شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں

احمد علی برقی اعظمی

آپ کے نقشِ قدم کی پیروی کیسے کریں

بندہ پرور یہ بتائیں آپ ہی کیسے کریں

ہر کوئی خود کو سمجھتا ہے امیر شہر آج
’’ شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں‘‘

زد پہ برق و باد کی ہر وقت ہے اپنا چمن
ہم بسر عہدِ رواں میں زندگی کیسے کریں

دندناتے پھر رہے ہیں دائیں بائیں شر پسند
آرزوئے امن و صلح و آشتی کیسے کریں

دوست دشمن میں ہے کرنا اب تو مشکل امتیاز
رونے سے فرصت نہیں ہے دل لگی کیسے کریں

اب نظر آتی نہیں کوئی کرن امید کی
دور گِرد و پیش کی یہ تیرگی کیسے کریں

اس میں ہے درکار برقی اعظمی خونِ جگر
تم ہی ایسے میں بتاؤ عاشقی کیسے کریں

تبصرے بند ہیں۔