خیرجلیس فی الزمان کتاب

عبد الرشید طلحہ

عالمی یوم کتاب (World Book Day) ہر سال دنیا بھر میں 23 اپریل کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارےیونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کی ابتدا 1995ء میں ہوئی؛جس کا مقصد بین  الاقوامی سطح پر عوام میں مطالعہ و کتب بینی کو فروغ دینا ، اشاعتِ کتب اور اس کے حقوق کے سلسلے میں شعور بیدارکرنا اورمختلف انداز سے کتاب کی اہمیت وافادیت کواجاگرکرناہے۔

‘‘خیر جلیس فی الزمان کتاب’’یعنی "کتاب”دنیا کی بہترین رفیق ہے، یہ عربی کاایک مشہور مقولہ ہے؛جس کی صداقت سے مجال انکار نہیں اور یہ بھی امرواقعہ ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی انسان کوسب سے پہلے کتابوں سے سابقہ پڑتا ہے اور یہی کتابیں اسے زندگی کے نشیب و فراز، طرزوانداز، بودوباش، رہن سہن غرض ہر قسم کے آداب سکھاتی ہیں ،کوئی انسان کتاب کے بغیر صحیح معنی میں اچھا انسان اور مہذب فرد نہیں بن سکتا،ان ہی کتابوں کا احسان عظیم ہےکہ بلند پایہ مصنفین کےمختلف افکار وخیالات اور حکیمانہ اقوال ونکات ہم تک پہونچ سکے؛حتی کہ خدائے ذوالجلال نے انسانیت کی رشدوہدایت کےلئے جو سلسلہ قائم فرمایا اس میں بھی رجال کے ساتھ ساتھ کتاب کو خاصی اہمیت دی اورمختلف کتب وصحف کو نازل فرمایا ‘‘قرآ ن مجید’’اسی زریں سلسلہ کا حسین خاتمہ ہے۔

دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں ، درختوں کی چھالوں ، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں ، کھجور کے پتوں ، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لئے استعمال کی؛ جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ بعض مورخین کا خیال ہے دنیا کی پہلی کتاب قدیم مصریوں کی ”الاموات“ ہے۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی کتاب چین میں لکھی گئی ،غرض مختلف صبرآزما مراحل سے گزرکر نہایت سہل اور آسان انداز میں استفادے کی متنوع شکلوں کو لئےہوئے ‘‘کتاب’’ ہمارے سامنے موجود ہے۔

 کتابیں تا دمِ حیات زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین رفیق، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں ، کتاب دوستی شعوروآگہی کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں ، اسی طرح کتابوں کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاءبھی محال ہے، کتاب نے علم کے فروغ اور فکر کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

‘‘ کتاب’’ اکابر واسلاف کی نظرمیں:

ہر زمانے میں کتاب کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا گیا ہے،ہمارے اسلاف نے کتابوں کو نہ صرف بہترین دوست مونس و غم خوار قرار دیا؛بل کہ عملی طور پر اس کا جیتاجاگتا ثبوت پیش کیا ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکا فرمان ہے’’ میں نے قبر سے زیادہ واعظ وناصح ،کتاب سے زیادہ مخلص دوست اور تنہائی سے زیادہ بے ضرر ساتھی کوئی نہیں دیکھا۔

حضرت ابوالعباسؒ کا قول ہے کہ

کتابوں سے کسی فتنے اور بدمزگی کا اندیشہ نہیں ہوتا ،اور نہ اس کی زبان اور ہاتھ سے کوئی خطرہ ہوتا ہے۔

فارسی کابھی معروف مقولہ ہے کہ

ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ۔

ترجمہ:کتاب سے بہتر کوئی ہم نشین تلاش کرنا فضول ہے، یہ ہر موقع پر ہی ساتھی اور رفیق ہے۔

سکندر نے اپنے کتب خانے کو روحانی معالج کا نام دے رکھا تھا۔

اسلاف امت اورمطالعہ وکتب بینی:

علم کی ترقی اور استحکام میں مطالعہ کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، مطالعہ، علم کی فروانی اور افزائش کا ذریعہ ہے،علمی ترقی و عروج کا راستہ مطالعہ و کتب بینی سے ہوکر ہی گزرتا ہے،مطالعہ و کتب بینی کے بغیر علم میں نکھار و کمال ناممکن ہے،مطالعہ کی عادت کے ذریعہ ہی طلبا اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور علم و حکمت کے نوادرات کو اجاگر کر سکتے ہیں ؛مگرآج ہمارے لئے بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اسلاف واکابر میں مطالعہ کا جو ذوق و شوق پایا جاتا تھااب وہ ناپید ہوتا دیکھائی دے رہا ہے،اقبال مرحوم نے اسی پر یوں مرثیہ خوانی کی ہے ۔

ہرکوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے

تم مسلمان ہو! یہ انداز مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

  • امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله تعالی سے جب زیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ پوچھی گئی، تو فرمایا، لوگ تو یہ اطمینان کرکے سو جاتے ہیں کہ کوئی مسئلہ پیش آیا تو محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ لیں گے، میں کس پر اعتماد کرکے سو جاؤں ؟

اور تواورمرغ سحر کی نغمہ سنجی جب آپ کے مطالعہ میں خلل کا باعث بنی تو اسے ذبح کرادیا۔

 کتب بینی، حصول علم اور اشاعت علم کے اس جنون نے بہت سارے اساطین امت کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے باز رکھا۔ انہوں نے علم کو رشتہ ازدواج پر ترجیح دی، شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله نے ایسے شموس بازغہ، کے اسمائے مبارکہ او ران کے مختصراحوال ”العلماء العزاب“ نامی کتاب میں جمع فرمائے ہیں اور شیخ ہی کی کتاب”صفحات من صبر العلماء“ عشاق علم اورسچےطالبین کی حیرت انگیز داستانوں اور ان کی پرعزم زندگیوں کا ایک حسین مرقع ہے۔

  • معروف محدث وفقیہ علامہ ابن جوزیؒ نے بغدادکے کتب خانوں اورکتابوں کے ذخیرے سےاتنا فائدہ اٹھایا کہ خود ایک جگہ فرماتے ہیں :

” اگر میں کہوں کہ بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو شاید آپ کوبہت زیادہ معلوم ہوگا اور یہ طالب علمی کے دور کا ذکر ہے، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات واخلاق، قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کی کتابوں کے بغیر نہیں ہو سکتا۔“

  • علامہ یوسف بنوری ؒ فرماتےہیں کہ: حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے ۱۳۲۱ھ میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کی مشہور شرح ہدایہ ”فتح القدیر“ اور اس کے تکملہ کا مطالعہ صرف بیس سے کچھ زائد ایام میں کیا اور کتاب الحج تک اس کی تلخیص بھی لکھی اور انھوں نے صاحب ہدایہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا جواب بھی تحریرکیا۔ اس کے بعد مدت العمر ”فتح القدیر“ کی مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور کسی تازہ مطالعہ کے بغیر اس کی نہ صرف باتوں بلکہ طویل عبارتوں تک کا حوالہ سبق میں دیا کرتے ۔(اکابر دیوبندکیاتھے)
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

 اس ناکارہ کا معمول 1335ھ سے ایک وقت کھانے کا ہوگیا تھا ۔۔۔کہ رات کو کھانے میں مطالعہ کا حرج ہوتا نیند بھی جلد آتی تھی ،پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا ۔ابتداءً میری ایک چھوٹی بہن کھانا لے کر اوپر میر ی کوٹھری میں پہنچ جاتی تھی اور لقمہ بناکر میرے منہ میں دیتی تھی اور دیکھتی رہتی تھی کہ جب منہ بند ہوجاتا تو دوسرا لقمہ دے دیا کرتی تھی ،اس ناکارہ کو التفات بھی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کھلایا ایک دوسال بعد اس کو بھی بند کردیا ،اس زمانے میں بھوک تو خوب لگتی مگر حرج کا اثر بھوک پر غالب تھا۔

بہ طور‘‘ مشتےنمونہ ازخروارے’’ اکابرواسلاف کےعلمی انہماک ،ذوق مطالعہ اور شوق کتب بینی کے چند واقعات نقل کئے گئے ،اب اخیرمیں ہم اس مضمون کوحضرت مولانا اسعد الله صاحب رحمہ الله ناظم مظاہر علوم سہارن پور کی  خوب صورت نظم "مطالعہ”پر ختم کرتےہیں ۔

انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ

ہے چشم دل کے واسطے کاجل مطالعہ

دنیا کے ہر ہنر سے ہے افضل مطالعہ

کرتا ہے آدمی کو مکمل مطالعہ

یہ تجربہ ہے خوب سمجھتے ہیں وہ سبق

جو دیکھتے ہیں غور سے اوّل مطالعہ

ہم کیوں مطالعہ نہ کریں ذوق وشوق سے

کرتے نہیں ہیں احمق واجہل مطالعہ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. محمد انس فلاحی سنبھلی کہتے ہیں

    ماشاءاللہ
    بہت عمدہ مضمون ہے.

تبصرے بند ہیں۔