درس حدیث

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

دین اسلام  امن وسلامتی اور پر سکون  حیات کاضامن ہے، جوانسانی زندگی خوشگوار اور  ایمانی لذت سے  بھر پور کرنے کے لیے  فطرت کے موافق قوانین وضوابط وضع کرتا ہے، تاکہ  انسان اپنے مقصد حقیقی کو پہچانتے ہوئے  حصول جنت کی خاطر  اپنے رب کی رضاجوئی اور خوشنودی بجالائیں، جس طرح دنياوی زندگی گذارنے کا حکم ملاہے اسی  کے مطابق  اپنی  زندگی  گزاریں۔

جہاں خطرات وخدشات کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں اسلام اس سے اجتناب وپرہیز کرنے کےلیے  عمدہ ترین رہمائی کرتاہے، جو  کہ اس کا طغرائے امتیاز ہے۔ اسلام سے قبل لوگوں کی اجتماعی حالتیں  نہایت ہی خستہ حال تھیں، آپسی تعلقات بہت خراب تھے۔ لوگ اچھے عادات واطوار، آداب رہن سہن، اخلاق حمیدہ سے ناآشنا تھے۔ لیکن جب  دین اسلام کا ورود مسعود ہوا، تو آداب غسل واغتسال، سونے اور جاگنے کےآداب، پیشاب وپاخانہ کرنے کے طریقہ سے  روشناس   کیا، تا اینکہ  روزمرہ کی زندگی میں تمام ضروریات ومقتضیات کی طرف رہنمائی فرمائی۔

 نبی ﷺ نے ایک نہایت ہی اہم چیز کی جانب توجہ مبذول کرائی  ہے، آپ ﷺکا فرمان  بخاری میں درج ہے :”لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ“ (صحیح بخاری، ح:6293) ترجمہ:”اپنے گھروں میں سوتے وقت  آگ مشتعل نہ چھوڑو “۔ اسی طرح دوسری روایت میں آتا ہے، حضرت ابو موسی  أشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  مدینہ منور ہ میں ایک گھر رات کو جل کر خاکستر ہوگیا، چنانچہ اس کی خبر  تاجدار مدینہ نبی کریمﷺکو دی گئی، تو آپ ﷺنے ارشادفرمایا:

”إِنَّ هَذِهِ النَّارَ إِنَّمَا هِيَ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوْهَا عَنْكُمْ“(صحیح بخاری:6294)

ترجمہ:”بلاشبہ یہ آگ تمہار ا حقیقی دشمن ہے، بنابریں جب سوناچاہو، تو اسے بجھادو“۔

نیز نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:

”خَمِّرُوا الْآنِيةَ، وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ، وَأَطْفِئُوا الْمِصَابِيحَ، فَإِنَّ الفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتِ الْفَتِيلَةَ، فَأَحْرَقَتِ أَهْلَ الْبَيْتِ“(صحيح بخاری:6295)

ترجمہ:”(سوتے وقت )برتن بھانڈے اچھی طرح ڈھانپ دو، دروازے بند کرلو، اور چراغ (اس ضمن میں الیکٹرانک بلبیں شامل ہیں) بجھادو، اس لیے کہ بسا اوقات چوہیا چراغ  کی بتی   کھینچ کر گھر والوں   جلاکر راکھ کردے گی“۔

مذکورہ تینوں حدیثوں کو امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے باب ”لَاتُتْرَكُ النَّارُ فِي الْبَيْتِ عِنْدَ النَّومِ“گھرمیں سوتے وقت آگ مشتعل نہ چھوڑی جائے۔

مذکورہ بالا احادیث سے مستنبط مسائل:

1۔ عام طور سے انسان سوتے وقت غافل  ہوتا ہے، اس لیے نبی کریمﷺنے نیند کی قید لگاکر  اندیشہ   وخوف کے پیش نظر جلتا ہواچراغ یا الیکٹراک بلب  آف کرنےکا حکم دیا ہے۔

2۔ آگ ہمارے ابدان اوراموال کا دشمن ہے، گرچہ اس کے ذریعہ منفعت وفائدہ وابستہ ہے، لیکن اس کے ذریعہ منفعت اس  وقت حاصل ہوگی جب کسی کاواسطہ شامل حال ہو۔

3۔ سوتے وقت برتن بھانڈے ڈھانپ کرسونا چاہیےتاکہ وہ صحیح طور سے  کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہ سکے۔ اور دروازہ بندکرکے اور بلب  اور بتیوں کو بجھاکرسونا چاہیے۔

4۔ البتہ ایسا الیکٹراک بلب   جو  مامون ترین ہو، مجرب ہو، کسی خطرے کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں جلا کرسونے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سارے گھروں میں الیکٹرانک تاریں کھولی ہوتی ہیں، احتیاط کے پیش نظر بند کرکے سونا  بہتر ہے۔

آخری بات:

اسلامی تعلیمات اور احکامات ہمارے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں، خیر وصلاح  اور فوز وفلاح کاذریعہ ہیں، انسانیت وطریقت اور آدمیت کے عین موافق ہیں، جوتمام لوگوں کے  لیے بلاتفریق راہ مستقیم کا ضامن ہے۔

 ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی خاص خطے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے لیے نبی بناکر بھیجے گیے، جیساکہ الله تعالى کا فرمان ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بشِيرًا وَّنَذِيرًا”(سوره سبا:28)

ترجمہ:”ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے صرف خوش خبریاں سنانے والا اور دھمکانے والا بناکر بھیجا ہے”-

اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے – آمین

تبصرے بند ہیں۔