڑھا ہوا ووٹنگ فیصد سیٹیوں میں تبدیل نہیں ہوسکا۔ بہر حال جو کچھ بھی ہوا جیسا بھی ہوا اس کا نتیجہ یہی ہے کہ کرناٹک میں کانگریس ہارگئی ہے اور بی جے پی جیتی ہے۔

اخباری تجزیوں  کے مطابق کرناٹک میں کانگریس حکومت کا کام اچھا تھا اور لوگوں میں بھی اس سے کوئی خاص ناراضگی اور غصہ نہیں تھا اور اس کے برخلاف مودی جی اور بی جے پی کے پاس ترقی گڈ گورننس اور کرپشن کے خلاف اپنے بڑ بولے دعووں اور وعدوں کا کوئی عملہ ثبوت نہیں تھاپھر بھی وہ اگر جیتنے میں نہیں تو کم از کم کانگریس کو شکست دینے میں تو ضرور کامیاب نظر آرہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کانگریس اس لئے ہاری کہ اس نے شروعات سے مسلم ووٹوں کے حصول کے لئے جس جارحانہ ہندوتوا سیاست کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی وہ سیاست اب خود اسی کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے اور اب تو ڈائنا سور کی طرح اتنی قوی ہو گئی ہے کہ موقع ملتے ہی اسے نگلی جارہی ہے۔

پہلے تو اس سیاست نے ہورے ملک کو مسلمانوں کا دشمن کیا اور اب کانگریس کو مسلمانوں سے جوڑ کر اسے ملک کے سیاسی منظر نامے سے مٹادینے کا تہیہ کرلیا ہے اور اس میں مسلسل کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ اس سے بچنے کے لئے کانگریس نے مسلمانوں سے دوری بنالی ہے اوراپنے آپ کو اسی ہندوتوا سیاست سے جوڑنے کے لئے راہل گاندھی مندروں مٹھوں کے دورے کر رہے ہیں سوامیوں سے آشیرواد لیتے پھر رہے ہیں لیکن اس سیاست کی ماہر بی جے پی ان کی ساری چالوں کوبہت کامیابی کے ساتھ نہ صرف بے اثر کر رہی ہے بلکہ خودانہی کے منھ پر دے مار رہی ہے۔

اس الیکشن میں عام طور پر بی جے پی نے ترقی کا ہی شور مچایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی جیت ہندوتوا کی مسلم مخالف فرقہ وارانہ سیاست ہی کی مرہون منت ہے۔ حالانکہ اس بار مودی جی نے شمسان اور قبرستان کے نام کوئی ہندو مسلم فرقہ واریت نہیں کی ان کی انتخابی تقریریں کرناٹک میں ترقی کی کمی یا پسماندگی، کرپشن اور کانگریس کی خاندانی سیاست ہی کے ارد گرد گھومتی رہیں لیکن اس ضمن میں انکے پاس کام کا کوئی عملی ثبوت نہیں ہے، ترقی کے جتنے وعدے انہوں نے کئے تھے وہ سب جملے ثابت ہو چکے ہیں، کرپشن کے خلاف ان کی منافقت تو خود کرناٹک میں ہی اسی وقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی جب یدیورپا اور ریڈی برادرس کو انہوں نے بی جے پی میں مرکزی حیثیت دی، سو انہیں کسی ایسی چٹپٹی چیز کی ضرورت تھی جس کے چٹخاروں میں لوگ ان کے ترقی کے دعووں اور وعدوں اور کرپشن مخالفت کی منافقت کو بھول جائیں سوانہوں نے تاریخی حقائق کو جھٹلاکر اپنا کام نکالا۔ حالانکہ ان کی جھوٹی باتیں کو پکڑی گئیں، میڈیا اور سوشل میٖڈیا پرخوب لے دے مچی لیکن تیر کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آیا کرتا، مودی جی تو جواب دینے صفائی دینے یا معافی مانگنے سے رہے لیکن مودی بھکت تو لوگوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ مودی جی کو جھوٹا بولنے والے نہ صرف مودی جی بلکہ ہندوؤں کے دشمن ہیں اور یہی نہیں بلکہ ہندوؤں کے مقابلہ مسلمانوں کی حمایت کر نے والے ہیں، اور یہ بات تو اچھے اچھوں، پڑھے لکھوں اور سمجھداروں کو بھی پھانسنے کے لئے کافی ہے۔

مودی جی کے علاوہ بی جے پی کے دوسرے اسٹار پرچارک یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ تھے جنہوں نے ہندوتوا سیاست کا پرچار اپنے روایتی جارحانہ انداز میں کیااور بیف بند کر نے کا چیلنج کر کے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا کے ہندو ہونے کو ہی چیلنج کرڈالا اس کے علاوہ رام راجیہ کے قیام کے وعدے سے لے کر ٹیپو بمقابلہ ہنومان تک کا مرچ مسالا ڈال کر مودی جی کی ترقی کی کالی دال کو مسلم مخالف فرقہ واریت کاخوب تڑکا دیا، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کے بہانے جو تنازع کھڑا کیا گیا تھا اسنے بھی اس جلی میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ اور اس طرح بی جے پی کل ۱۰۴ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔

حالانکہ یہ تعداد حکومت سازی کے لئے درکار تعداد سے کم ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کانگریس کی ہار اور کانگریس مکت بھارت کی سمت بی جے پی کی پیش رفت ہے۔ کانگریس نے کرناٹک کی ہار سے سبق لیتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کے لئے جے ڈی ایس کی بلا شرط حمایت کا اعلان اور اس کے لیڈر کمارا سوامی کو وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کر دیا ہے، اگر یہ سیاسی چال کامیاب ہوجاتی ہے تو بھی اس سے کیا ہوگاصرف یہی کہ بی جے پی جیت کر بھی اقتدار سے بے دخل ہی رہے گی، لیکن کیا یہ کانگریس مکت بھارت کی نفی ہوسکے گا؟

نہیں بلکہ ووٹرس میں کانگریس کے خلاف منفی پیغام جاسکتا ہے اور عوام کے ساتھ دھوکا دھڑی کے الزام کا ایک نیا ہتھیار بھی بی جے پی کے ہاتھ آ سکتا ہے۔ ہاں کانگریس اگر انتخابات سے پہلے ہی اپنی حقیقی حالت کا ادراک کر لیتی اور جے ڈی ایس سے مل کر انتخابات لڑتی تو اقتدار میں برابر کی شریک ہو سکتی تھی اور کانگریس مکت بھارت کی طرف بی جے پی کی پیش قدمی کو روک سکتی تھی۔ لیکن اس کے غرور نے اسے ایسا نہیں کر نے دیا اور اب کرناٹک کے بعد وہ کسی متحد حزب اختلاف کی قیادت کے قابل بھی نہیں رہی۔ اگر آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگریس اسی جھوٹے غرور میں مبتلاء رہی اور علاقائی پارٹیوں کی اہمیت کے اعتبار سے انہیں حصہ داری اور لیڈر شپ نہیں دی تو اندیشہ ہے کہ وہ کسی علاقائی پارٹی کی اوقات میں بھی نہیں رہے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔