سائنس، فلسفہ اور مذہب (قسط سوم)

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

جہاں تک  ابدی وبنیادی حقائق (Ultimate Reality)کی معرفت اور مسائل کا حل  دریافت کرنا ہے تواس سلسلہ میں سائنس وفلسفہ سے رہنمائی عبث وبے سودہے۔ کیونکہ ان مسائل کا حل سائنس اورفلسفہ  کے پاس قطعاً نہیں ہے۔ اگرکوئی نادان یہ سمجھتا ہے تویہ اس کی خام خیالی اورطفلانہ خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت سے اس کا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ

فلسفہ:

انگریزی زبان کا لفظPhilosophy (فلسفہ) دراصل دو لاطینی ا لفاظ کے مرکب Philein(محبت کرنا) Sophia(حکمت) سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اس کا لغوی معنی حُبِّ حکمت یا علم وحکمت سے محبت کرنا ہے۔ فلسفہ کا موضوع وجود ہے۔ پس کائنات کی ہر شیء اس علم کے دائرہ بحث میں شامل ہے۔ یہ علم کسی بھی شے کے متعلق  بنیادی سوال اٹھانے اور ان سوالات کے جوابات  کی تحصیل میں مرکزی کرداراداکرتاہے۔ اب اگر وہ سوالات دین کے متعلق ہوں تو اسے  فلسفۂ دین سے موسوم کیاجائے گا، اگر تاریخ سے متعلق ہوں تو فلسفۂتاریخ، اگر اخلاق سے متعلق ہوں تو فلسفۂ اخلاق اور اگر وجود سے متلق ہوں تو فلسفہ وجودسے تعبیر کیاجائے گا۔

فلسفہ علم و آگہی کا دوسرانام ہے، یہ ایک ہمہ پہلو علم ہے جو وجود کے اعراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اسی لیے فلسفہ تمامNormative اورNatural Sciences کا منبع ہے۔

Normative Sciences کا بنیادی نکتہ بحث یہ ہے کہ کیا ہونا چاہئے؟اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام علوم میں ترقی کی بنیادی وجہ یہی فکر ہے۔ کیا ہونا چاہئے؟اسے مزید بہترکیسے ہونا چاہئے؟ جب کہ اس کے برعکس Natural Sciences اس سے بحث کرتی ہیں کیاہے؟یعنی اشیاء کی اصل حقیقت ،ہئیت،ماہیت اورکیفیت کیاہے؟اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟مزید کیاہونا چاہئے؟وغیرہ وغیرہ

فلسفہ بایں معنیٰ ’’ام العلوم‘‘کادرجہ رکھتاہے اور تقریباًً تمام علوم جدیدہ کا منبع و ماخذ ہے۔ مثلاًعلم طبیعیات، علم کیمیا،علم منطق، علم نفسیات، سماجی اورعمرانی علوم وغیرہ۔ یہ تمام علوم اسی فلسفہ ہی  کے مرہون  منت ہیں۔ اس (فلسفہ)سے انسانی ذہن کی گرہیں کھلتی اور لاینحل عقدے حل ہوتے ہیں۔ فلسفی ایک بات کو مختلف پہلوؤں اور جہات سے دیکھتا ہے جس سے اس کی سوچ کا دائرہ کار وسیع ، بصیرت میں اضافہ اور اس میں تدبر و تعقل کی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فلسفہ کو چار نظریات میں تقسیم کرتے ہیں:

Formal Rationalism

اس نظریہ کے حامیان کا دعویٰ ہے کہ حقائق کے حصول  اورسچائی کو جاننے کے لیے انسان کو عقل  کے سوا کسی اورچیز کی احتیاج نہیں۔ وہ عقل ہی کو بنیادی ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حق وصداقت کا ذریعہ حواس خمسہ نہیں بلکہ محض عقل ہے۔

Empiricism

اس تھیوری کے ماننے والے پہلے نظریہ کے برعکس مشاہدات اور تجربات کی اہمیت پر زوردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک علم ان سائنسی تجربات اورمشاہدات سے حاصل ہوتاہے جو ایک خاص ترتیب اورتجربات سے گزرکرحاصل ہو۔

Criticism

حق وصداقت کو ناپنے کامعیار حواس خمسہ  کے ساتھ عقل اور استخراج  کو بھی مانتے ہیں۔ لیکن حواس اور عقل  کی حدبندی  کی وجہ سے (محدودہونے کے سبب) یہ اس امرکوقبول کرتے ہیں ہمارے حواس اورعقل مکمل طور پر  ابدی حقائق (Ultimate Reality)کی معرفت نہیں دے سکتی ہاں جزوی طورپر اس میں کامیابی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔

Empirical Rationalism

اس نظریہ کا حامیان کا دعویٰ ہے عقل اورحواس دونوں ذرائع کو یکجاکردینے سے یعنی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر عقل وخرد کا استعمال ہوناچاہئے۔

یہ وضاحت کرنے کے بعد آپ ان چاروں نظریات کی تحلیل کرتے ہوئے ان کا رد فرماتے ہیں۔ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان چار میں سے دوسرااورتیسرا تو قطعاً اس قابل ہی نہیں کہ  (Ultimate Reality) کے لیے انہیں قابل غورسمجھاجائے۔ دوسراچونکہ وہ کسی حد تک سائنسی انداز سے ہی کام کرتاہے اس لیے سائنس کی نفی کردینے سے اس کی بھی خود بخود نفی کردی گئی۔ تیسرے سے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ یہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم  (Ultimate Reality)کی معرفت نہیں حاصل کرسکتے۔ اس لیے کہ انسانی حواس اور عقل دونوں ہی محدود ہیں جس کا انہیں اعتراف بھی ہے۔

اب رہ گئے نظریاتِ طرفین یعنی  پہلا اورآخری نظریہ۔ جو اس امر کادعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ جیسا کہ Formal Rationalism کے حامیان کا دعویٰ ہے کہ انسانی عقل بغیر کسی معاونت کے زندگی کے ابدی مسائل کا حل تلاش کرسکتی ہے۔ اس کی بابت یہاں یہ  کہہ دینا ہی کافی ہے Formal Rationalism کا تمام تر دارومدار منطق پر ہے۔ ان کا نکتہ آغاز میں ایک مفروضہ کا انتخاب کیاجاتاہے  اور اس کے بعد تمام خیالات کی دنیا اسی منطق کے استعمال سے تعمیرکی جاتی ہے۔

اسی طرح  Formal Rationalism بھی ہمیں ابدی مسائل کی معرفت اورحل  کے بارے میں یقینی معلومات فراہم کرنے سےقطعی طورپر ناکافی اورنااہل ہے۔ کیونکہ اس کا نکتہ آغاز تو صرف ایک مفروضہ ہے۔ غیر یقینی مفروضہ ہمیشہ غیر یقینی نتائج  پر ہی منتج ہوگا۔

جہاں تک Empirical Rationalism کا تعلق ہے اسے سائنس کے فلسفہ کا نام دیاجانا چاہئے۔ جو حواس خمسہ کے ذریعہ سے ہونے والے مشاہدات اورتجربات کوعقل کی بھٹی میں ڈال کرکندن بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا نکتہ آغاز چونکہ سائنسی حقائق اورمشاہدات پر مبنی ہے اس لیے جب سائنس کی نفی کردی گئی تو دوبارہ اس بحث کو طوالت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کا بھی خودکارطورپر اس کے ذریعہ رد ہوجاتاہے۔ مفہوماً: Through Science and Philosophy to Religion

ابدی وبنیادی حقائق (Ultimate Reality)

مندرجہ بالا تمہید کی روشنی میں اگرہم سائنس سے  ابدی وبنیادی حقائق (Ultimate Reality)کی معرفت اور مسائل کا حل  دریافت کرنے کی بابت  غورکریں تو ہمیں یہ امرعبث اوربے سود نظرآتاہے۔ کیونکہ یہ عمومی ذہانت رکھنے والا آدمی بھی جانتاہے کہ ان مسائل کا حل سائنس کے پاس  توقطعاً نہیں ہے۔ لہذا سائنس سے ہر چیز کی حقانیت وحقیقت کا ادراک نہیں کیاجاسکتا۔ اگرکوئی نادان یہ سمجھتا ہے تویہ اس کی خام خیالی اورطفلانہ خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت سے اس کا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

وکٹر جے اسٹینجر(Victor J. Stenger 1935-2014) بھی سائنس کی اس کمزوری کوتسلیم کرتے ہوئے لکھتاہے:

Further discussion on what the model implies about “Truth” or “Ultimate reality” falls into the area of metaphysic rather than physic, since there is nothing further the scientist can say based on the data”( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 24)

"۔ ۔ ۔ جہاں تک حق،ابدی سچائی (Ultimate Reality) کا تعلق ہے تو یہ طبیعات(Physics) کے بجائے مابعد الطبیعات (Meta Physics) کا میدان ہے۔ سائنسدان حقائق اورکوائف کی بناء پر اس موضوع پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے”

  ایک اورسائنس دان ولیم ہنری بریگ(William Henry Bragg 1862-1942) سائنس کی اتنی کمزوری ضرور تسلیم کرتاہے کہ انسانی زندگی کے مقاصد کا تعین  کرناسائنس کا کام نہیں ہے بلکہ ان کا تعین مذہب ہی کرسکتاہے:

“From Religion comes a man’s purpose; from science his power to achieve it” ( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6)

” انسانی زندگی کے مقصد کا تعین مذہب کرتاہے اوراس مقصد کی تکمیل کے لئے قوت سائنس بہم پہنچاتی ہے۔ "

حقیقت یا نورِ معرفت  کا حصول عقل وخرد کی منازل عبورکرتے ہوئے ہی کیاجاسکتاہے  کیونکہ عقل وخردمانندِ چراغ ہے نہ کہ حق و معرفت کی منزل۔ بقول علامہ اقبال ؒ

گزرجا عقل سے بھی آگے کہ یہ نور

چراغِ    راہ    ہے    منزل    نہیں   ہے

کیونکہ جن(سائنسدانوں ) کی عقل میں یہ بات نہیں سمارہی کہ مادہ کبھی فنا بھی ہوسکتا ہے۔ جن کا ایمان ہے کہ مادہ صرف حالت بدل لیتا ہے،ایک ماہیت سے دوسری ماہیت اختیار کرلیتا ہے لیکن مکمل طور پرفنانہیں ہوتا اورنہ کبھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ سادہ سی بات ہے خالق کائنات نے جب کچھ نہ تھا تو مادے کو عدم سے وجود بخشا اسی طرح وہ دوبارہ اسے ختم کرنے پر بھی قادر ہے۔ لیکن یہ ان کی عقل اورشعور سے بعید از فہم حقیقت ہے۔ یا ان افراد کواگر سمجھانے کی خاطر یہ کہا جائے کہ راہ ِ خدامیں ایک جان دینے والا شخص (شہید)زندہ ہے یعنی ایک شخص نے بستر پر جان دی اور دوسراشخص اپنے ملک اوردین کی خاطر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوا۔ اب وحی کہتی ہے کہ دونوں کا الگ الگ حکم ہے۔ دوسرا شخص زندہ ہے اسے مردہ گمان بھی نہ کرو لیکن یہ ظاہری آنکھوں اور سائنسی آلات سے مشاہدہ کرنے والا کیسے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ ایک کا وجود توسالم ہے لیکن وہ پھر بھی مردہ ہے اوردوسرے کا تووجود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہے لیکن وہ پھربھی زندہ ہے اوراپنے رب کے یہاں سے رزق پاتاہے۔ یہ اس قسم کی ابحاث میں پیچ درپیچ الجھتے رہیں گے اور کبھی حقیقت نہ جان پائیں گے۔

بھید کھلتے رہے اورالجھتے رہے

ایک الجھن ہے آگہی کیاہے

اور اگرسائنسدانوں سے انسانی وجود کے متعلق سوالات کیے جائیں اور کہا جائے کہ انسانی وجودتو ہمارے سامنے مادی صورت میں موجود ہےاورہم مانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں سائنس اورٹیکنالوجی اس وجود کو سمندر کی گہرائی ، ماونٹ ایورسٹ کی بلندی(چوٹی)،خلاکی وسعت اورچاند پر تولے گئی لیکن خدا تک نہ پہنچ سکی اورپہنچے گی بھی کیسے کہ وہ توآج تک اس وجود کی پراسراریت اور روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت کو نہ سمجھ سکی۔ حالانکہ اس کے برعکس ہمارے آقائے نامدار سید الکونین ، نورمجسم ﷺ آج سے پندرہ صدیاں قبل لمحوں میں سدرۃ المنتہیٰ سے گزرتے ہوئے رب کی بارگاہ تک  پہنچ گئے تھے۔

تھی وہ رفتار کہ لمحوں میں خلا تک پہنچے

تم گئے چاند تلک ہم  تو خدا  تک  پہنچے

(منظربھوپالی)

اس ہی موضوع پر ایک اورشعربھی انتہائی موزوں ہے جس میں شاعرختم نبوت جناب  سیدسلما ن گیلانی صاحب نے بہت ہی بلیغ انداز سے معراج کی شب کا تذکرہ کیا ہے:

ہاں بجا فرش سے عرش کا فاصلہ ، حد ادراک انساں سے ہے ماورا
پر یہ معراج کی شب کا ہے معجزہ ، فرش سے عرش کا سلسلہ مل گیا

لمحۂ فکریہ:

اسٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان جومغرب کی آنکھ کا تارا (جوڈوب کرفناہوگیا)تھااورخداکے وجود سے ہی منکر تھا۔ جس نے اپنے تئیں بڑی تحقیق (سرپھوڑنے ،پاؤں توڑنے اورروح چھوڑنے )کے بعد یہ زعم لے کر”میں نے خداکے ڈھونگ کاپول کھول دیا” اُس دوسری دنیا سدھارگیا جس دنیا کاوہ منکر تھا۔ حالانکہ اگر وہ اپنی تمام تردانائی اپنی روح ہی کی ماہیت ، کیفیت،تخلیق،رہائش، پرصرف کرلیتا تو شاید اسے بھی کچھ ہدایت مل جاتی۔ ویسے بھی ایسا ملحداپنا  کفریہ قول کہتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ  جب  وہ کہتا ہے:

 "God is no where"

تو اس جملے میں بھی یہ تحریر ہے کہ

 "God is now here

یا جب کوئی ملحد انتہائی مسرت سے کہتاہے کہ

 "Thanks God I am atheist"

 اس جملے میں وہ خود خداہی کا شکراداکرہاہے جو کہ  self-contradict ہے۔ اوراسی جملے کو یوں بھی پڑھاجاسکتاہے:

"Thanks God I am a theist".

بہرحال یہ اپنی زندگیوں میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم جوبھی کریں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہ اس جہاں میں ہے اور نہ ہی آخرت میں۔ مرکرہم مٹی ہوجائیں گے اوراس دنیا سے جداہوجائیں گے۔ بقول منظربھوپالی

جوچاہے کیجئے کوئی سزاتو ہے ہی نہیں

زمانہ سوچ رہا ہے خداتو ہے ہی نہیں

جہاں تک غوروفکر کرنے والوں  اورسلیم الفطرت عقل و شعورکے حامل افراد کا تعلق ہے وہ تو  معمولی سی باتوں سے بھی معرفت حاصل کرلیتے ہیں کہ اگر کہیں زلزلے میں کوئی مسجد تباہ ہونے سے بچ جائے،کہیں آگ جلی اوروہاں طاق پر سجایا ہواقرآن مجیداس سے محفوظ رہے،تیز ہوا (مغربی یلغار)کے چلنے کے باوجود کوئی دیا (اسلام کی شمع)بجھنے سے محفوظ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ روشن ہوجائے تو اہل بصیرت کے لئے یہ خداکے وجود کاکھلا ثبوت ہے۔

ہوا   خلاف   چلی   تو    چراغ    خوب   جلا

خدابھی ہونے کے کیاکیاثبوت دیتاہے

(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔