خوشحال ازدواجی زندگی کا راز

شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری

        شرم و حیابلا تفریق جنس ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ حیا انسان کو قابل اعتماد، وقار، متانت، سنجیدگی، بردباری، ذہنی سکون، تدبر و تفکراور ہر خلافِ مروت و رذیل افعال سے بچنے کا ملکہ جیسی گراں بہا قدروں اور بیش بہا صلاحیتوں سے مالامال کردیتی ہے۔ فخر کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں حیا ایمان کا جز ہے (بروایت عبداللہ ابن عمرؓ اخرجہ بخاری ) حضرت سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے فرمایا سلطان دنیا و دینﷺ نے حیا ہر چیز کے حسن کو دوبالا کردیتی ہے (ترمذی شریف)۔ اور جب انسان حیا سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ اس کی غیرت و حمیت دم توڑ دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو چاک کرنے، دبے ہوئے شہوانی جذبات اور نفسانی لذات کو ابھارنے والے تمام عوامل و ذرائع اور اسباب و محرکات میں انسان کی نگاہ کو بڑا دخل ہے۔ نگاہ کی بے راہ روی، آنکھوں کی خیانت، اور نظر بازی کی مسرتوں و لذتوں سے محظوظ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج معاشرہ میں بے حیائی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ مرقع ہر خوبی و زیبائیﷺ ارشاد فرماتے ہیں نگاہ شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو بندہ اللہ کے خوف سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالی اسے ایمان کی دولت سے سرفراز فرماتا ہے جس کی ٹھنڈک وہ اپنے قلب میں پاتا ہے۔ (ابن کثیر) اللہ تعالی نے تمام مومنین اور مومنات کو حکم دیا کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں تاکہ دامن عصمت و عفت کو داغدار کرنے والے اسباب و علل کا از خود قلع قمع ہوجائے اور مومنین بے حیائی کے گرداب و طوفان سے نکل کر ساحل عافیت پر خیمہ زن ہوسکیں۔ ارشاد ہوتا ہے ترجمہ:۔ آپ حکم دیجیے مومنوں کو کہ وہ نیچے رکھیں اپنی نگاہیں اور حفاظت کریں شرمگاہوں کی یہ (طریقہ) بہت پاکیزہ ہے ان کے لیے بیشک اللہ تعالی خوب آگاہ ہے ان کاموں پر جو وہ کیا کرتے ہیں اور آپ حکم دیجیے ایماندار عورتوں کو کہ وہ نیچی رکھا کریں اپنی نگاہیں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی (سورۃ النور آیات 30-31) بدنگاہی انسان کی عزت و آبرو (جو اس کی متاع گراں بہا ہے) کو متاثر کرتی ہے۔

 Face Book, Blogger اور Twitter کے ذریعہ اجنبی مرد و زن کا آپس میں غیر ضروری دوستی کرنا اور آزادانہ خیالات کا تبادلہ کرنا مذکورہ بالا آیات شریفہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نفس پرستی اور بے حیائی کی آگ نے خرمنِ عفت و حیا کو جلاکر خاکستر کردیا ہے تب ہی تو ناقابل معافی گناہ ’’ارتداد‘‘ کا ارتکاب ہماری نوجوان نسل کے لیے آسان ہوگیا ہے۔ وہ یہ ہرگز نہیں جانتے کہ انہیں ان اعمال سیئہ سے دنیوی متاع اور لذتیں تو حاصل ہوجائیں گی لیکن دوسری طرف وہ اپنے آپ کو جہنم کی سزا کا مستحق بنا رہے ہیں۔ (العیاذ باللہ) ایمان وحیا کی حفاظت، معاشرے کو بے حیائی کے دلدل سے نکالنے اور نوجوان نسل کو نظربازی کی لغزشوں، انگنت خرابیوں اورمتعدی بیماریوں سے بچانے میں ’’نکاح‘‘ بے انتہا ممد و معاون ہے۔ نکاح انسان کی نفسیاتی، معاشرتی، اخلاقی، دینی، روحانی ضروریات اور فطری تقاضوں کی تکمیل کا جائز طریقہ ہے۔ نکاح انسانیت کو شرافت و بزرگی کی وہ محکم اساس فراہم کرتا ہے جس پر انسان طہارت و پاکیزگی سے بھر پور معاشرہ کی تشکیل بآسانی کرسکتا ہے۔ اس کے ذریعہ مرد و زن کے افکار و خیالات اور قلب و نظر کو پاکیزگی و تطہیر ملتی ہے اور اس طرح برائیوں کا سدباب ہوجاتا ہے۔ دین اسلام میں کوئی عبادت ایسی نہیں ہے جس میں اخلاق کی تعلیم نہ ملتی ہو۔ جیسے نماز سے انکساری اور برائیوں سے کنارہ کشی، روزہ سے ضبط نفس اور نفسانی خواہشات کی سرکوبی، صدقات و خیرات سے جذبۂ غمخواری اور مال و ثروت کی بیجا محبت سے دوری، حج سے باطل امتیازات کا خاتمہ اور مساوات انسانی کا درس ملتا ہے اسی طرح نکاح بفحوائے حدیث ’’النکاح سنتی‘‘ (اخرجہ صحیح الجامع الصغیربروایت حضرت عائشہؓ) عبادت ہے جس سے انسان کی نظروں کی حفاظت، خیالات کی پاکیزگی، فطرت کی نفاست، عفت و حیا کی حفاظت اور قلب و ذہن کی طمانیت و سکون وابستہ ہے۔ بعض نکاح (جس کو ہمارے آقاءﷺ نے اپنی سنت یعنی عبادت کا درجہ دیا ہے) کی تقریب میں جب ہم شرکت کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی منی ڈانس بار میں آگیے ہیں (العیاذ باللہ) اور شادی کی تقریبات میں اکثر و بیشتر ایسے افعال و اعمال دیکھنے میں آتے ہیں جو تقویٰ شعاری و پارسائی کے بالکل مغائر ہوتے ہیں جبکہ خطبۂ نکاح میں جو تین آیات تلاوت کی جاتی ہیں اس میں بار بار تقوی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے چونکہ جو انسان تقوی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے وہ نہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے اور نہ ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر چھوڑتا ہے۔ لیکن مسلم معاشرہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شادی سے متعلق ہر چھوٹی بڑی چیز کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے لیکن نکاح کی جس بنیاد کو مسلمانوں نے فراموش کردیا ہے وہ تقوی ہے۔

مال و دولت اثر و رسوخ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے دنیا پرست انسان اپنی مفوضہ فرائض، حقوق اور ذمہ داریوں کی ادائیگیوں میں کوتاہی کرنے کے باوجود دنیاوی قانون سے بچ سکتا ہے لیکن لیکن متقی یہ امور اس لیے انجام نہیں دے سکتا چونکہ اس کے دل میں اس بات کا قوی احساس ہوتا ہے کہ ایک دن میں رب قدیر کے حضور حاضر ہونا ہے۔ عروس و عروسہ کے والدین حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ عاقدین کی زندگی کا ہر لمحہ خوشحالی سے مالامال ہو لیکن چند دنوں میں دونوں کی علاحدگی کی خبریں آجاتی ہیں کاش اگر والدین ضروریات زندگی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی اساس تقوی کا بھی تعلیم اپنی اولاد کو دیں جیسا کہ خطبہ نکاح میں بیان کیا گیا ہے تو مسلم معاشرے سے طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکا جاسکتا ہے۔ خطبہ نکاح میں تقوی اختیار کرنے کی باربار فہمائش کے باوجود انسان کا اصلاح کی طرف آمادہ نہ ہونا فطرت کے مسخ ہوجانے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں طلاق اور خلع کے باعث عقد ثانی کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے جس میں تقوی شعاری سے دوری کے باعث جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت کو بہت بڑا دخل ہے۔ بلالحاظ امیر و غریب مسلمانوں کی اکثریت اس لعنت کا شکار ہے۔ ایک طرف لڑکے والے طلاق کا استعمال اس لیے کررہے ہیں چونکہ انہوں نے جہیز کو وسائل معاش کا آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے اور بعض لوگ اپنے اس باطل سونچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمینگی اور سفلگی کی تمام حدوں کو توڑ کر عفت شعار خاتون کے پاکیزہ کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتے ہیں ؟ یہ ایسا سنگین جرم ہے جو نہ صرف انسان کو ہلاک کرنے اور رحمت کردگار سے دوری کا سبب ہے بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی کا باعث بھی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ’’جو لوگ تہمت لگاتے ہیں پاکدامن عورتوں پر جو انجان ہیں ایمان والیاں ہیں اُن پر پھٹکار ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن کے لیے عذاب عظیم ہے‘‘ (سورۃ النور آیت 23)

 بعض افراد قوتِ جماع سے محروم اور عمل زوجیت سے قاصر رہنے کے باوجود نکاح صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ انہیں جہیز میں اچھی خاصی رقم مل جائے پھر وہ کوئی بہانہ بناکر بیوی کو اپنی زوجیت سے خارج کردیتے ہیں۔ کیا یہ عمل تقوی شعار لوگوں کا خاصہ ہوسکتا ہے ؟ دوسری طرف مطلقہ و حاملہ خواتین کے سرپرست ناقابل برداشت بارِ گراں کو دور کرنے اور اپنی لڑکی کی زندگی کو اجیرن ہونے سے بچانے کے لیے اسقاطِ حمل جیسے سنگدلانہ فعل اور گناہِ عظیم کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا کوئی شخص جو خشیت الہی سے ہردم لرزہ براندام رہتا ہو کیا وہ اپنی اولاد کو ایسے غیر انسانی اور غیر اسلامی عمل کی صلاح دے سکتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس عمل کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے ہم ہی رزق دیتے ہیں انہیں بھی اور تمہیں بھی۔ بلا شبہ اولاد کو قتل کرنا بہت بڑی غلطی ہے‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 31) اگر ہم بنظر غائر معاشرے کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس روح فرسا نتائج کے ذمہ دار ہم خود ہیں چونکہ ہم نے مادہ پرستی کا شکار ہوکر نکاح جیسے اسلامی، آسان اور پاکیزہ نظامِ معاشرت کو اتنا دشوار کن مرحلہ بنادیا کہ زنا و بدکاری کا چلن آسان ہوگیا ہے۔

فطری تقاضے اگر بروقت پورے کردیے جائیں تو انسان برائیوں کی طرف امادہ نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی پیاسا انسان دو تا تین گلاس پانی پی لیا ہو اب اسے انتہائی ٹھنڈا اور لذیذ مشروب بھی پیش کیا جائے تو وہ اس کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھے گا چونکہ اس کے فطری تقاضے کی تکمیل ہوچکی ہے اگر وہ زبردستی پینے کی کوشش بھی کرے گا تو اسے قئے ہوجانے کا قوی امکان رہتا ہے اس کے برخلاف کوئی انسان دو یا تین دن سے پیاسا ہو اگر اس کے سامنے آلودہ پانی بھی پیش کیا جائے تو وہ اس کی طرف تیزی سے جھپٹے گا چونکہ اسے فطری تقاضے کو پورا کرنا ہے من و عن نکاح کرنا بھی انسانی فطرت کا تقاضہ ہے اگر اسے بروقت پورا کردیا جائے تو برائیوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملے گا اسی لیے رحمت اللعالمینﷺ ارشاد فرماتے ہیں نکاح کو آسان بنائو تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔ یہ تقوی شعاری کا ہی فقدان ہے کہ آج ہم نے نکاح کو اتنا مشکل ترین مرحلہ بنادیا کہ برائیاں آسان ہوگئی ہیں۔ اگر ہم خطبۂ نکاح کو سمجھنے اور اس پر صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تو معاشرے سے کئی ایک برائیاں جیسے فحاشی، نیم برہنگی، عریانی، بے حجابی، قبل از زواج تعلقات، جنسی بے راہ روی، ہم جنس پرستی وغیرہ از خود ختم ہوجائیں گی۔ سرور عالمیاں ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے‘‘ (رواہ ھدایۃ الرواۃ، بیہقی، حاکم بروایت حضرت انسؓ) یعنی جب انسان نکاح کرتا ہے مذکورہ بالا برائیوں سے محفٰوظ ہوجاتا ہے اب نکاح کے بعد والی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے عروس و عروسہ پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کریں، ایک دوسرے کی لغزشوں اور خطائوں درگزر کریں، ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا احترام کریں، ایک دوسرے کی پسند و ناپسند کا بھرپور خیال رکھیں، سنگین اور نازک حالات میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بنیں یہ تمام چیزیں اسی وقت ممکن ہے جب انسان متقی ہو۔ محفل عقد نکاح میں جو خطبہ دیا جاتا ہے اس میں اسی باقی آدھے دین کے متعلق احکام الہی اور فرمامین اقدس ﷺ سے حاضرین محفل کو واقف کروایا جاتا ہے۔ لیکن صدافسوس کہ ہم نے خطبۂ نکاح پڑھنے کو ایک رسم سمجھ لیا ہے ہم کبھی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اس خطبۂ نکاح میں کیا کہا جارہا ہے اس پر عمل کریں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ کسی خدائی احکام کو زبانی ادا کرنا اور دل میں اعتقاد نہ رکھنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں بلکہ یہ اغیار بالخصوص منافقوں کی روش ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’وہ تیز رفتار ہیں کفر میں ان لوگوں سے جنہیں نے کہا ہم ایمان لائے (صرف) اپنے مُنہ سے حالانکہ نہیں ایمان لائے تھے ان کے دِل‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت 41)۔

وہ احکامات جو خطبہ نکاح میں دیے جارہے ہیں اگر ہم اس سے غفلت برتیں گے تو نظام خاندان بازیچۂ طفلاں بن کر رہ جائیگا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہماری خفتہ صلاحیتوں کو بیدار فرمادے تاکہ ہم اسلامی نکاح کی اہمیت، اس کے دنیوی و اخروی فوائد و برکات کو سمجھ سکیں، خطبۂ نکاح کے ظاہری و باطنی پہلوئوں پر عمل کرسکیں اور ہمیں دینی و قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔