دار العلوم دیوبند کا عظیم سپوت نہ رہا

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

ملت کے تئیں نرم وگداز دل رکھنے، رات ودن ملت کے لئے تڑپنے والا، اپنے دائرہ علمی، اپنی گوں ناگوں صلاحیتوں سے آراستہ وپیراستہ، دار العلوم کا عظیم سپوت، ہوشمند عالم، کہنہ مشق قلم نگار، ملت کا عظیم ہمدرد ورہنما، سیاسی خاردار وادیوں کا عظیم رہرو، خطیب شعلہ بیان، جس کی کاخطاب تاریخ واقعات سے بھر پور ہوتا،اب ہمارے درمیان نہ رہا، جب دار العلوم دیوبند میں 2002 م میں زیر تعلیم تھا، تو اس وقت موصوف کا پر مغز وپر اثر خطاب سننے کو ملا، دل پر ضرب پڑی، مولانا کی صلاحیت اور خوبیوں اور گوں ناگوں لیاقتوں، تاریخ اور واقعات کے سن وار بیان کرنے پر قدرت ورطہ نے حیرت میں ڈال دیا، تب سے مولانا کے نقوش وخدو خال اور ان کا علمی اور سیاسی وملی ولولہ اور جذبہ دل کے نہاں خانوں میں رچ بس گیا، مولانا ذات والا صفات کی گوں گوں خوبیوں کا قائل ہوگیا، یہی مولانا کی عظیم ذات سے تعارف کا پہلا وقت تھا، اس کے علاوہ اس وقت سے لے کر اب تک، بلکہ کل شام میں ماہنامہ ’’اشرف الجرائد‘‘ کا مطالعہ کررہا تھا کہ ناگاہ نگاہ مولانا محترم کی مضمون پر پڑ گئی، صبح ہوتے ہوتے واٹساپ پر مولانا کی رحلت کی اندوہناک خبر نے وششدر کردیا، بظاہر تو عمر کے اس مرحلے میں نظر نہیں آتے تھے کہ ملت اسلامیہ کا ایک سیاسی وسماجی، دار العلوم دیوبند کا ایک عظیم سپوٹ جس نے ہر میدان میں اپنے انمٹ اورگہرے نقوش چھوڑے، اس کی رحلت کا وقت ہو، لیکن تقدیر تدبیر غالب آجاتی ہے، شب جمعہ مولانا نے اپنی جان جانِ آفرین حوالہ کردیا، اور راہی دار البقاء ہوگئے، جانا تو ہر ایک کو ہے، لیکن ایسی شخصیات ہوتی ہیں، جن کے جانے کی وجہ سے ملت میں ایک بڑا خلا نظر آتا ہے، با صلاحیت اوردور بین نگاہ، دورس اثرات کے حامل شخصیات کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا، خصوصا جن کا ملک کے موجودہ میں سیاست ان کا عمل ودخل بھی ہو بڑا حیرت انگیز اور نہایت مشقت کن مرحلہ ہوا کرتاہے، مولانا جیسا دوربین نگاہ عالم دین، سیاست داں کا ملک کے موجودہ حالات میں ہمارے درمیان سے چلا جانا یہ مسلمانوں کے لئے بڑا سانحہ اور مسلم سیاست کے ایک عظیم باب کا خاتمہ ہے، اس کے علاوہ مولانا کی یادیں شاید ذہن ودماغ کے گوشوں سے نہ جائیں، اس لئے کہ بحیثیت ایک چھوٹے موٹے مضمون نگار کے ہر دم ہر جگہ روزناموں، ماہناموں اور اردو رسائل وجرائد میں بکثرت مضامین دیکھنے ملتے، عجیب حیرت کن بات یہ ہوتی جہاں مولانا سیاست کی خادار وادیوں میں ہوتے ہوئے بھی سیاسی وسماجی اور اصلاحی مضامین برملا برجستہ لکھا کرتے، ہر دم آپ کے مضامین اخبارات ورسائل وجرائد کی زینب بنتے، ابھی کچھ دن قبل ہی ’’الداعی ‘‘ دار العلوم دیوبند کے سارے پچھلے شماروں کی ورق گردانی اور مطالعہ کا موقع ملا، مولانا کے بہت سارے مضامین کا دار العلوم کے فارغین نے اردو سے عربی میں ترجمہ کیا ہے، جس کی تعداد بھی پچاس ساٹھ مضامین سے کم نہیں ہوگی، اگر ان مضامین کو یکجا جاتا ہے تو یہ بھی مولانا کی حیات’’ مجلہ داعی‘‘ کے حوالے سے ایک روشن باب ہوگا، ان مضامین کی افادیت کے خاطر مختلف ابناء دار العلوم نے مختلف مواقع سے ان کے مختلف موضوعات اور ضرورت اور موقع کے لحاظ سے عربی میں ترجمہ کیا جس کو دار العلوم کے عظیم او ر مؤقر روزنامہنے شامل اشاعت کیا۔

مختصر حالات زندگی:

دینی وملی وسیاسی وتحریری وتدریسی خدمات انجام دینے والے دار العلوم دیوبند کے اس عظیم سپوت نے تقریبا نصف صدی سے زائد ملک وملت اور دین کے تئے عظیم خدمات روشن باب ہمارے سامنے چھوڑا، مولانا کی جائے ولادت موضع ’’ٹپو‘‘ کشن گنج بہار رہی ہے، مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے متعدد مدارس میں حاصل کی اور اعلی تعلیم میں دار العلوم دیوبند سے ۱۹۶۴ء میں سند فضیلت حاصل کی، فراغت، فراغت کے بعد مدرسہ رحیمیہ مدھے پورہ اور مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے بسلسلہ تدریس وابستہ ہوگئے، مولانا کا ابتداء ہی رجحان ملک وملت کی تئیں زبوحالی اور انحطاط کی وجہ سے ملی وسماجی کا خدمات کا تھا، چنانچہ مولانا نے فراغت کے بعد تدریس کے دوران کے دس سال باضابطہ کسی علاقائی یا ملکی تنظیم سے وابستگی اور رہ ورسم نہ رکھی، بلکہ اس دوران اپنے پیمانے پر ملک وملت اور سماج کی خدمت کے تئیں ہمہ تن گوش ہوگئے۔

انہیں سماجی اور ملی خدمات اور اس کے تئیں ان کی تڑپ اور جذبہ اور عاطفت کو دیکھ کر ملک کی قدیم اور موقر تنظیم جمعیت علماء ہند نے ۱۹۷۴ء میں مولانا کی خدمات کو حاصل کرنا چاہا، پھر چار سال بعد ان کی صلاحیت ولیاقت اور ان کی دروبین نگاہی اور دورسی اور نگاہ عقاب ملک ووطن اور ملت کی تئیں بے پایاں خدمات اور جذبہ وعاطفت کو دیکھ ۱۹۸۱ء میں ان کو جمعیت کا جنر ل سریٹری بنایا، دس سال تک مولانا اس خدمت کو انجام دیتے رہے، اس کے بعد مولانا نے جمعیت سے بچند وجوہ سبکدوشی اختیار کر کے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے ایماء پر ’’ آل انڈیا ملی کونسل ‘‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے لئے انہوں نے ملک کے طول وعرض میں اسفار کئے، مسلمانوں کی پسماندگی اور بے مائیگی اور نہایت بدحالی اور نکبت کا اندازہ کیا کہ مسلمانوں کی حد درجہ پستی اور نحطاط کی صرف اور صرف برادران وطن کے مقابلہ میں تعلیمی میدان میں ان کا پیچھے رہ جانا ہے، اس لئے جب تک مسلمانوں کو دیگر برادران وطن کے ہم پلہ زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ نہیں کیا جاسکتا اس وقت تک ان کی پسماندگی اور انحطاط کا علاج ممکن نہیں، اس لئے مولانا نے ۲۰۰۰ میں ’’ آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس کے تحت مولانا جگہ جگہ مدارس، مکاتب اور اسکولس وکالجس کی بنیاد رکھی اورتعلیم کے تئیں مسلمانوں میں شعور بیدار کیا، مولاناکے قائم کردہ تعلیمی اداروں سے اب اس وقت بھی بے شمار طلباء وطالبات اپنی تشنگیٔ علم کو بجھارہے ہیں، ایسی ایسی جگہ طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے جہاں کے لوگ بالکل جہالت کی وادیوں میں گم کردہ راہ ہوگئے تھے۔

مولانا کی اسی بے لوث اور مخلصانہ خدمات اور تعلیمی میدان میں شعوری بیداری کے تئیں جدوجہد کی وجہ سے انہیں ۲۰۰۹ء میں کانگریس نے ایم کے کے انتخابات میں حلقہ کشن گنج سے امیدوار مقرر کیا، نمایاں اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے، بلکہ گذشتہ انتخابات میں جب کہ بہار میں کانگریس کا بالکل صفایا ہوچکا تھا مولانا نے اپنی ساکھ براقر رکھی اور اس سیٹ سے بھاری اکثریت کامیابی حاصل کی۔ (مستفاد بتغییر کثیر، واضافہ : دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ : ۲۲۶، از نایاب حسن قاسمی)

مولانا بحیثیت صحافی ومضمون نگار:

مولاناجہاں اسطرح کی ملی وسماجی خدمات سے وابستہ تھے، سیاسیت کی خار دار وادیوں میں بھی قدم رکھا تھا، لیکن ان کی زندگی کا ایک خاص اور نمایاں وصف یہ تھا کہ انہوں نے زندگی کے کسی مرحلے میں قلم سے اپنی وابستگی نہیں چھوڑی، برابر ہر ہفتہ مولانا کی مختلف موضوعات ملکی حالات اور مسلمانوں کی ذمہ داریوں اور سماجی اور دینی واصلاحی مضامین منظر عام پر آتی، جو مختصر ہونے کے باوجود نہایت پرمغز اور اور غنچہ بہاراں ہوتے، مولانا کے مضامین کی شان امتیازی اور خصوصیت کی وجہ سے ہر جگہ کے اخبارات اور مجلات کی وہ زینت بنتے، مولانا نے ابتداء دار العلوم کے قیام کے دروان’’ سجاد لائبریری‘‘ کے ماہنامہ ترجمان ’ البیان ‘‘ سے اپنی صحافتی دور کا آغاز کیا، پھر زندگی کے کسی مرحلے میں اس میں اس پر ادنی سا اضمحلال نہیں دیکھنے کو ملا، صحافی بھی انسان ہوتا ہے، قلم نگار بھی مصائب ومشکلات، زندگی کے نشیب وفراز سے دوچار ہوتا ہے، لیکن مولانا کا نہ تھکنے والا قلم بالکل رواں ہر دم جواں کے مصداق سفر آخرت کو کوچ کرنے سے پہلے تک جنبش وحرکت پذیررہا، اور اپنے قیمتی مونگی وموتی بکھیرتے رہا، مولانا جمعیت سے وابستگی کے دوران جمعیت کے ترحمان ہفت روزہ ’’ الجمعیۃ ‘‘ کی ادارت سنبھالی، ’’ملی اتحاد‘‘ دہلی کے مدیر اعلی رہے، اس کے بعد مختلف کے مختلف اخبارات خصوصا سہار ا کے ہفتہ وار کالم نگار اس کے علاوہ کئی ایک عربی اور انگریزی اخبارات میں مولانا کے مضامین کا ترجمہ شائع ہوتا۔

ملک کے حالات خوا ہ کچھ ہوں، مولانا قلم کے ذریعے ملک وملت کی رہنمائی کا فریضہ نہایت بے باکی، صداقت اور شجاعت کے ساتھ انجام دیتے رہے، کبھی حق کی آواز کو مولانا نے نیچے ہونے نہیں دیا، انہوں نے جو کچھ لکھا وہ قلم کی صرف سیاسی نہیں ؛ بلکہ ان کی ضمیر کی آواز تھی، انہوں نے کبھی بھی اپنا دینی مزاج اور عالمانہ شان اور وقار کو ٹھیس پہنچنے نہیں دیا، گرچہ طلاق ثلاثہ کے موقع سے لوک سبھا میں بل کے پاس ہونے پر مولانا کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، لیکن بعد میں مولانا ہی کی جدوجہد اور کانگریس ہائی کمان پر زور کی وجہ سے یہ بل راجیہ سبھا لٹکارہا، مولانا نے اس حوالے سے بڑی جدوجہد کی، مولانا بے باک بے لاگ اور بغیر کسی ملامت کی پرواہ کئے بغیر ملک وملت کے تئیں کڑھ کر لکھتے، مولانا کی خصوصیت یہ رہی کہ مولانا نے کبھی اپنی شخصیت کو اختلافات اور مسلکی انتہاپسندیوں سے اور اپنے قلم کو ہمیشہ مثبت اور حق گوئی اور بے باکی پر باقی رکھا، مولانا کی مثبت اور ملک وملت کے تئیں ہمدردی او ردینی وسطیت واعتدال اور علماء دیوبند کے مزاج وفکر کو اپنے اندر لئے ہوئے ان کا سیال قلم ہر سلگتے مسئلہ کونہایت شستگی اور برجستگی کے ساتھ لکھتا جس میں خصوصا مسلمانوں کے تئیں آپسی اتحاد اور باہمی یگانگت کی دعوت وتلقین ہوتی، افتراق تشتت اور تخرب وتفرقہ بازی سے ہمیشہ اجتناب کی دعوت دی جاتی، مولانا کی تحریریں نہایت سادگی، سلاست، روانی، برجستگی وبے تکلفی کی حامل ہوتی، جس کا سمجھنا اور پڑھنا ہر کے لئے سہل تر ہوتا۔

 مولانا کے مقالات کے کئے ایک مجموعے زیور طباعت سے آراستہ وپیراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں مسلمانان ہند کی گوں نا گوں سیاسی ومعاشرتی مسائل اوران کی تجزیوں پر مشتمل ’’ سلگتے مسائل‘‘ ’’ہندوستانی مسلمان: مسائل اور مزاحمتیں ‘‘ اور اسلام کے مطالبات کی عصری تشریح کے متعلق ’’ اسلام اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ اور اسلامی معاشرے کے خدو خال اور اس کی تشکیل اور تعمیر ی عناصر کی توضیح وتشریح پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ’’ معاشرہ اور اسلام انگریزی ترجمہ ’’Islam and society‘‘اسلام کی عورتوں کے مقام ومرتبہ اور ان کی قدر ومنزلت کو اجاگر کرنے والی کتاب ’’عورت اور مسلم معاشرہ ‘‘ اور اس کا انگریزی ترجمہ ’’ Justice in Islam‘‘ وغیرہ قابل مطالعہ ہیں۔

اس کے علاوہ مولانا کی گوں نہ گوں اور ہمہ جہت خدمات کا وسیع بات اور ایک روشن اور تابناک تاریخ اور ان کی ملکی، وطنی، ملی اور سماجی خدمات اور بطور دار العلوم کے سپوت کے ان کے یہ عظیم کارنامے ساری زندگی یادگار رہیں گے۔

 ارباب چمن مجھ کو بہت یاد کریں گے

ہر شاخ پہ اپنا ہی نشاں چھوڑا ہے

تبصرے بند ہیں۔