خود کشی ایک سماجی ناسور

ہر انسان کو زندگی عزیز ہوتی ہے۔ دنیا مین شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو زندگی کو پسند نہ کرے ۔لیکن دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں تو زندہ نہیں ہوتے البتہ سانس لے رہے ہوتے ہیں ۔بسا اوقات چھوٹی سی محرومی ہی ان لوگوں کی زندگی کے مقاصد کی نفی کرتی دکھائی دیتی ہے اور کبھی وہ خدو دنیاوی الجھنوں سے گھبرا کر اپنے عزیز و اقارب سے منہ پھیر کر ایسی جگہ جانے کا ارادہ کر لیتے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ اس عمل کو اہل علم خودکشی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

خود کشی ایک ایسا انسانی فعل ہے جس میں انسان خود اپنے ہاتھوں ،اپنے ارادہ سے اپنی جان گنوا تا ہے ۔اس میں مرنے والے کے ارادہ کا مکمل دخل ہوتا ہے اور وہ خود ہی اس عمل کے انجام دہی کے لیے راستہ اختیار کرتا ہے ۔اس کا تعلق انسان کے اندرون سے ہے ۔انسان کے اندرونی ،ذہنی ،قلبی ،جذباتی اور سوچنے کی کیفیت اس کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی زندگی کا خاتمہ خود ہی کر بیٹھتا ہے۔ گویا اندر رہنے والی ’غیر مادی ‘ چیز ہی تو اصل انسان ہے اور انسانیت کا جوہر ہے۔ اس کے ہونے ہی سے سب کچھ ہے اور روح بھی اسی کا نام ہے ۔ یہ جسم بلکہ ساری کائنات اسی اندرونی انسان کی خدمت پر ما مور ہیں ۔وہ اندرونی انسان جس کا نام نفس بھی ہے، یہی دراصل انسان کو خودکشی کے اقدام پر مجبور کرتا ہے۔
انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک مختلف ادوار سے گزرتا ہے ۔کبھی خوشیاں اس کی جھولی میں رقص کرتی ہیں تو کبھی اس کا دامن آنسؤں سے بھرا ہوتا ہے اور بسا اوقات انسان پر اتنا ذیادہ دباؤ پڑتا ہے کہ وہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور وہ شخص بس اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور بعض اوقات وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے ۔
حالات ہر دور میں مختلف ہوسکتے ہیں ،مثلاً ،چھوٹی عمر میں والد ین کی وفات کا صدمہ ،جوانی میں کسی عزیز کی مستقل جدائی، مستقل بیماری ،بے روزگاری ،نشے کی لت منتشر خیالات کی مسلسل یلغار وغیرہ ،یہ تمام ایسے عوامل ہیں جو انسان کی زندگی میں کسی بھی وقت زہر گھول سکتے ہیں اور ایسے وقت میں اگر انسان کے پاس اچھے دوست یا قابلِ اعتماد عزیز و اقارب کا بحران ہو تو ایسے میں اسے خود کشی ہی واحد حل دکھائی دیتی ہے۔
طلبہ میں خود کشی
ہندوستان میں طلبہ میں خودکشی کرنے کی روایت بھی بہت پرانی ہے ۔معشرے میں بہترین مقام ،کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلے اور اسی طرح کے دیگر خوابوں کی تعبیر میں طلبہ کو اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پھر امتحان میں اچھے نمبرات سے کام یاب ہونا اور اپنے ساتھیوں سے بہترین کارکردگی ،مزید ذہنی داؤ کا باعث بنتی ہے ۔اور بسا اوقات کام یاب ہونے کا دباؤ اور ناکامی کا خوف اتنا ذیادہ ہوتا ہے کہ اس کا انجام پر ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ میں بم دھماکوں ،زلزلے ،اور دیگر واقعات سے ذیادہ امتحانات کا خوف ہوتا ہے ۔تین کروڑ چالیس لاکھ ،والی آبادی والے ہمارے ملک میں اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے طلبہ کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کامی یابی نہ ملنے کی صورت میں زندگی کا خاتمہ ہی واحد راستہ نظر آتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں طلبہ میں خودکشی کے رجحانات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ہمارے ملک میں 2006 ء میں 857،5 نے خود کشی کی ،جس کے مختلف وجوہات بتائے جاتے ہیں اور ان میں ایک بڑی وجہ امتحان میں ناکامی بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں ایسے واقعات ہیں جن کا تحریری رکاتڈ موجود نہیں ہے اور ان واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
کسانوں میں خودکشی
ہندوستان میں 60 ؂ فی صد لوگوں کا گذر بسرکاشت کاری پر منحصر ہے ۔ان کسانوں ہی کی پیدا شدہ غلہ سے بقیہ چالیس فی صد لوگ بھی استفادہ کرتے ہیں او ر وہ لوگ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ جس غلہ کو کھا کروہ ڈکار مارتے ہیں ، کسان وہ غلہ کتنی محنت سے اگاتا ہے ؟ اس غلہ کو دوسرے لوگ ساھو کار سے مہنگے سے مہنگی قیمت میں خرید بھی کھا لیتے ہیں لیکن ایک کسان اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی اس کے زریعہ پورا کرنے سے محروم رہتا ہے اور تنگ دستی اور مفلسی سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالہ کر دیتا ہے۔
این۔سی ۔آر۔بی (نیشنل کرائم رکارڈ بیورو)کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 46؂ کسان یومیہ خود کشی کرتے ہیں ۔1995ء سے 2013 تک ،یعنی کل اٹھارہ سالوں میں 295438 کسانوں نے خود کشی کی ہے ۔ہندوستان کی خود کشی کی کل شرح میں 2.11 فی صد کسانوں کی ہے۔
ہندوستان میں نیشنل کرائم رکارڈ بیورو کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2009 ؁ ء میں تقریباً ساڑھے سترہ ہزار کسانوں نے خود کشی کی ۔ملک کی جن ریاستوں میں سب سے ذیادفہ کسانوں نے خود کشی کی ہے اس میں مہاراشٹرا،کرناٹک ،آندھرا پردیش اور چھتیس گھڑھ سب سے اوپر ہیں۔گدشتہ دس برسوں میںں کسانوں کی خودکشی کا جو ریکارڈ جمع کیا گیا ہے اس مین اب تک سب سے آگے ریاست مہاراشٹرا ہے۔
اس سال کرناٹک میں 2282،کسانوں نے اپنی جان لی جبکہ مغربی بنگال میں 1054،راجستھان میں 851،اتر پردیش میں 656، گجرات میں 588،اور ہریانہ میں 230 کسانوں نے خود کشی کی ہے ۔(بی ۔بی۔سی اردو 28؍ دسمبر 2010 ء)
کسانوں کے اس خطرناک قدم اٹھانے کے پیچھے مختلف وجوہات بیان کیے جاتے ہیں ۔مثلاً، مانسون کی آنکھ مچولی ،قرض کا بوجھ ،تباہ شدہ فصلیں ،حکومت کی پالیسیاں اور ذاتی اور خاندانی مسائل وغیرہ ۔
اسبا ب و وجوہات
خودکشی کے موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہوئے یہاں یہ بات مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ موت کی وجہ نہین ہے بلکہ موت کا ذریعہ یا موت حاصل کرنے کا طریقہ ہے ۔لوگ خود کو موت کے حوالے کرنے کے لیے مختلف حربوں کا استعمال کرتے ہیں ۔کوئی بہتے دریا میں چھلانگ لگاتا ہے کوئی زہریلی دوائیوں کا استعمال کرتا ہے ،کوئی کنپٹی پر پستول رکھ کر ٹریگر کو دبانا پسند کرتا ہے اور بہت سے لوگ ٹرین کے نیچے آکر مرنا پسند کرتے ہیں ۔عورتوں میں زیادہ تر مٹی کا تیل چڑھک کر آگ لگانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
*خود کشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی دوری ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں دال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے ۔جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہو جاتے ہیں وہ خود کشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ و برباد کر لیتے ہیں ۔انسان کو اللہ پر مکمل بھروسہ ہونا چاہئیے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ سب تکلیفوں اور مصیبتوں کو ختم کرنے والی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قبیح فعل کو انجام نہیں دینا چاہئیے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے ۔
انسان کا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی امانت ہے ۔زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس لیے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افراد کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں خود کشیsuicide))کے مرتکب نہ ہوں ۔ آپﷺ نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کو مرتکب کو دوزخ کے دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے ۔
* خودکشی کی ایک دوسری بڑی وجہ نفسیاتی مسائل ہیں ۔جوں جوں انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے نفسیاتی مسائل میں اسی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔اور ان مسائل کی سب سے بڑی وجہ میڈیا ہے ۔T.V پر دکھایا جانے والا تقریباً ہر پروگرام ،سیریل ، ڈرامہ،فلمیں یہاں تک کارٹونتک میں محبت ،با الخصوص مرد اور عورت کی محبت کے ارد گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کا سب سے ذیادہ اثر نوجوانوں پر پڑتا ہے ۔اور پھر ان کے دل و دماغ میں ان ساری چیزوں کاایسا خمار چھا جاتا ہے کہ وہ محبت کو اپنی زندگی کے کئی اہم مقاصد سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں ۔وہ لوگ پروگرام کے ان مصنوعی کرداروں کو اپنی حقیقی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات جب اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی نظر آنے لگتی ہے تو مایوسی ان پر پوری طور سے حاوی ہو جاتی ہے ۔نتیجتاً وہ ایسے خطرناک فعل کو دے دیتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتااور ان کا یہ کارنامہ والدین اور اعزاء و اقرباء کے لیے پوری عمر کا پچھتاوا بن جاتا ہے اور اس کا مداوا ممکن نہیں ہوتا ۔
*اس کی تیسری بڑی وجہ والدین کی جانب سے اولاد کی تربیت میں لاپرواہی ہے ۔والدین کی تربیت اپنی اولاد کے لیے لازمی حیثیت کی حامل ہیں ۔والدین کو اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کرنی چاہئیے کہ وہ اپنا ہر مسئلہ ،سوچ ان سے شئیر کر سکیں اور اپنے ہر مسئلہ میں ان سے رائے لیں ۔پھر والدین کو بھی اپنی اولاد کے احساسات و جذبات کا احترام کرنا بھی ضروری ہے ،کیوں کہ بسا اوقت ان کی طرف سے سختی اور لاپرواہی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی ہے ۔اس طرح وہ لوگ نفسیاتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں اور انتہای قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
* اس کی ایک اور وجہ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی ہے ۔اس نے جہاں ہمارے رشتوں میں دوریاں پیدا کردی ہیں وہیں والدین کو بھی اس حد تک مصروف کر دیا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے سے کوسوں دور کسی دوسرے شخص کے لیے تو پریشان ہیں البتہ وہ اپنے ہی گھر میں بسنے والے افراد کی حالت سے ناواقف ہیں۔
اس کے علاوہ اولاد میں باغیانہ خیالات کی ایک بہت بڑی وجہ والدین کا حد سے زیادہ لاڈ پیار اور حد سے زیادہ سختی بھی ہے ۔ دونوں ہی صورتیں نقصان کا باعث بنتی ہیں اور والدین اور اولاد کے درمیان حدفاصل قائم کر دیتی ہیں ۔حد سے زیادہ لاڈ پیار انسان کو بدتمیز اور ضدی بنا دیتا ہے اور وہیں بے جا سختی بد ظنی کا شکار بنا دیتی ہے۔کچھ لوگ اپنی اولاد کو شک کی نگاہ سے اور کچھ کا خوف بہت حاوی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بہت سے کام چوری چھپے کرنے لگتے ہیں اور ان کے والدین کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کس ڈگر پر چل رہی ہے؟
مندرجہ بالانکات کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اسباب و وجوہات ہیں جو خودکشی کا سبب بنتے ہیں ۔مثلاً مقصد کے حصول میں ناکامی (محبت میں ،مطلوبہ مقام پر شادی نہ ہونا ،امتحان میں فیل ہوجانا )،گھریلو جھگڑے (اولاد اور والدین ،شوہر بیوی ،ساس بہو،اور بھابھی نند کے جھگڑے وغیرہ)،غربت و تنگ دستی قرض کی ادئیگی ،(اولاد خاص کر بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ) ،بے روزگاری ،بیماری ، بدنامی کا خوف (مثلاً کسی پوشیدہ گناہ کا آشکار ہو جانے کا خوف)،جانی و مالی نقصان(کاروبار تباہ ہو جانا،بہت ہی عزیز شخص کا انتقال کر جانا) وغیرہ وغیرہ۔
خودکشی کے دنیاوی نقصانات
خودکشی کرنے والا شخص خود تو اپنی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتا ہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے عزیز و اقارب کو جن ذہنی اذیتوں میں کر جاتا ہے وہ تکالیف بھی کچھ کم نہیں ۔اگر خودکشی کرنے والا شخص اس بات پر غور کرلے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہلِ خانہ کن مصائب سے دوچار ہوں گے تو شاید وہ اپنے ارادہ کو ترک کر دے اور زندہ رہنے کو ترجیح دے ۔دالدین، اولاد ،شوہر،بیوی، دوست و احباب سبھی خود کو شرمندہ اور بسا اوقات مجرم خیال کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ مندرج ذیل اثرات عزیز و اقارب پر مر تب ہو سکتے ہیں:
اول۔ کسی عزیز کو اچانک ہمیشہ کے لیے کھو دینا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ہر عزیز کو بڑی شدت سے اس کا ایک طویل مدت تک اس کا احساس رہے گا۔
دوم۔ اگر خودکشی کرنے والا شخص شادی شدہ ہوتا ہے تو اس کے بیوی بچے بے سہارا ہو جاتے ہیں۔
سوم ۔پسماندگان کے لیے ہر سوال کرنے والے کے سامنے وجوہات بیان کرنا بہت اذیت ناک امر ہوتا ہے۔
اور سب سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب خودکشی کرنے والے شخص کی اولاد جوان ہو اور وہ خود کشی کر لے اور غیر شادی شدہ لڑکوں یا لڑکیوں کے لیے رشتوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔
مرنے والے کے رشتہ داروں یا خاندان والوں کے علاوہ معاشرتی روابط پر بھی اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے اور بعض حساس قریبی تعلق رکھنے والے نہ جانے کب تک شرمندہ رہیں گے کہ معلوم نہیں ایسی کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ان کا عزیز انتہائی ناراض ہو کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر گیا ۔ (خود کشی ،ایک مکمل مطالعہ ،انعام الرحمن سحری ،ص،64)
عالمی صورتِ حال
W.H.O (وولڈ ہیلتھ اور گا نائزیشن )کی رپورٹ کے حساب سے تقریباً ہر سال پوری دنیا میں8( آٹھ )لاکھ ذیادہ لوگ خود کشی کرتے ہیں ۔ عالمی سطح میں خودکشی کی شرح میں سرِ فہرست لیتھو یانیا،گیانا،ساؤ تھ کوریا، سری لنکا ،قزاخستان،سلو وینیا،ہنگری ، جاپان،لتھاویا،بیلا رس اور ہندوستان شامل ہیں۔
عالمی سطح پر خود کشی کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جو ممالک آگے ہیں ان میں زیادہ تر یورپی ممالک ہیں اور یوروپین یونین بھی اس میں شامل ہیں ۔ان مملک میں سیکو لر اور اور لبرل نظام قائم ہے ،جہاں ہر قسم کی ’شخصی ‘آزادی ہے۔عورت ،مرد،نوجوان،بوڑھے اور بچے تمام کے تمام آزاد ہیں یہاں تک کہ مذہب اور اس کی پابندیوں کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ ان ترقی یافتہ اور آج کے مطالبات کے مطابق تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک میں ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
خود کشی کی شرح میں جو ممالک آگے ہیں وہ غریب نہیں بلکہ خوش حال ہیں ۔یہاں غور کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ سرِ فہرست 12؂ مملک میں سے ایک ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے ۔جاپان میں خودکشی پر کوئی پابندی نہیں ہے ،یہاں خودکشی کو ایک مقدس اور اور دلیرانہ عمل سمجھا جاتا ہے ۔جاپانی شہری معمولی باتوں پر اپنی جان لے لیتے ہیں۔ 2006ء تک جاپان خودکشی کے واقعات کی تعداد کے حوالے سے ایشیائے ممالک میں اول مقام پر تھا،لیکن بعد میں جنوبی کوریااسے پیچھے چھوڑ کر اول مقام پر آگیا۔

ہندوستانی صورتِ حال
خبروں کے مطابق، ہندوستان میں گدشتہ سال ہر گھنٹہ میں تقریباً 15 افراد نے خود کشی کی ۔اسی طرح 31.1 لاکھ سے زائد افراد نے اپنی زندگی گنوادی ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہاراشٹرا اس معاملے میں سرِ فہرست رہا جب کہ شہروں میں چنئی آگے تھا ۔نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو نے یہ تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 7.69 فیصد افراد جنہوں نے خودکشی کی ان کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپۂ سے بھی کم تھی ۔جب کہ ہر 6 افراد میں ایک جس نے خود کشی کی وہ گھریلو خاتون تھی ۔سال 2014 ؁ ء مین مہارشٹرا میں 307،16،تمل ناڈو میں 122،16 اور مغربی بنگال میں 310،14خود کشی کے واقعات پیش آئے .
میگا سٹیز میں چنئی میں سب سے ذیادہ 214،2 جبکہ بنگلور میں 1906 اور دہلی میں 1847 خودکشی کے واقعات پیش آئے. خبروں کے مطابق ،ہندوستان 2014 ؁ ء میں ہر گھنٹہ میں تقریبا 15 افراد نے خود کشی کی ہے ۔اسی طرح 31.1 لاکھ سء زائد افراد نے اپنی زندگی گنوادی۔
اسی طرح خود کشی کے معاملے میں مرد اور خواتین کی شرح با لترتیب 68 اور 32 فیصد رہی خود کشی کی نوعیت کے بارے میں بتایا گیا کہ 8۔41 فیصد نے پھانسی سے اور 26 فیصد نے زہر کا استعمال کرتے ہوئے خود کشی کی ،جبکہ 9.6 فیصد نے خود سوزی اور 6.5 نے پانی میں کود کر اور 1.1 نے فیصد نے عمارت سے چھلانگ لگا کر یا ٹرین کے نیچے آکر انتہائی قدم اٹھائے ۔(سچ ٹائمز ،20 ؍ جولائی 2015 ء )
اسلامی نقطۂ نظر
اسلام اپنی تعلیمات ،افکار اور نظریات کے لحاظ سے کلیتاً امن وسلامتی ،خیر وعافیت اور حفظ و امان کا دین ہے ۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک مسلمان اور اور مومن صرف وہی ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لیے پیکرِ امن و سلامتی اور باعثِ خیر و عافیت ہو بلکہ وہ امن و آشتی ،تحمل و برداشت اور احترامِ انسانیت سے بھی متصف ہو ۔
اسلام میں کسی انسانی جان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے فرد کو ناحق قتل کر دیا ،تو اسلام نے اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے ۔خود کشی کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے اور اس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے ۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی زاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے دی ہوئی امانت ہیں اور اس میں خیانت کرنے والا آخرت میں خدا کے حضور جواب دہ ہوگا ۔
اس دنیا میں کوئی بھی واقعہ اتفاق سے پیش نہیں آتا ،بلکہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔اور جس وقت چاہتا ہے ٹھیک اسی وقت ہوتا ہے ۔اور اس میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں ہوتی ۔خدا کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے جنبش نہیں کر سکتا ۔آئیے اب قرآن اور احادیث کے دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہ فعل اسلام میں کیوں حرام ہے؟
قرآن میں خودکشی کی حرمت
زندگی اور موت کا حقیقی مالک اللہ تبارک و تعالی ہے ۔جس طرح بلا وجہ کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ،اسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلا وجہ ہلاکت میں ڈالنا بھی اللہ تعالی کے یہاں ناپسندیدہ ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
’’وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (البقرہ:195)
(اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو،احسان کا طریقہ اختیار کرو اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے )
امام بغوی نے معالم التنزیل(جلد ،1:418)یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد کسی مسلمان کا خود کشی کرنا ہے ۔ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً۔وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً ‘‘ (النساء ،4:29۔30)
(اپنے آپ کو قتل نہ کرو ،یقین مانو اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے ۔جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے)
ایک تیسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
’’ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ ‘‘ (البقرۃ: 156)
(ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے )
اس آیت سے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ہم اللہ تعالی کے غلام ہیں اور اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے ۔ہمیں اپنے وجود پر بھی کوئی حق نہیں ہے ۔ ہمارا جسم و جان سب کچھ امانت ہے۔تفاسیر کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ ہم اپنے بدن
کے مالک نہیں بلکہ اس کا حقیقی مالک اللہ ہے اور اسی کو اس میں ہر قسم کے تصرفات کا اختیار ہے ۔ اللہ تعالی نے یہ جسم صرف اس مقصد کے لیے عطا فرمایا ہے کہ اسے آخرت کی تیاری کے سلسلے میں زریعہ و وصیلہ بنا ئیں ۔
حاصلِ کلام یہ کہ جسم کو شریعت کے دائرے میں رہ کر استعمال تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کسی بھی قسم کا ’خلافِ شرع‘ تصرف کرنا دراصل امانت میں خیانت ہے ۔اور ایسا خائن مستحقِ عذابِ نار ہے ۔
دنیا مومن کے لیے ایک آزمائش ہے
اللہ تعالی نے یہ دنیا اس طرح بنائی کہ یہاں انسان کے ساتھ خوشی بھی ہے اور غم بھی ،راحت بھی ہے اور تکلیف بھی اور تنگ دستی بھی ہے اور خوش حالی بھی ہے۔ ان حالات سے ہر انسان کا سابقہ پڑتا ہے ۔اور اس کا سیدھا سا مطلب ایک مومن کی آزمائش ہے ۔اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کے خلق کا مقصد ہی آزمائش بتایا ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُور(سورۂ ملک :2)
(جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر کرنے والا بھی ۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس انسان کا عمل بہتر ہے ۔اہلِ ایمان کو اجتماعی اور انفرادی دونوں طریقے سے آزمایا جاتا ہے ۔پھر آزمائش بھی ہر ایمان والے کی اس کے ایمان کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔ اور سب سے سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے ۔قرآن مجید نے پیغمبروں کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر ان کی قوم نے انہیں کتنا ستایا ہے ۔ان پر ہر قسم کے حربے بے جھجھک استعمال کیے ،طرح طرح کے الزام لگائے ،طعن و تشنیع کی ،زدو کوب کیا ،انہیں گھر سے بے گھر کیا ،ان کے اعزاء و اقارب جان کے دشمن بن گئے ،غرض یہ کہ ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔لیکن ان سب تکالیف کے باوجود انہوں نے وہ ساری تکالیف صبرو سکون کے ساتھ برداشت کیں اور اللہ کے دین پر پورے طور سے جمے رہے۔
سورۂ ملک کی اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی متعدد آیات ،سورۂ الکھف :7،سورۂ الانبیاء:35،سورۂ محمد :31،سورۂ دھر :2،میں بھی یہ بات مذکور ہے کہ ہماری پیدائش کا مقصد ہمارا امتحان لینا اور ہمیں آزمانا ہے ۔اللہ تعالی نے ہمیں اس لیے آزماتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون اس کا شکر گزار ہے اور کون نا شکرہ ۔کون صبر کا دامن تھامتا ہے اور گلظ راستہ اختیار کرتا ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں خیر اور شر دونوں پہلؤں سے آزماتا ہے کبھی وہ خوشی دے کر آزماتا ہے تو کبھی مصائب و آلام سے دوچار کرتا ہے ۔ایسے مشکل وقت میں انسان کو چاہئیے کہ وہ صبر سے کام لے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْن (البقرہ :155)
(اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر،فاقہ کشی ،جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔اور (ایسے حالات میں )صابرین کے لیے بشارت ہے ۔)
گویا تمام پریشانیوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں سب سے اہم ہتھیار صبر ہی ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انسانوں کی ایک بہت بڑی آبادی تکالیف پر صبر کرنے کے بہ جائے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیتے ہیں۔
صبر ہی واحد حل
اسلام میں خودکشی حرام ہے ،کیوں کہ خودکشی کرنے والا حالات سے گھبرا جاتا ہے اور وہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے ۔انسانی زندگی میں دکھ سکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں ،انسان کے حصے میں خوشیاں بھی آتی ہیں اور کبھی اس کا سامنا مصیبتوں سے بھی ہوتا ہے ۔اللہ تعالی نے یہ دنیا آزمائش کے اصولوں پر بنائی ہے ۔جس طرح سے ایک طالب علم کو کچھ مشکل اور کچھ آسان سوالات دیے جاتے ہیں ویسے ہی انسان کو زندگی میں مشکل اور آسان دونوں طرح کا ٹسٹ کرایا جاتا ہے ۔قرآن مجید اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ انسان کو آسانی کی حالت میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ ہونا چاہئے اور مشکل حالات میں اسے صبر سے کام لینا چاہئے ۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے گویا ساری دنیا اس کی مخالف ہو گئی ہے ،اس پر مصیبتوں اور آزمائشوں کی بھر مار ہوتی ہے ۔قرآن مجید ایسے حالات میں انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے انسان ایسے مشکل وقت میں صبر سے کام لے ۔صبر ایسے مشکل حالات میں نہایت ہی مثبت عمل ہے جب انسان اس امتحان میں کھرا اترتا ہے تو پھر خدائی قوتیں اور اس کی حمایتیں اسے حاصل ہوتی ہیں۔
رسول ﷺ جیسی عظیم الشان ہستی کا بھی آزمائشوں سے بارہا سامنا ہوا ہے ،ایسے موقع پر آپﷺ نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے ۔مشکل حالات میں آپ ہمیشہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور نماز ادا کرتے تھے ۔اولاد کی وفات کا صدمہ ہو یا نادان مخاطبین کی جانب سے پتھراؤ ،منافقین کی چالبازیاں ہوں کفار کے حملے ،ان سب حالات میں آپ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے اور نماز اور صبر کے زریعہ مدد طلب کرتے۔
صبر اس اعتبار سے بھی ایک اہم وصف ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے سہارے کا سبب ہے ۔چناں چہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ (البقرہ:153)
(یقیناً اللہ صابروں کے ساتھ ہے )
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کو اللہ کا سہارا صبر کرنے کی صورت میں ملے گا اور اس دنیا میں بے شمار مواقع ہیں ،جن میں ہمیں خدا کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔پھر اس آیت میں ایک نفسیاتی پہلو بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ صابر آدمی کو پہلے ہی مرحلے میں ایک نفسیاتی تفوق حاصل ہوتا ہے ،وہ یہ کہ وہ مصائب پر چیخنے چلانے کے بہ جائے صبر سے کام لیتا ہے ،وہ مشکلات سے گھبرانے کے بہ جائے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سب سے بڑا صلہ جس چیز کا ملنا ہے ،وہ صبر ہی ہے۔صبر ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان ایک موقع پر دو عمل کر رہا ہوتا ہے :ایک مصیبت کو برداشت کرنا اور دوسرے برے عمل و اقدام سے رکے رہنا ۔یہ چیز انسان کو اس چیز کا مستحق بناتی ہے کہ وہ دوہرا اجر پائے۔
احادیث میں خودکشی کی مما نعت
اللہ کے رسول ﷺ نے خود کشی کے مرتکب شخص کو دہرے عذاب کا مستحق قرار دیا ہے ۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا:
’’جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کر دیا تو وہ دوزخ میں جائے گا ،ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیش وہیں رہے گا اور جس نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا ،جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگااور ہمیشہ ہمیش وہیں رہے گا۔جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں اپنے پیٹ میں مارتا رہے گااور ہمیشہ ہمیش وہیں رہے گا ۔‘‘ (صحیح بخاری : کتاب الطب،رقم،5442)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں (ہمیشہ)اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گااسی طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کر تا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسا ہی کرتا رہے گا ۔اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے زریوہ ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا ۔‘‘ (صحیح بخاری :کتاب الجنائز ،رقم،1299)
حضرت ضحاکؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا ۔‘‘ (صحیح بخاری : کتاب الادب، رقم2264)
عہدِ نبوی میں خودکشی کے واقعات
حضرت جندبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’پچھلی امتوں میں سے ایک شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا اور جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا تمہارے رب نے فرمایا:میں نے اس پر جنت حرام کردی ‘‘ (صحیح مسلم:حدیث نمبر،1113۔صحیح بخاری ،کتاب الانبیاء)
جابر بن سمرۃؓ کہتے ہیں:
’’کہ حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا ،چناں چہ آپﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ حضور ﷺ کے اس عمل سے ہوتا ہے کہ آپﷺ سراپا رحمت ہونے کے باوجود ، خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی ،حا لاں کہ آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں کے لیے بھی ہمیشہ دعا فرمائی ہے ،اور جب تک اللہ تعالی کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نمازِ جنازہ پڑاھانے سے بھی انکار نہیں کیا ۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ :
’’ہم رسول ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین میں تھے ،ہم لوگوں میں ایک شخص تھا جس کا شمار مسلمانوں میں ہوتا تھا ۔رسول ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا : یہ جہنمی ہے ۔جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بہادری سے لڑا اور زخمی ہو گیا ۔آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! جس شخص کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے وہ تو آج بہت بہادری سے لڑا اور اب وہ مر چکا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دوزخ میں گیا بعض صحابۂ کرامؓ (آپ ﷺ کے فرمان کی تہ تک نہ پہنچ سکے اور ) ،قریب تھا کہ وہ شکوک و شبہات میں پڑ جاتے ،اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ شخص ابھی مرا نہیں تھا لیکن بہت زخمی تھا ،رات کے آخری حصہ میں وہ زخم کی تکلیف برداشت نہیں کر سکا اور اس نے خود کشی کر لی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ۔پھر آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو بلوا کر لوگوں میں اعلان کروایا کہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور اللہ تعالی اس دین کو فاسقوں کے ذریعہ بھی تقویت دیتا رہتا
ہے ۔ (صحیح مسلم)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ :
آپﷺنے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور اس کا میر انصار کے ایک آدمی کو مقرر فرمایااور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ امیر کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں ۔(اتفاق سے) وہ امیر اب پر کسی بات پر ناراض ہو ہو گیا اور اس نے کہا : میرے لیے لکڑیاں جمع کرو ۔لشکر نے لکڑیاں جمع کیں تو اس نے کہا : ان میں آگ جلاؤ ۔ انہوں نے آگ جلادی تو امیر نے کہا : کیا نبی ﷺ نے آپ لوگوں کو میری اطاعت کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں !امیر نے حکم دیا : تو پھر اس آگ میں کود جاؤ ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ : اس پر وہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے ۔ ان میں سے بعض نے کہا : آگ ہی سے بچنے کے لیے تو ہم نے آپﷺ کی اتباع کی ہے (پھر کیوں اس میں داخل ہوں ؟)ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ امیر کا
غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی۔جب وہ لوگ لوٹے تو انہوں نے اآپ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ۔آپ ﷺ نے
فرمایا: اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے ،کیوں کہ اطاعت تو صرف نیک باتوں میں لازمی ہے ۔
(صحیح مسلم : کتاب الامارۃ ، رقم، 1840)
مندرج بالا صحیح احادیث اور واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان پر مصیبتوں کے پہاڑ کیوں نہ ٹوٹ جائیں اور وہ
مصیبتیں اس پر کتنی ہی شدید اور ناقابلِ برداشت کیوں نہ ہوں،حتی کے اگر انسان پر جان پر کیوں نہ آپڑے ، تو اس وقت بھی اسلام خودکشی کی اجازت نہیں دیتا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔