خود ہی ہار گئے ہرانے والے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کی سیاست میں ایمرجنسی کو ٹرنگ پوائنٹ مانا جاتا ہے۔ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے لیفٹ، رائٹ، سوشلسٹ، سماج وادی اور سابق کانگریسی جنتا پارٹی کا جھنڈہ اٹھا رہے تھے۔ سب کا ایک ہی مقصد تھا ایمرجنسی میں ہونے والی زیادتی سے نجات۔ سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف اٹھ رہی آوازوں کو جے پی اور راج نارائن نے دھار دی۔ طلبہ نے اس تحریک کو منزل تک پہنچانے میں اہم کردار نبھایا۔ اس آندولن کو سمپورن کرانتی یعنی’مکمل انقلاب‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس وقت کے کئی طلبہ لیڈر آج مین اسٹریم سیاست کا حصہ ہیں۔ سیاست میں آنے والی اس تاریخی تبدیلیکو کانگریس مکت بھارت کی شروعات کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اسی کے بعد ملک میں ہراؤ، جتاؤ کی سیاست کا جنم ہوا۔ کچھ لوگوں نے کبھی اِس پارٹی کے تو کبھی اُس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہو کر خوب ملائی کھائی اوریہ سلسلہ اب بھی برقرار ہے لیکن اس کوشش یا تجربوں کے نتیجہ میں عوامی مسائل سیاسی ترجیحات کے پس پشت پہنچ گئے۔

ایمرجنسی کے وقت سرکاری مشینری میں چستی، پھرتی اور غیر معمولی فعالیت دیکھی گئی۔ ریل گاڑیاں شیڈول کے مطابق منزل پر پہنچتی تھیں۔ سرکاری ملازمین وقت پر دفتر میں دستیاب ہوتے۔ عوام کے سارے حقوق سرکار کے ہاتھ میں تھے، میڈیا اپنی مرضی سے کچھ لکھ چھاپ نہیں سکتا تھا۔ جو لوگ سرکاری پالیسیوں پر انگلی اٹھا سکتے تھے، ایسے سبھی لوگوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ہزاروں پر مینٹی نینس انٹرنل سکیورٹی ایکٹ (میسا) لگایا گیا۔ کئی سرکار سے معافی مانگ کر رہا ہوئے۔ ان میں سنگھ کے لوگ بھی شامل تھے۔ اندراگاندھی نے بیس نکاتی پروگرام لاگو کیا جس میں خاندانی منصوبہ بندی شامل نہیں تھی لیکن سنجے گاندھی کے چار نکاتی پروگرام میں خاندانی منصوبہ بندی کو فوقیت حاصل تھی۔ اس کیلئے نس بندی کوواحد طریقہ مان کر پورے ملک میں اس پر عمل درآمد کرایا گیا۔ یوپی، ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش اور راجستھان کے وزرائے اعلیٰ نے حکم جاری کر ٹارگیٹ مقرر کیے۔ ہر سرکاری ملازم اور سرکاری مدد سے چلنے والے اداروں میں کام کرنے والے افراد کو نس بندی کا ٹارگیٹ دیا گیا۔ ٹارگیٹ پورا نہ کرنے پر نوکری جانے کا ڈر دکھایا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران قریب 81 لاکھ لوگوں کی زبر دستی نس بندی کی گئی۔ اس کی وجہ سے عوام میں کانگریس کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ سنجے گاندھی نے دہلی کے ترکمان گیٹ کو طاقت کے بل پر راتوں رات خالی کرادیا، گولی بھی چلائی گئی۔ اس طرح کے واقعات نے آگ میں گھی کا کام کیا۔ جس کا نتیجہ 1977 کے عام انتخابات میں کانگریس کو بھگتنا پڑا۔

اس دور کو صوبائی و علاقائی پارٹیوں کے استحکام کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب آر ایس ایس نے سیاست میں اپنے وجود کو منوایا۔ اس نے جنتا پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ جنتا پارٹی میں سنگھ کی سیاسی جماعت بھارتیہ جن سنگھ، کانگریس (او) اور بھارتیہ لوک دل کے ساتھ شامل تھی۔ کے کام راج اور مرارجی دیسائی کانگریس (او) کے لیڈر تھے جبکہ بھارتیہ لوک دل میں چار پارٹیاں شامل تھیں۔ ان کے بڑے لیڈران میں جے پرکاش نارائن، راج نارائن، سی راج گوپالاچاریہ، آچاریہ نریندر دیو، چودھری چرن سنگھ اور بیجو پٹنائیک قابل ذکر ہیں۔ آر ایس ایس نے کامیابی کی صورت میں جے پی کو وزیر اعظم بنوانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس کی باگ ڈور مرارجی دیسائی کے ہاتھ میں آئی اور وزارت خارجہ کا قلم دان اٹل بہاری واجپئی کے سپرد ہوا۔ جس وقت چھوٹی پارٹیاں اور سنگھ سیاست میں اپنے استحکام کی کوشش میں لگا تھا، مسلمانوں کا ایک طبقہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے، ووٹ دینے نا دینے پر بحث کر رہا تھا۔ وہیں مسلمانوں کے رہنما کانگریس کو ہرانے اور جنتا پارٹی کو جتانے میں لگے تھے۔ جنتا پارٹی کی ٹوٹ کے ساتھ ہی 1980 میں بھارتیہ جنتاپارٹی وجود میں آ ئی۔

کانگریس 1980 میں مسز اندرا گاندھی کی لیڈر شپ میں دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ اس وقت بھی مسلمانوں نے اپنے لئے سیاسی زمین ہموار کرنے کے بجائے کانگریس کی واپسی میں طاقت صرف کی۔ انعام کے طور کچھ مسلمانوں کو وزارت کے قلم دان تھما دیئے گئے۔ عید کے موقع پر اگست 1980 میں مرادآباد میں مسلم کش فساد ہوا جس میں 300 مسلمان مارے گئے۔ اس وقت یو پی میں وی پی سنگھ کانگریس کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ریاست یا مرکز کے کسی ایک مسلم ممبر نے بھی مظلوموں کو انصاف دلانے کے نام پر استعفیٰ نہیں دیا۔ 1980 سے 1989 تک ملک میں کئی بڑے بڑے فساد ہوئے جن میں آسام کا نیلی بھی شامل ہے، جہاں چوبیس گھنٹوں میں تین ہزار افراد ہلاک کر دیئے گئے تھے۔ مرنے والوں میں بچوں کی بڑی تعداد تھی۔ میرٹھ، بھاگلپور، بھیونڈی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مسلمان فسادات میں الجھے تھے جبکہ سنگھ اپنی سیاسی جماعت کیلئے زمین ہموار کر رہا تھا اور کانگریس اس میں اپنی حماقتوں کے ذریعہ معاونت کر رہی تھی۔ 1984 کے الیکشن میں بی جے پی کو پارلیمنٹ میں صرف دو سیٹیں ملی تھیں لیکن 1989 میں 80 نشستیں حاصل کر اس نے وی پی سنگھ کی سرکار بنوائی تھی۔ مسلمان اس وقت بھی کانگریس کو ہراؤ وی پی سنگھ کو جتاؤ کا پہاڑا پڑھ رہا تھا اور سیکولرزم کی بات کر رہا تھا۔

فسادات کانگریس کی سیاست کا حصہ تھے، یہ بات سامنے آنے کے باوجود بھی مسلمان اس کو نہیں سمجھ سکے۔ شاید اس لئے کہ ان کے بیچ سیاست کی ملائی کھانے والے انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ سیکولر لوگوں کو مضبوط بنانا اور اکثریت کی سرکار کے بجائے اتحادی جماعتوں کی سرکار ہمارے حق میں ہے۔ اسی کی وجہ سے مسلمان ہرانے جتانے کی مشین یا ووٹ بنک بن کر رہ گئے۔ ایک زمانے تک مسلم رہنما فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم کنگ میکر ہیں۔ ہمارے بغیر کسی کی سرکار نہیں بن سکتی۔ ہم جس کی چاہیں سرکار بنوا سکتے ہیں اور جس کو چاہیں اسے سرکار سے بے دخل کر سکتے ہیں۔ نرسمہا راؤ نے دو قدم آگے بڑھ کر مسلمانوں کے درمیان کام کرنے والوں کی قیمت طے کر دی۔ مسلمانوں کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والوں کی اپیل اور کوشش کے باوجود کانگریس کو مسلم ووٹ نہیں ملے۔ جس کی وجہ سے ان کا جو تھوڑا بہت بھرم باقی تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ مسلمان بابری مسجد کے انہدام کو لے کر کانگریس سے ناراض تھے۔ آج سیاست میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص سے بات کیجیے تو وہ پوچھتا ہے کہ اسے کیا ملے گا۔ مزاجوں کی اس تبدیلی نے مسلمانوں کی سیاسی منصوبہ سازی کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔

مرکز میں برسرِ اقتدار پارٹی نے یہ صاف کردیا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل انہوں نے ایسی سیاسی حکمت عملی اپنائی کہ مسلم ووٹ بے اثر ہو جائیں۔ انہوں نے اپنے کمیٹڈ ووٹ اور پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ مقام حاصل کر کے مسلمانوں کو سیاسی طورسے حاشیہ پرڈھکیل دیا۔ یو پی جیسی ریاست سے 2014 کے عام انتخابات میں ایک بھی مسلمان پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکا۔ ان کی اس حکمت عملی کی کامیابی میں ہمارے ہی کئی افراد بغیر سوچے سمجھے معاون بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک معروف ممبر پارلیمنٹ کا بیان آیا کہ مسلمانوں کو صرف اپنے نمائندوں کو جتانا چاہئے ؟ اس کا کیا مطلب ہے یہی کہ وہ اس بیان کی بنیاد پر ہندو ووٹوں کو پولرائز کرلیں۔ یا پھر ایک سابق ممبر پارلیمنٹ نے اردو کے معروف اخبار میں مضمون لکھا کہ سیکولر اتحاد سے ہی بی جے پی کو روکا جا سکتا ہے۔ اس میں کیرانہ کی سیٹ پر اجیت سنگھ کی پارٹی کی کامیابی کی مثال دی گئی ہے۔ سوال ہے کہ کیا اجیت سنگھ سیکولر ہیں ؟ کیا وہ این ڈی اے کی سرکار میں وزیر نہیں تھے۔ مظفر نگر میں فساد کے وقت کیا اسے روکنے کیلئے انہوں نے کچھ کیا تھا؟ کیا اس اتحاد میں شامل مایاوتی بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنا چکی ہیں ؟ سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ پھر کسی پارٹی کو اپنا دشمن کیوں مانا جائے۔ اقتدار میں بنے رہنا یا اقتدار میں شمولیت کی کوشش میں لگے رہنا ہی آج سیاست ہے۔ اس کو دھیان میں رکھ کر تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی جائے۔ جس کی پیشکش قوم کے حق میں ہو مسلمانوں کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ اگر وہ اپنے عہد پر عمل نہیں کرتا تو اگلے انتخاب میں اسے ہمارے ووٹوں کی کمی کا احساس ضرور ہوگا۔

مسلمانوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر از سر نو غور کر کھلے پن کو لانا ہوگا۔ کیونکہ مسلمان ہراتے ہراتے آج خود ہار چکے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ پہلے کئی مواقع گنوا چکے ہیں۔ اب اور نہیں ، قوم میں سیاسی سمجھ پیدا کرنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکول یا کالج جانے والے جن بچے، بچیوں میں لیڈر شپ کی صلاحیت ہو ان کی سیاسی تربیت کی جائے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ اگلی نسل کی سیاسی سمجھ آج سے بہتر ہوگی۔ ساتھ ہی مسلم عوام کو اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر قومی مفاد کے بارے میں بیدار کیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔