رنج خادم کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ!

صفدرامام قادری

اپنی زبان کی خدمت بھی کیا خوب چیز ہے؟  ہندستان کے کسی صوبے میں چلے جایئے۔’ خادمِ اردو‘اور’ حاکمینِ اردو‘ کی ایک فہرست ہر جگہ تیار شدہ حالت میں ملتی ہے۔ مادری زبان کا پڑھنا،مادری زبان کی توسیع واشاعت میں حصہ لینا اگر خدمت ہوتو فرائض کسے کہیں گے؟ مگر اس نام اور کام کے افراد ملک کے گلی کوچوں سے لے کر یونی ورسٹیوں اور قانون ساز ایوانوں کے بالاخانوں تک نظرآتے ہیں ۔ کئی ایسے خادمانِ اردو پارلیامنٹ تک پہنچے اور بعض نے وزارت کی کرسیاں بھی حاصل کیں ۔شاید ہی کوئی شہرت یافتہ خادمِ اردو ہو جسے چھوٹی بڑی کرسی نہ ملتی ہو۔ یعنی خدمت کے نام پر کرسیاں یا مراعات حاصل کرنے کا بڑا آزمایا ہوا سلسلہ پورے ملک میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

  بہت زمانہ پہلے جنگِ آزادی کے دوران زبان کے نام پر تحریک چلانے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ ناگری آندولن کا مقصد تھا کہ ہندی کو فروغ دیاجائے اور رسمِ خط کے طورپر دیوناگری کو مستحکم کیا جائے۔ ناگری پرچارنی سبھابنی اور اردو زبان کو نشانہ بناتے ہوئے یہ تحریک سامنے اور پیچھے کے مقاصد کے حصول میں کچھ اس طرح کا میاب ہوئی کہ یہاں بھی وزارت اور ایوان کی رکنیت یا ڈائریکٹر،سکریٹری اور چیرمین بننے کا ایک طویل سلسلہ اپنے آپ بنتا چلاگیا۔ تھوڑے بہت علمی کام بھی ہوئے مگر سب سے زیادہ توجہ سے حصولِ عہد ہ اور لسانی تنازعات  پیدا کرنے کے کام ہی ہوئے۔

 شبلی نعمانی اور مولانا حبیب الرحمان شروانی نے جب انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی ، اس وقت کہیں نہ کہیں اس لسانی منافرت  کے سدِّ باب کا تصور ان کے ذہن میں رہاہوگا جسے مولوی عبدالحق کے زمانے میں ایک بھر پور علمی ادارے کے طور پر فروغ حاصل ہوا۔ مولوی عبدالحق کو لوگوں نے ’بابا ئے اردو ‘کہہ کر ان کے کاموں کی توثیق کی۔ آزادی ملی، مولوی عبدالحق کے پاکستان چلے جانے اور جمہوری اداروں کے آزادانہ طور پر کام کرنے  کے آغاز کے ساتھ اردو کے نئے مسائل سامنے آئے۔ ایک زمانے تک حیات اللہ انصاری کی سربراہی میں انجمن ترقی اردو کے پلیٹ فارم سے اردو کے آئینی حقوق کی حصولیابی کی قومی سطح پر پیش رفت شروع ہوئی۔ لاکھوں کی تعداد میں اردو عوام نے میمورنڈم پر دست خط کرکے حکومت کے سامنے اپنی باتیں رکھنے کی کوشش کیں ۔ پھر ڈھلان کا سفرشروع ہوا اور اردو کی سیاسی، سماجی اور توسیعی سرگرمیوں میں علاقائی گوشے ابھرنے لگے اور قومی سطح پر کسی خاص موضوع کے تحت افراد کو جوڑنے اور حکومتِ وقت سے تبادلۂ خیال کرنے کی ملک گیر مہم کا خاتمہ ہوگیا۔

  اسی دوران علاقائی سطح پر اردوکے آئین حقوق کی حصولیابی کے لیے جگہ جگہ تحریکیں شروع ہوئیں ۔کشمیر، بہار، اترپردیش ، دہلی اور آندھرپردیش میں اس سلسلے سے سر گرمیاں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں ۔ بہار میں ہر چند کہ خادمینِ اردو کے جھگڑے میں انجمن ترقی اردو کی دو شاخیں پید اہوگئی تھیں مگر سرکاری زبان کی فہرست میں شمولیت کی مہم میں ان اختلافات سے کچھ خاص نقصان نہیں ہوا اور اردو دوسری سرکاری زبان بننے میں کامیاب ہوئی۔

جن لوگوں کی بنیادی کوششیں تھیں ، ان میں سے اکثر اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں مگر بعض خادمینِ اردو رہ رہ کر اب بھی یہ دعویٰ کرتے نظرآتے ہیں کہ انھی کی تحریر ، ڈرافٹ یا مشورے سے بہار میں اردودوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔  ایسے میں یہ سوال بہت موزوں ہوتا ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ آخر اس قانون کی خامیاں جو اب اجاگر ہو رہی ہیں ، ان کی ذمہ داری کس پر عاید ہوگی؟آخر جرم کس کا ہے؟

 کبھی کبھی یہ مہم چلتی رہتی ہے کہ اردو کو اس کا بنیادی حق دینے کے لیے متعلقہ وزرائے اعلاکا بہ اہتمام سپاس گزارہواجائے ۔ا سی کے ساتھ لازمی طور پر ان ’خادمین ‘اور’ تحریک کاروں ‘ کا بھی شکریہ ادا کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ملوکیت اور سرمایہ دارانہ جبر کو یہاں وہ کیوں روا رکھنا چاہتے ہیں ۔ کوئی عہدہ دار اگر اپنی آئینی ذمہ دار ی اور جواب دہی ادا کرتاہے تو اس کے لیے شکریے کی اضافی رسم حقیقت میں جاگیر دارانہ جبر کی علّت ہی ہے اور ہم اپنی پرانی عادتوں سے مجبور ہوکر سپاس گزاریوں سے آئین کی قسم کھانے والے عہدہ داروں کو مبارک بادیوں کا عادی بنادیتے ہیں ۔ ملک بھر کے اردو خبارات کے ہزاروں اور لاکھوں کالم اس’ ادبِ مبارک بادی ‘میں برباد ہوتے رہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حکومت کے کارپردازان سپاس گزاریوں اور مبارک بادیوں کی رسد پہنچانے والوں کو ظاہری یا پوشیدہ طور پر انعام واکرام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جس کا آئندہ سلسلہ خوشامد ، چاپلوسی کے راستے ہوتے ہوئے دربارداری کی سو، دوسو اور ہزار کی رقمیں پانے کی لذّت میں فطری طورپر ضم ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔

 اردو کا کوئی استاد ، شاعر ، ادیب ، فن کا ر خود کو ’خادمِ اردو ‘ کہلانے میں کیوں دلچسپی لیتاہے ؟ہندی، انگریزی ا ور دوسری زبانوں میں خادم کہلانے کی کوئی ہوڑ نظر نہیں آتی۔ سب اپنے اپنے کاموں میں منہمک ہیں ۔ کوئی پڑھ رہاہے اور کوئی پڑھا رہا ہے۔ کوئی لکھ رہا ہے اور کوئی اخبار نکال رہا ہے۔ اس صارفی عہد میں صرف لکھنا اور صرف پڑھنا شاید ہی کسی کے لیے ممن نہیں ہو۔ ہر آدمی کو، چاہے وہ کوئی بھی ہو؛ آج الگ سے روٹی کمانی پڑتی ہے۔ اس کے لیے کوئی لکچر ر ہوگیا یا کوئی کارکن صحافی یا کو ئی انتظامیہ کا عہد ے دار۔ انھی میں سے کوئی سکریٹری ، چیرمین اور کوئی وائس چانسلر یا ڈائریکٹر ہوگیا۔سب کے لیے الگ الگ چھوٹی بڑی تنخواہیں مقرر ہیں ۔ جو جس لائق ہے، اسے وہ پاتارہتا ہے۔ لیاقت اور پہنچ یا علمی اور لسانی استعداد کے مطابق انھیں رقمیں حاصل ہوتی ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اردو پڑھنے والے ہزاروں لوگ سڑکوں پر بے روز گار  پڑے ہوئے ہیں جب کہ نہ جانے کتنے خدمت گزار ہیں جو کئی جگہوں سے چھوٹے بڑے عہد ے اور ان کی تنخواہیں پانے میں اپنی مشقت کے بل بوتے پر کامیاب ہیں ۔ بعض سبک دوشی کے بعد بھی لاکھوں کی رسد پاتے ہیں مگر اکبر کے مطابق ذرا تحریف کے ساتھ کہوں کہ رنج ’خادم‘ کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ۔

 ایک عجیب و غریب نفسیاتی مسئلہ اردو عوام کے بیچ  یہ موجودہے کہ سب کو اردو کے اساتذہ خاص طور پر کالج اور یونی ور سٹی کے افراد سے طرح طرح کی پریشانیاں ہیں ۔ بعض سہل پسندا ساتذہ بھی یہ بات کہتے  رہتے ہیں کہ اردو کو اردو کے اساتذہ نقصان پہنچارہے ہیں ۔ اخبار میں زبان کی خامیاں اور خبروں کے کھیل تماشے ہوتے رہیں لیکن صحافی غلط نہیں ۔ اردو کے مترجم، اردو کے بڑے بڑے عہدے دار، ہزاربے اعتدالی کریں مگر وہ قصوروار نہیں ۔ وہ سب ’خادمینِ اردو‘ ہیں ۔ اب فرشتوں سے نا فرمانی اور گناہوں کی امید کیسے کی جائے؟اردو کے ادیب ، شاعر جتنی کج ادائیاں روا  رکھیں ، وہ سب درست۔ کیوں کہ وہ بے لوث خادمِ اردو ہیں ۔ اقبال پہلے ہی کہہ چکے ہیں :’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘ ۔ اساتذہ ٔاردو اگر صد فی صد فرض ناشناس ہیں تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ موجودہ زمانے کے یا اس پہلے کے پڑھے پڑھائے اور زندگی کے مختلف مورچوں پر اردو کی خدمت کرتے نظر آنے والے افراد کیا ماں کے پیٹ سے اردو کی عالمانہ استعداد اور علمی استحقاق لے کر پیدا ہوئے ہیں ؟

 اردو کے نام پر بہت سارے کاروبار ہیں ۔ کچھ چل رہے ہیں اور کچھ چلانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں ۔ جمہوری نظام اور صارفی عہد میں تنخواہ دار ملازمین ہی سب کچھ کریں گے۔ اسی لیے صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کو بھی تنخواہیں میسّر ہیں اور اسکول کے استاد یا ایک اخبار کے کارکْن صحافی کو بھی حسب ِ ضابطہ تنخواہیں ملتی ہیں ۔ سب کے فرائض طے ہیں اور انھیں کام کرنے ہوتے ہیں ۔آج کے زمانے میں ’ خدمت‘ کا لفظ کتابوں یا تقریروں میں ہی اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے شہادت، قربانی اور ایثار کے الفاظ ہیں ۔ آج انگریزوں سے آزادی کی لڑائی نہیں لڑی جارہی ہے۔ اس لیے سماج کی تبدیلی کا جن کے ذہن میں بھی کوئی خواب ہے ، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کے نام پر انھیں تنخواہ دار افراد سے ہی سابقہ پڑے گا۔

اسے فرض کی جگہ پر جو خدمت کہتے ہیں ،  وہ حقیقت میں جاگیر دارانہ اصطلاحوں کی جگالی کرکے اپنی گذشتہ سلطانی کی پناہ میں پہنچناچاہتے ہیں ۔ یہ جمہوریت اور جمہوری نظام حکومت کا طور نہیں ۔ اب بھی خدمت کے نام پر حکاّم کے ساتھ ڈنرچٹ کرنے کی ملوکانہ خواہشات دبی ہوئی شکل میں ہمارے دلوں میں موجود ہیں ۔ خدارا جو جس شعبے میں ہے ،اگر اردو اس کی مادری زبان ہے تو وہ اپنی تنخواہوں کے عوض ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرے اور اپنی رزق کو حلال کرنے کا ذاتی نشانہ مقرر کرے۔ انشاء للہ ہزاروں مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ کسی کو’ خدمت‘ کے پْراز انکسار تکبر میں مبتلا رہنا کم ازکم اس زمانے میں معقول بات نہیں اور  ایسے افراد کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نہ ہی ہندستان میں یا عالمی سطح پر خادمین کے لیے کوئی کھلی ہوئی چھوٹ ملنے والی ہے۔ اب سب کے حقوق  اور فرائض  برابر ہیں اور ہر آدمی کو اپنا مواخذہ خود کرنا چاہیے ۔ دوسروں سے سوال پوچھنے یا غیر کی پگڑی اچھالنے  سے بہتر تو یہی ہے کہ اردو کے ہر فرزند کو اپنے کاموں کا احتساب کرنا چاہیے ۔ خادم اور مخدوم کے نام نہاد افتخار سے علاحدہ  ہو کر اپنے حصے کے فرائض ادا کرنے میں منہمک  ہونا چاہئے کیوں کہ بہ قولِ میرؔ:

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرہوئے

ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے

تبصرے بند ہیں۔