طیب اردغان کی انتخابی فتح

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

ترکی کے صدارتی  انتخاب  کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ ایک شفاف البکشن  تھا، جو سیکڑوں بین الاقوامی مبصرین اور میڈیا کے افراد کی موجودگی میں انجام دیا گیا۔ اس معیار کی شفافیت اور بین الاقوامی سطح کا انتخابی نظم و انضباط  کا ہم بر صغیر میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صدر اردغان نے خود اسے ایک  ” جمہوری انقلاب”  قرار دیا ہے۔ بہر حال اس انتخاب میں، جس پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں، رجب طیب اردگان کی پارٹی اطمبنان بخش اکثریت سے جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور ترکی انتخابی بورڈ کی طرف سے اردغان کو(جنھوں نے پہلا انتخاب 2001 میں جیتا تھا اور جو تقریبا 15 سال کے طویل عرصے سے ترکی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں) فاتح قرار دیا جا چکا ہے۔

یہ انتخاب انھوں بے یوں ہی نہیں جیت لیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ترکی نے اردغان کی قیادت میں اپنی سرحدوں کی حفاظت بھی کی ہے اور ہمہ جہت ترقی بھی۔  یہ وہ شخص ہے  جو اپنے اہنی ارادوں کی وجہ سے اس وقت استعماری قوتوں کی پیدا کردہ جنگی تباہی کے شکار لاکھوں مھاجرین اور فلسطین و مینمار سمیت پوری دنیا کے مظلوموں کے لئے امید کی کرن بن چکا ہے، اس  انتخابی فتح سے پہلے اور اس کے بعد شاید دنیا کے  ان تمام  مظلوموں کو ان سے وہی امید  وابستہ ہے جو اردغان کے حق میں  ووٹ دینے والے ایک ترکی شہری   نجات بیان کو ہے، اور جس نے اسے یوں بیان کیا:

"ہم اپنی آنے والی نسل کے محفوظ مستقبل کے لئے ووٹ دے رہے ہیں یہی وجہ کہ ہم نے اپنا ووٹ اسے دیا  ہے جسے دینا چاہیے، ہم نے بہت سوچا، اب ہمیں اطمئنان ہے کہ ہم نے صحیح  فیصلہ کیا”۔

“We are voting for our children’s future; that is the reason we voted the way we did, we thought hard about it and I think we made the right decision”(Independent: 25,June ,2018)

 البکشن جیتنا آسان ہے، البکشن تو دوسرے بھی جیتتے رہتے  ہیں، لیکن لاکھوں کروڑوں انسانوں کا دل جیتنا اتنا آسان نہیں ہے، دل جیتنے کے لبے ٹھوس کردار، عزیمت اور خلق خدا سے محبت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم طیب اردغان کو مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ دونوں چیزیں، یعنی انتخاب اور دل ایک ساتھ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی اس انتخابی فتح کی سب سے خاص بات ہے اور یہ ایک منفرد جیت ہے۔

یقینا  اس جیت نے اردغان پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے، ان کے سامنے فلسطین و مسجد اقصی کے تحفظ کا سوال ہے، ان کے سامنے، تباہ حال و پراگندہ مشرق وسطی ہے، دشمنان اسلام کا بڑھتا دباو ہے، تقسیم در تقسیم عالم عرب و عالم اسلام ہے، ظالموں کی پیچیدہ سازشیں ہیں، ناکارہ عالمی ادارے ہیں۔ اس لبے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس انتخابی فتح اور فتح دلانے ووٹرس نے انھیں ترکی ہی نہیں  اس پورے خطے کے مستقبل کے تحفظ کی امید سے ووٹ دیا ہے۔ اللہ تعالی انھیں اس قابل بنائے کہ وہ ہماری ان امیدوں کی تکمیل کا ذریعہ بم جائیں۔ کارساز وہی ہے ہم تو اس کے کمزور بندے ہیں، اردغان بھی اس کا ایک بندہ ہے۔ ہم اس کے سامنے سر بسجدہ ہو کر دعا گو ہیں کہ مولا اب ہماری گناہیں معاف کر کے ہماری  حالت بدل دے۔مظلوموں کی چیخیں ہر طرف گونج رہی ہیں، کمزروں کی آہیں فضا میں بھٹک رہی ہیں، اس بے رحم دنیا میں کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہے، وہ سب بے کسی و کس مپرسی کے عالم میں اخری سہارے کے طور سے  تیری طرف نگاہیں اٹھائے دیکھ رہے ہیں، تو بھی انھیں ایک بار عنایت و کرم کی نظر سے دیکھ لے تو ان کے دن بھی پھر جائیں۔

الحمد لله، اردغان کی جیت پر دنیا کے تمام ایسے لوگ خوش ہیں جو استعماری اور ظالم قوتوں سے عالم انسانیت کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر ہمیں کوئی بھی ایسی بات کرنے سے بچنا چاہیے جس میں دوسروں کے لئے دل آزاری پو یا جو  آپس میں تفرہق و انتشار پیدا کرنے والی ہو۔ غلو اور افراط و تفریط کسی بھی کام میں صحیح نہیں ہےنہ تو ہم اتنا خوش ہوجائیں کہ حقائق کو بھول جائیں اور نہ ہی دوسروں کو خوش دیکھ کر صرف اس لئے رنجیدہ ہوں کہ ان کی خوشی کی تصویب ہم نہ کر پارہے ہوں۔، نفسیات کا لحاظ رکھنا، اور اسی لحاظ سے بات کو آگے بڑھانا، دوسرے بھائیوں کی جائز خوشی میں شریک ہونا اور اس کی مسکراہٹوں میں( اس کی دلجوئی کے لئے ہی سہی)، شامل۔ہونا بھی جزو ایمان ہے۔ یاد رکھیے جس طرح اس قسم کے مواقع پر خوشیوں کے اظہار اور شخصیات کے حسن و قبح  کو بیان کرنے اور ان سے امیدیں وابستہ کرنے میں حد اعتدال کی رعایت ضروری ہے اسی طرح خوشی منانے والوں کے  استھزا و تمسخر سے بچنا اور غیر ضروری نکات پیدا کر کے ان کی حوصلہ شکنی کرنا بھی میرے نزدیک جائز نہیں ہے۔ کلمات کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہے، عوامی نفسیات کو برتنے میں حکمت و دانائی لازم ہے۔

 اس سلسلے میں سورہ روم کی ابتدائی آیات میں ہمارے لئے بہت ساری اہنمائی موجود ہے۔۔۔۔ اسے ذرا تفصیل سے سمجھیے۔ آخر اہل روم، جو عیسائی تھے اور کسی نہ کسی شکل میں توحید پرست بھی تھے، کی شکست پر جب مسلمان مشرکین کے طعنوں سے غمگین ہونے لگے تو اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی تسلی و تثبیت قلب کا سامان کیا گیا اور انھیں یہ خوش خبری  بھی دے دی گئی کہ عنقریب اہل روم پھر سے ایرانی مشرکین پر غالب آ جائیں گے۔۔۔۔ اخر اللہ تعسلی ان مسلمانوں سے یہ بھی تو کہ سکتا تھا کہ ایک ایسی  قوم کی شکست کے غم میں تم کیوں ہلکان ہوئے جا رہے ہو جو نہ مسلمان ہیں اور نہ تمھارے  ہم قوم”۔۔۔۔۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اللہ کی طرف سے اس وقت کے مسلمانوں کی نفسیات کا پورا خیا ل رکھا گیا اور بڑی حکمت سے  انھیں ایک خوش خبری سنس کر ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگر آج بر صغیر کے مسلمان ترکی میں ایک ایسے شخص کی فتح سے خوش ہورہے ہیں جن سے انھیں ایک سچے مسلم قائد  کے طور سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟

اس وقت  کرب و بے چارگی میں مبتلا  عالم اسلام کے عام مسلمانوں کی تقریبا وہی حالت ہے جو  سورہ روم کے نزول کے وقت مسلمانوں  کی تھی۔ البتہ اس موقع سے انھیں یہ دو اسباق ضرور یاد دلائے جا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ  خوشیاں منانے میں اعتدال  و سنجیدگی برتیں اور دوسرے اردغان اور اس کے ساتھیوں کی طرح اپنی زندگی  کو حرکت و عمل سے آشنا کریں اہل ترکی سے یہ سیکھیں کہ سب کچھ بکھر جانے کے بعد دوبارہ کس طرح مستقبل کی ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر نشیمن  کیا جا تا ہے، یہاں ہمارے لئے یہ سبق بھی ہے کہ ترکی وہ جگہ پے جہاں ایک وقت میں محض عرب قوم پرستی کے رد عمل میں اسلام و اسلامی تھذیب کو ہی دیش نکالا دے دیا گیا تھا اردغان اور ان گذشتہ و موجودہ ساتھیوں کس طرح ایک بار پھر اسلام کو ترکان جفاکیش کی دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔۔۔ اگر ہماری اصلاحی باتوں میں میں یہ روح مضمر ہو تو اردغان کی کامیابیوں پر خوشیاں منانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو بھی ہم اس موقع پر بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔ ورنہ مجادلہ تو مجادلہ ہی ہوتا ہے۔۔ دلوں کو منطقی ڈنڈوں سے نہیں بلکہ  محبت کی پھوار سے اور امید کی قندیلیں جلا کر اور نفسیات کو مثبت رخ دے کر  جیتا جاتا ہے، اردغان کو بھی بحیثیت قائد  اسی راہ سے کامیابی ملی ہے۔۔۔ سوچئے آپ کیا کر رہے ہیں؟

اس موقع پر، ہمیں پہلی دعا تو یہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی انھیں مسلم دشمن طاقتوں، خصوصا یہودیوں کی ہر چال سے  محفوظ رکھے، اور دوسرے یہ کہ قوی و عزیز ہستی انھیں بھی اتنا قوی و عزیز بنادے کہ وہ دنیا کے تمام مظلوموں کی مدد کے قابل بن جائیں۔

 بے شک رجب طیب اردگان جیسے دوچار قائد بھی اگر عالم اسلام میں  پیدا ہو جاتے  تو فلسطین مینمار، ہندوستان اور شام و عراق کے مسلمان آج اس  قابل رحم اور کس مپرسی کی حالت میں نہ ہوتے۔

حسبنا اللہ و نعم الوکیل

تبصرے بند ہیں۔