داعش کا فریب

 خبر ہے کہ داعش نے عربی زبان میں ایک ویڈیو جاری کیا ہے جس میں اس کے کچھ ممبران کا انٹرویو ہے اور اس کی خاص بات یہ کہ اس میں کچھ مبینہ انڈین شہری بھی شامل ہیں جو مبینہ طور سے انڈیا سے بھاگ کر اس میں شامل ہو گئے ہیں ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا واپس آئے گا لیکن ہاتھ میں تلوار لے کر بابری مسجد، کشمیر گجرات اور مظفر نگر میں مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لینے۔ یہ ویڈیو اصل ہے بھی یا نہیں یہ نہیں کہا جا سکتا ۔ ایک تو یہ کہ یہ ویڈیو ایسے وقت میں جاری ہوا جب کہ ملک میں مبینہ ہندو دہشت گردوں کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں دوسرے یہ کہ اس میں انڈین مسلم نوجوانوں کی مبینہ موجودگی اسکی صحت کو مزید مشکوک کرتی ہے۔ کچھ بھی ہو مسلمانوں پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی مسلمان اسے کوئی اہمیت دیں گے ،کیونکہ مسلمان مجموعی طور پر داعش اور اسکے سخت گیر نظریات کو مسترد کر چکے ہیں البتہ یہ ویڈیو ان لوگوں کے لئے بڑا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جو ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست کر تے ہیں اور جن کی سیاسی زندگی کا دارومدار ملک کی عوام کی ہندو مسلم تقسیم اور ایکدوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے میں ہے ،یہ ویڈیو ایسے لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوگا جو خاص طور سے مسلمانوں کو ملک دشمن بتا کرتمام ہندو ذاتیوں اور برادریوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک کر کے انکا ووٹ بنک کیش کر کے اقتدار پر قابض ہونا اور پھر ملک پر اپناخاص ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔داعش کے اس ویڈیو سے مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے کہ پہلے ہی سے سماجی طور پر قومی دھارے سے الگ کردئے گئے مسلمان اکثریت کی نظر میں مزید مشکوک بنا کر پیش کئے جائیں گے ۔یہ تو ممکن نہیں لگتا کہ داعش ہندوستانی مسلمانوں کو ورغلا کر یا اپنے طور پر یہاں کوئی نام نہاد ’انتقامی ‘کارروائی کر پائے گی لیکن اسکی اس گپ کی وجہ سے مسلم دشمن سازشی عناصر کو چارہ مل سکتا ہے اور وہ انڈین مسلمانوں کو بد نام کرنے انہیں دہشت گردوں کے حمایتی اور دہشت گرد ثابت کر نے کے لئے داعش کے نام سے کوئی تخریبی کارروائی کرسکتے ہیں۔ویسے بھی ملک میں مبینہ ہندو دہشت گردوں کو بچاکر ہندو دہشت گردی کی اسطلاح کو غلط ثابت کرنے کی اعلیٰ سطحی کوششیں کی جارہی ہیں داعش کی یہ گپ بازی ان کوششوں کو جلا بخشے گی۔ اگر ملک میں داعش کے نام پر کسی نے کوئی معمولی تخریبی واردات بھی کرڈالی تو ملک کے تعلیم یافتہ مسلم نوجوان سلامتی ایجنسیوں کی من مانی کے لئے آسان چارہ ہوجائیں گے۔مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے معاملات میں پھنسا نے والی سلامتی ایجنسیوں کو نیا بہانہ مل جائیگا حالانکہ پچھلے دنوں داعش سے تعلقات اور اس کے لئے کام کر نے کے الزام میں بھی مسلم نو جوانون کی گرفتاریاں ہوئی ہیں یہ ویڈیو اور اس میں انڈین شہریوں کی مبینہ شمولیت حالات مزید خراب کرسکتی ہے ،خدا نہ کرے (آمین) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وطن عزیز میں مسلمانوں کی حق تلفی ہو رہی ہے اور انہیں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں بہت منظم طریقہ سے سیاسی سماجی اور معاشی اعتبار سے حاشیہ پر لگا یا جا رہا ہے لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ مسلمان اس حق تلفی کے احتجاج کے طور پر داعش کی حمایت کریں گے ،یہ بات داعش نے اچھی طرح نوٹ کر لینی چاہئے ،اور یہ بات بھی نوٹ کر لینی چاہئے کہ انڈین مسلم داعش میں مبینہ طور پر شامل ہونے والے اپنے نوجوانوں کی حمایت بھی نہیں کرتے بلکہ انہیں داعش کے پروپگنڈے کے فریب کا شکار سمجھتے ہیں،اور تقریباً پوری مسلم قوم کا ماننا ہے کہ داعش دراصل مسلمانوں کے دشمنوں کی ایجنٹ ہے جو انہی کے مفادات کے لئے کام کرتی ہے ،اس کا مقصد مسلمانوں میں آپسی انتشار پیدا کر کے انہیں کمزور کرنا اور اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو اسلام سے جوڑ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ اب تک کی اس کی کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان سے فائدہ کسکا ہوا اور خسارے میں کون رہا؟ اور داعش نے یہ جو حالیہ ویڈیو جاری کیا ہے اگر وہ حقیقتاً داعش ہی کا ہے توگمان غالب ہے کہ وہ بھی انڈین مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ انڈیا کے مسلم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا نے کے لئے کیا ہے کیونکہ یہی اس کے پروپگنڈے کی بنیاد ہے کہ یہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کر کے اور ساری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی جھوٹی سچی کہانیاں ویڈیو اور تصاویر دکھا کر مسلم نوجوانوں کو بھڑکاتی ہے اور اپنی قتل و غارت کو جنت کے حصول کا ذریعہ بتاتی ہے ۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس منظر نامے کے پیچھے کار فرما سازشوں کو سمجھیں اور ہمارے نوجوانوں کو حقیقت حال سے آگاہ کریں۔انٹر نیٹ کی آسان دستیابی نے اس کی کڑی نگرانی کی ضرو ر ت بڑھا دی ہے ، ہمیں کم از کم یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ ہمارے بچے ان دہشت گردوں کے جال میں نہ پھنسیں اور ان کی دیندار ی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لعنت میں تبدیل نہ ہو۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھنا اور نوجوانوں کو دہشت گردی کے جال میں پھانسنے والو ں کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن یہ کارروائی بھی دہشت گردی نہ ہو اس کا خیال رکھنا بہت ضر و ر ی ہے یہ کارروائی غیر جانبدار تفتیش اور پورے قانونی عمل کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ دہشت گرد اسے بھی اپنی کارستانی کا جواز نہ بنا سکیں ۔ یوں توملک میں سنگھ کی کچھ تنظیمیں خود کی ،ہندوؤں کی ، اور ملک کی حفاظت کے نام پر جسمانی تربیت کے کیمپ منعقد کرتی رہتی ہیں لیکن اب یہ کیمپ دہشت گردی گردوں سے لڑنے کے لئے ننعقد کئے جارہے ہیں ۲۶،مئی کے ڈی این اے (آن لائن) کے مطابق یوپی کے ایودھیا میں اس طرح کے ایک کیمپ میں بجرنگ دل کے سینکڑوں کارکنان کو لاتھی تلوار اور ائر گن چلانے کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ مسلم شبیہ والے دہشت گردوں ( مسلم دہشت گردوں) کو قتل کر نے کی بھی ٹریننگ دی گئی۔ پچھلے دنوں داعش کے حوالے سے ایک تشویشنا ک خبر یہ بھی آئی تھی کہ دہلی کے اطراف سے لے کر اتراکھنڈ کی سرحد تک ’ہندو سوابھیمان ‘نامی ایک تنظیم داعش سے لڑ نے کے لئے ہندو نوجوانوں کی ایک نجی فوج بنام ’ دھرم سینا ‘ بنا رہی ہے جس نے ابھی تک یعنی پچھلے دوسالوں میں پندرہ ہزار سپاہی تیار کر لئے ہیں جو ’اپنے عقیدے کی حفاظت کے لئے مرنے کو تیار ہیں‘یہ لوگ تقریباً پچاس ٹریننگ کیمپس چلاتے ہیں جہاں نوجوان ہندولڑکے لڑکیوں اور بچوں کو بھی جسمانی ورزش اور ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے جن میں تلوار اور بندوق شامل ہیں۔اس تنظیم کے لیڈر نے دھرم سینا کا جو مقصد بتایا ہے وہ انتہائی تشویشناک اور ملک دشمنی پر مبنی ہے کہ ’ میں اپنے لوگوں کو خانہ جنگی کے لئے تیار کر رہاہوں‘( ٹائمز آف انڈیا ۲۰،جنوری ۲۰۱۶ ) یعنی داعش کی وجہ سے نہ صرف مسلمان شک کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں بلکہ ان کے خلاف غیر سرکاری، مذہبی سماجی اور سیاسی چوکسی بھی بڑھ رہی ہے اور مسلم دشمن عناصر اس موقع سے فائدہ اٹھاکر بالکل داعش ہی کی طرح غیر مسلموں کے اذہان میں مسلمانوں کی نفرت اور عداوت کا زہر بھر رہے ہیں اور انہیں ورغلا کر بہت آسانی سے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح سے تیار کر رہے ہیں جس میں مسلح تیاری بھی شامل ہے اور داعش اور اسکے حمایتیوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دینے والی سرکار اس ضمن میں بالکل خاموش ہے ایسا لگتا ہے کہ سرکار کی یہ خاموشی دراصل ان کی حمایت ہے۔ابھی ایودھیا کیمپ کے معاملہ میں بجرنگ دل کے صدر کو گرفتار کیا گیا تو وہ بھی ارکان کی فوجی ٹریننگ کے معاملہ میں نہیں بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں ۔ ویسے بھی وطن عزیز میں دہشت گردی کا مطلب مسلمانوں کی تخریبی کارروائیاں ،اور دہشت گردی مخالف کارروائیوں کا مطلب مسلم نو جو ا نو ں کے خلاف کارروائیاں ہو گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اب تک کی گئی پولس کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تعلیم یا فتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار و ہراساں کر کے ان کا کرئر تباہ کرنا اور دہشت گردقرار دے کر اور ملک میں کئی مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیموں کی فعال موجودگی کا اعلان کر کے پوری مسلم قوم پر دہشت گردی کا دھبہ لگا نا ہی تھا کیونکہ جس آسانی سے عدالتوں نے پولس کی کہانیوں اور ثبوتوں کو مسترد کیا ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ خود پولس کو اور سرکاری قانونی ماہرین کو ان ثبوت و شواہد کے کمزور ہونے کا ادراک نہ ہو یعنی یہ پوری کارروائی مسلم قوم کے خلاف ایک بہت بڑی اور منظم سازش تھی ۔ہمیں لگتا ہے کہ اس سازش میں سرکاریں بھی ملوث رہی ہیں اور اگر سرکاریں اس میں ملوث نہیں ہیں اور اگر یہ پولس کی ذاتی کارروائیاں ہی تھیں تو بھی اس کی ذمہ داری سر کار پر ہی عائد ہوتی ہے ، کہ سرکار نے اس ضمن میں خاطی پولس والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی یا کم از کم ان کے محاسبہ کا کوئی فعال نظام نہیں بنایا ۔ بلکہ خاطی پولس والوں پر کارروائی کر نے کی بجائے انہیں قانونی اور سیاسی پناہ فراہم کرتی رہیں۔موجو دہ حکو مت بھی جب حزب اختلاف میں تھی تو دہشت گردی کا شور صرف مسلمانوں کو آنکھیں دکھانے کے لئے ہی کیا کرتی تھی اور اب تو شاید یہ حکومت مسلمانوں کو دبانے کے لئے دہشت گردی مخالف کارروائیوں کے نام پر ان کے خلاف پولس اور پرائیویٹ’ ہندو ملیشیا‘ بھی استعمال کر نے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ مختلف ہندو تنظیموں کے ذریعہ قانون کی پابندی کے نام پر مسلمانوں کو سر عام زد و کوب کرنے کے وا قعات پر اور خاص طور سے ’ہندو سوابھیمان‘ تنظیم اور اسکی’دھرم سینا ‘ کے معاملہ میں اس کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے،ایسے میں داعش کی طرف سے اس طرح کاویڈیو جاری ہونا اس کے لئے سونے پر سہاگہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔