راستے کہتے ہیں، گزر تو سہی
عبدالکریم شاد
راستے کہتے ہیں، گزر تو سہی
مرحلے کہتے ہیں، ٹھہر تو سہی
…
رفعتیں خود ترے قدم لیں گی
زینۂ ذات سے اتر تو سہی
…
میرے ہونٹوں کی خامشی پہ نہ جا
میری آنکھوں سے بات کر تو سہی
…
دیکھ تو کتنا خوب صورت ہے
آئینے میں کبھی سنور تو سہی
…
چن کے رکھے گی تجھ کو یہ دنیا
موتیوں کی طرح بکھر تو سہی
…
تجھ کو دیدار ہو خدا کا نصیب
اے رخ زندگی! نکھر تو سہی
…
اس کا دل تو ضرور پگھلے گا
اپنی آنکھوں میں اشک بھر تو سہی
…
ہم سفر کا پتا چلے گا تجھے
راہ حق سے کبھی گزر تو سہی
…
تجھ کو پلکوں پہ سب بٹھائیں گے
آنسوؤں جیسا کام کر تو سہی
…
تجھ میں خود ہی نکھار آئے گا
زندگی! آئینے سے ڈر تو سہی
…
یاد رکھے گی تجھ کو دنیا شاد!
تو شہیدوں کی موت مر تو سہی
تبصرے بند ہیں۔