درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے؟

شعیب یونس خان

 اللہ رب العزت نے بنی آدم کو اس کائنات کی سب سے عظیم اور احسن تقویم والی مخلوق بنایا ہے اور کائنات کی رعنائیاں بنی آدم کی خدمت کے لئے لگا دی گئی ہیں ۔ ستاروں کی ٹمٹماہٹ ، آفتاب کی کرنیں ، نیلگوں فضائیں ، بہتے سمندر ، ہچکولے مارتی ہوئی اس کی لہریں ، بارش کے قطرات ،مختلف پھولوں کی مختلف خوشبو، سبزوخوشنما لہلہاتے ہوئے باغات اور اس میں لگے ہوئے انواع و اقسام کے میوے ، آبشار اور دو پہاڑیوں کے مابین گرتے ہوئے دلکش جھرنے اور اس کے خوبصورت مناظر یہ سب بنی آدم کے لئے سامان تفریح مہیا کرتے ہیں ۔ لیکن آج وہی انسان سسکتا اور بلکتا ہوا نظر آرہا ہے اورکچھ انسان نما حیوان صفت درندے اور خونخواربھیڑئے آج پوری دنیا میں انسانیت کا اس طرح خون کر رہے ہیں اور ایسے دل سوز واقعات ہورہے ہیں جس کو دیکھ کر شیطان کی شیطانیت بھی شرما جاتی ہے۔

آج ہم جس معاشرے اور سماج میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے آپ کو تعلیم یافتہ (Educated) اور مہذب (Civilized) گردانتا ہے، آج کی یہ دنیا اپنے آپ کو انسانیت نواز باورکرانے میں لگی ہوئی ہے ۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ آج کا انسان ترقی کے انتہائی اعلی مقام پر فائض ہو گیا ہے ، اس کے پاس نت نئی ایجادات ہیں ،جدید قسم کے آلات ہیں ، ٹکنالوجی اور مشینری ہیں ، نیو کلیائی  اسلحے اور ایٹمی بم ہیں جس کے ذریعہ سے پوری انسانیت کو چند منٹوں میں تباہ و برباد کیا جا سکتا ہے۔  اس کی مثال آپ سب کے سامنے ہے جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر اپنے ایٹمی بم کا استعمال کیا تھا اور اس کے نتیجے میں جو ہلاکتیں اور تباہیاں ہوئی تھی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ امریکہ پہلا ایسا ملک ہے جس نے اپنے ہدف جاپان کے دو شہر ہیرو شیما اور ناگاساکی کے خلاف  دوسری جنگ عظیم  کے خاتمہ پر ہی دو ایٹمی بم گرا یا تھا، پہلا ہیروشیما پر جس کی وجہ سے اسی ہزار شہری یکلخت لقمہء اجل بن گئے۔ دوسراایٹمی بم ناگاساکی پر ڈالا گیا۔ اس کی وجہ سے بھی اسی ہزارمعصوم شہریوں کی اسی وقت موت ہوگئی تھی ۔ یہ دونوں بم اتنے خطرناک اور زہر آلود تھے کہ اس کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ مرتے چلے جارہے ہیں ۔ اگست  ۲۰۱۴؁ء کی ایک رپوٹ کے مطابق اب تک تقریبا ً اس کے ہلاکت خیز زہر آلو د ذرات کی وجہ سے ۴ لاکھ ۵۰ ہزارافراد موت کی نیند سو چکے ہیں ۔  یہ ہے وہ امریکہ جو اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ باور کراتا ہے ۔

 ہم دیکھتے ہیں کہ آج کی یہ دنیا اپنے آپ کو سب سے طاقتور منوانے کے لئے کیا کیا نہیں کر رہی ہے ۔چاہے وہ اسرائیل ہو یا امریکہ،  روس ہو یا برطانیہ سب اپنی چودھراہٹ اور برتری کے لئے ایسا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں جس کا انسانیت  اور انسانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سامراجی قوتیں اپنے استعماری مفاد کے خاطر اپنے سے کمزوروں کو مسل رہی ہیں اور کچھ آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں ایسی ہیں جو اپنی آمریت اور جابریت کی بقا کے لئے اپنے ہی معصوم شہریوں کے خون سے اپنی ہی زمین کولالہ زار کر رہی ہیں ۔ اگر کچھ کسر باقی رہ جاتی ہے تو اپنے جیسے دوسرے ظالموں سے اس کمی کو پورا کرواتی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک شام کی ہے ۔  شام کا ظالم ، ملعون  اور ڈکٹیٹر صدر بشار الاسد اپنے  ہی باشندوں کی جانوں کا سودا  روس سے طے کیا ہے  اور وہ ’’الظالم لا ینصرہ الا الظالم‘‘  کا مکمل حق ادا کررہا ہے۔ روس تمام حدودکو تجاوز کرتے ہوئے ’’داعش‘‘ کا بہانہ بناکر شام کے معصوموں پر بم برساتا ہے اور معصوم بچے ، نوجوان، بوڑھے سارے لوگوں کو نشانہ بتاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا گرد آلود اور آسمان میں دھواں دھواں سا دیکھائی دینے لگتا ہے ایسا خوفناک منظر ہے جس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

یاد رہے کہ  مارچ   2011  سے بشارلعین کی حکومت کے خلاف ، اس کے ظالمانہ رویہ سے عاجز آکر جب وہاں کی عوام نے احتجاج کرنا شروع کیا تو اس کرسی کے بھوکے درندہ نے کسی کی نہ سنی اور جمہوریت کا جنازہ نکالتا رہا اور اب تک شامی حقوق انسانی کے نگہبان ادارہ کے مطابق 2 لاکھ 10  ہزار لوگوں کو مارا جاچکا ہے ۔ظلم اور خوف سے بچنے کے لئے کتنے شامی مہاجرین سمندر کے راستے  یورپ میں پناہ لینے کے لئے اسٹریا اور جرمنی کا سفر کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہ سفر ان کے لئے بڑا دردناک اور المیہ بن جاتا ہے جس میں ان کی اور ان کے بچوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں ۔ ایلان کردی نامی معصوم کو کون بھول سکتا ہے جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہی تھی اور ابھی اس کے زندگی کے صرف 3  سال ہی پورے ہوئے تھے جو شام کے کوبانی علاقہ سے تعلق رکھتا تھا جس کی لاش سمند ر کے کنارے منہ کے بل ملی تھی جو سارے عالم کے اخباوں اور نیوز چینلوں پر دکھائی گئی تھی ۔  ابھی اسی مہینہ کی 4 تاریخ بروز منگل شام کے صوبے ادلب میں کیمیائی اسلحہ ، زہریلی گیس کے ذریعہ حملہ کیاگیا جس میں تقریبا 102 افراد لقمہ اجل بن گئے اورکم وبیش405 لوگ بری طرح رخمی ہوئے تھے ۔ حملہ اتنا انسانیت سوز تھا کہ بہت سارے معصوم پھول سے بچوں کی جانیں تڑپ تڑپ کر نکلی تھیں ۔

ہمارے ملک بھارت میں بھی انسانیت سوز واقعات آئے دن ہو رہے ہیں اور جب سے نریندر مودی صاحب کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے ملک کا اور بھی برا حال ہے ۔ غیر تو غیر ان کے پارلیمانی اراکین ہی سب سے زیادہ نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں اور ملک کے دستور سے کھیلواڑ کر تے پھر رہے ہیں ۔ کوئی منسٹر کہتا ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لو ۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ ان کی گھر واپسی کرائی جائے ۔ کوئی لو جہاد کے راگ الاپتا ہے اور مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتاتا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں ہندؤوں کے رحم وکرم پر رہنا ہوگا اور کوئی کہتا ہے کہ رام مندر وہی بنیگا اور بی جی پی کے ممبر اسمبلی راجا سنگھ نے حیدرآباد میں ایک پروگرام میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’اگر کوئی رام مندر کی مخالفت کریگا جو اس کی گردن کاٹ دینگے ‘‘۔  اور طلاق ثلاثہ کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی اور مسلم پرسنل لاء میں دخل اندازی کی بیجا کوششیں ہورہی ہیں ۔ اس طرح کی بیان بازی سے ملک میں نفرت ہی پھیلی گی اور قانون کی دھجیاں بکھرتی رہیں گی اور ایک خاص طبقہ کے لوگ بھارت کے دستور سے کھلواڑ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور جس طرح سے چاہتے ہیں انسانیت کا جنازہ نکالتے ہیں اور ہندوستانی جمہوریت کو شرمسار کرتے رہتے ہیں ۔

آئیے چند واقعات پر بھی نظر ڈالتے ہیں ۔  52 سالہ محمد اخلاق مرحوم کو کون بھول سکتا ہے ؟  مرحوم محمد اخلاق ریاست اترپردیش کے دادری کے بساھڑا گاؤں کے رہنے والے نہایت شریف النفس انسان تھے ، وہ اور ان کے بھائی کا گھر راجپوتوں کے بیچ میں ہے ،  ان کو 28 ستمبر کی شب میں گاؤں کے ہی شرپسندوں نے بڑی بے رحمی سے ان کے گھر میں گھس کرصرف افواہوں کی بنیاد پر کہ ان کے گھر میں گاؤماس ہے قتل کرڈالا تھا ۔ کیا صرف افواہوں پر کسی انسان کی جان لی جا سکتی ہے چاہے وہ مسلم ہو یا ہندو؟ کیا ملک کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے ؟ اب تو فورینسک تحقیقات بھی سامنے آچکی ہے کہ محمد اخلاق کے گھر میں جو گوشت تھا وہ گائے کا نہیں بلکہ بکرے کا تھا ۔  مانتے ہیں کہ ملک ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی ہے لیکن اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ہندوستانی دستور کے مطابق اس کو سزا پولیس اور انتظامیہ دے گی نہ کہ شرپسند عناصر اور انسانیت کے دشمن جو ملک اور قانون دونوں کے دشمن ہیں ۔اب آپ ہی بتائیں اگر اسی طرح سے ہرشخص قانو ن کو اپنے ہاتھ میں لے گا تو کیا امن وشانتی باقی رہے گی اور ملک ہندوستان ترقی کرپائے گا ؟  ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘  کا نعرہ کامیاب ہو پائے گا؟۔

سب سے بڑا جرم اور المیہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو طرح طرح کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر زندان میں ڈال دیا جاتاہے اوریہ معصوم سالہا سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعدثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کورٹ سے باعزت بری کردیئے جاتے ہیں ۔ان کے زندگی کے ان ایام کا کیا جو جیل کی سلاخوں میں بڑی کربناک اذیتوں سے گزرے ؟  15؍ اکتوبر 2014   نجیب احمد نامی ایک مسلم طالب علم جواہر لال نہرو جیسی شہرت یافتہ یونیورسٹی سے غائب ہوجاتا ہے ۔دہلی پولس نے اس کا پتہ بتانے والے کو  ایک لاکھ روپیہ کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے ۔دہلی ایس آئی ٹی اس کی تفتیش کررہی ہے لیکن ۶ ماہ گزر جانے کے بعد ابھی تک اس کا سراغ نہیں ملا ہے۔  یاد رہے 14 ؍اکتوبر کو نجیب احمد کو(ABVP )  اکھل بھارتی ویدیارتھی پریشد والوں نے اس کو بہت ماراپیٹا تھا  ۔  1؍ نومبر 2014  کو 8 مسلم بے قصور نوجوانوں کو جو بھوپال سینٹرل جیل میں ممنوعہ تنظیم سیمی سے ربط رکھنے کے الزام میں قید تھے ان کا فرضی انکاونٹر کر دیا جاتا ہے اور ایک ڈرامائی کہانی بنا لی جاتی ہے۔  ۸؍مارچ ۲۰۱۷؁ء سیف اللہ کوداعش کا ممبر بتا کر لکھنؤ کے ٹھاکر گنج علاقے کی حاجی کالونی میں فرضی انکاؤنٹر ریاستی پولس اور اے ٹی ایس کی مشترکہ ٹیم کردیتی ہے ، جو اس وقت بادشاہ خان کے مکان میں کرایہ دار کی حیثت سے رہ کر پڑھائی کررہا تھا اور ایک اور ڈرامائی کہانی گڑھ لی جاتی ہے ۔ اسی ماہ  اپریل کے شروع میں الور راجستھان میں گئورکشاکے نام پر فسطائیت کے حامی غنڈوں نے پہلو خان کو شاہراہ پر دوڑادوڑا کرمارا تھا ۔جس کی تاب نہ لاکر یہ۵۵ سالہ معمر شخص اس دنیا سے جل بسا اور اس گاڑی کا ڈرائیور ارجن نامی غیر مسلم تھا جس کو چھوڑدیاجاتا ہے ۔

 ہماری ذمہ داریاں یہ ہیں کہ ہم جمہوری انداز میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ ہمارے ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں اور جو بھی اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کریں ۔اورہمارے دانشوران کو چاہئے کہ وہ سیاست ، صحافت اور قیادت کے میدانوں میں قدم آگے بڑھائیں اوراپنی قوم میں سیاسی شعور کو بیدار کریں ۔مفکر اسلام حضرت مولاناعلی میاں ندوی ؒ اپنی کتاب کاروان زندگی میں رقمطراز ہیں ’’اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سوفیصد تہجد گزار بنادیا جائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیاجائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہوجائے‘‘ ۔اس لئے ہمیں ملک کی صورتحال کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے  اور اسلام کے پیغام محبت ،امن وآشتی کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے جس طرح سے صحابی رسول حضرت ربعی ابن عامرؓ  فارس کے بادشاہ رستم کے دربار میں پیغام محبت لیکر حاضر ہوئے تھے۔  بادشاہ سوال کرتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جس نے آپ کو وطن چھوڑ کر یہاں آنے تک مجبور کیا؟ صحابی رسول نے جوجواب دئے اس کو تاریخ نے محفوظ کر لیاہے  فرماتے ہیں ’’ ہمیں کوئی جاہ  ومنزلت، دولت کی ہوس یا حکومت کرنیکے شوق نے یہاں نہیں لایا ہے بلکہ یہاں اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ وہ جس کو چاہے بندوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں اور دنیاوی تنگی سے نکال کر اسکی وسعتوں میں اور مذاہب و ادیان کی زیادتیوں سے نجات دلاکر اسلام کے عدل وانصاف میں داخل فرمادے‘‘ ۔

یہ ہے اسلام کا آفاقی پیغام جس کو آج لوگوں تک پہونچانا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے درمیان علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہرین تیار کرنے ہونے گے جو اسلام کی افادیت کو مدلل اندازمیں زمانے کے سامنے پیش کرسکیں ۔اور جس کی افادیت کو لوگ مان بھی لیں ۔  امام محمد بن محمدالغزالی کو کون نہیں جانتا ہے جنہوں نے دینی علوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ فلسفہ یونان کا مطالعہ کیا جس کے نظریات اسلام سے متصادم تھے تو آپ نے اس کی رد میں اپنی مشہور کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھی ۔آپ کی تالیفات میں سے احیاء علوم الدین اور مقاصد الفلاسفہ بہت مشہور ہیں ۔ابن الہیثم کو کون نہیں جانتا ہے۔ جو ماہر فلکیات اور ریاضی دان کے ساتھ ساتھ علم بصریات کے ماہر بھی تھے اور انہوں نے روشنی پر ایک کتاب لکھی ’’کتاب المناظر‘‘ انہیں بصریات کا امام کہا جاتا ہے۔  ابن النفیس کو کون نہیں جانتا ہے جو طب کے علاوہ فقہ ، ادب اور دینی علوم کے ماہر تھے انسانی جسم میں خون کی گردش کی دریافت انہیں کا کارنامہ ہے ان کی کتاب ’’الشامل فی الطب‘‘ اور ’’مجاز القانون‘‘  جس سے آٹھ صدیوں سے علماء اور حکماء فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔  ابن رشد کو کون نہیں جانتا ہے دینی علوم میں مہارت کی وجہ سے قرطبہ کے قاضی القضاہ مقرر کئے گئے ساتھ ساتھ علم طب میں شہرت حاصل کی ان کی کتاب ’’الکلیات فی الطب ‘‘کو بہت شہرت ملی کیونکہ یہ دنیا میں سب سے پہلی کتاب ہے جو طب میں چھپ گئی ـ ، انہوں نے ارسطو اور افلاطون کی کتابوں کی شرحیں بھی لکھیں ۔

ابوریحان البیرونی کو کون نہیں جانتا ہے جنہیں ہیئت ، ریاضی  اور تاریخ و تمدن کا عالمی طور پر تسلیم شدہ عالم و فاضل کہا جاتا ہے ، انہیں ’’علم کے دریا‘‘ کا خطاب ملا،  ’’کتاب الہند‘‘الآثارالباقیہ‘‘  اور ’’القانون المسعودی ‘‘ ان کی زندہ جاوید تالیفات ہیں ۔ ابو علی حسین بن عبد اللہ بن سینا کو کون نہیں جانتا ہے جو حفظ قرآن اور دینی علوم کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سب سے عظیم طبیب ، فلسفی ، ماہر فلکیات اور ریاضی داں تھے ان کی کتاب’’الشفاء اور القانون‘‘ صدیوں تک یورپ کے طبی کالجوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں ۔ جابر ابن حیان کو کون نہیں جانتا ہے جو علم کیمیاء کے ساتھ ساتھ ماہر طبیب بھی تھے انہوں نے یونانی زبان سے علوم وفنون کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا، کیمسڑی کے موضوع پر قریب 22 کتابیں لکھی، ’’کتاب المیزان‘‘ ان کی مشہور کتا ب ہے۔اسی طرح ابوالقاسم الزہراوی تاریخ اسلام میں علم جراحی (سرجری)کے ماہر تھے ۔ عمر الخیام فلکیات اور علم ہیئت کے ماہر تھے ۔ الفارابی یونانی فلسفہ کے ما ہر تھے ۔ الفرغانی ماہر علم ہندسہ کے طور پرجانے جاتے ہیں ۔یہ ساری شخصیتیں 13 ویں صدی سے قبل کی ہیں ۔ ہمی ہمیں اپنے درمیان ایسی ہی ہستیوں کو جنم دینا ہوگا تاکہ دوسرے مذاہب کے لوگ ہمارے افادیت کے معترف ہوں ۔  اور ہمیں اپنے اخلاق و کردار کو بھی سنوارنے کی ضرورت ہے  ۔

اللہ رب العزت نے حضور اکرم  ﷺکے بلند اخلاق کی گواہی قرآن کریم میں کچھ اس طرح دی ہے فرمایا’’انک لعلی خلق عظیم‘‘  سورہ القلم ۔ آپ ﷺ عمدہ اخلاق کے بلندی پر ہیں ۔ حالات چاہے کتنے ہی پرآشوب کیوں نہ ہوں ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ فرمان باری تعالی ہے ’’ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وہم لا یفتنون‘‘ سورہ عنکبوت۔ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں چھوڑ دینگے یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمائش کی بھٹی میں نہیں تپایا جائیگا۔   رات کی تاریکیاں چاہے کتنی گھٹاٹوپ ہوں لیکن صبح کی کرنیں اسے روشن کر ہی دیتی ہیں  ’’واصبر علی ما اصابک ان ذالک من عزم الامور‘‘ سورہ لقمان۔  جو بھی تکالیف اور پریشانیان آپ کو پہنونچے اس پر صبر کریئے یہ بڑاہمت والا کام ہے۔  رئیس المتغزلین جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے ۔  طول غم حیات سے نہ گھبرا ائے جگر     ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو۔

  ہمیں اپنے اندر ایمان ویقین کی شمع روشن کرنی ہوگی اور لوگوں کے لئے اپنی افادیت کو مسلم کرنا ہوگا جس طرح سے پانی کی افادیت ایک تسلیم شدہ شی ء ہے اوراللہ کا یہ پیغام ہمارے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے فرمان باری تعاری ہے ’’ولا تہنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘سورہ آل عمران۔ ہمت مت ہاریئے اور غمزدہ مت ہویئے اور اگر تم صاحب ایمان ہوتو کامیاب تم ہی ہو گے۔  میں اپنی بات کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر مکمل کرتاہوں ۔  انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے   شاید کی اتر جائے ترے دل میں میری بات۔

 وماعلینا الا البلاغ

تبصرے بند ہیں۔