احمد علی برقی اعظمی
آپ کے نقشِ قدم کی پیروی کیسے کریں
بندہ پرور یہ بتائیں آپ ہی کیسے کریں
…
ہر کوئی خود کو سمجھتا ہے امیر شہر آج
’’ شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں‘‘
…
زد پہ برق و باد کی ہر وقت ہے اپنا چمن
ہم بسر عہدِ رواں میں زندگی کیسے کریں
…
دندناتے پھر رہے ہیں دائیں بائیں شر پسند
آرزوئے امن و صلح و آشتی کیسے کریں
…
دوست دشمن میں ہے کرنا اب تو مشکل امتیاز
رونے سے فرصت نہیں ہے دل لگی کیسے کریں
…
اب نظر آتی نہیں کوئی کرن امید کی
دور گِرد و پیش کی یہ تیرگی کیسے کریں
…
اس میں ہے درکار برقی اعظمی خونِ جگر
تم ہی ایسے میں بتاؤ عاشقی کیسے کریں
تبصرے بند ہیں۔