درود وسلام کے لیے رموز کا استعمال؟

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

نبی اکرم ﷺ پر درووسلام بھیجنا افضل عبادت ہے، جس سے انسان رحمت الہی کا مستحق ہوتا ہے اور حب نبوی اور قربت الہی سے سرفراز ہوتا ہے ، جب نبی اکرم ﷺ کا ذکر مبارک تقریر وتحریر میں ہوتو آپ کے نام کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ یا کسی اور صیغہ میں درود وسلام کا تلفظ آپ کا حق ہے ،اور یہ واجب ہے کہ آپ کا ذکر صلاۃ وسلام کے ساتھ ہو، البتہ ایک ہی مجلس میں کئی بار آپ کا ذکر ہو توذکر کرنے والے اور سننے والے پرایک بار واجب ہے اور ہر بار آپ کے نام کے تکرار کے ساتھ درود وسلام کا تکرارمستحب ہے،علامہ شامی علامہ ابن ہمام علیہما الرحمۃ کی بات کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مقتضى الدليل افتراضها في العمر مرة، وإيجابها كلما ذكر، إلا أن يتحد المجلس فيستحب التكرار بالتكرار،( شامی : ۱؍۵۱۶)

’’دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے ، اور جب بھی آپ کا ذکر ہو واجب ہے ، الا یہ کہ مجلس متحد ہو تو تکرار کے ساتھ درود وسلام کا تکرار مستحب ہے ‘‘

علامہ ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ (م۶۴۳ھ)لکھتے ہیں:

ينبغي أن يحافظ على كتابة الصلاة والسلام على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عند ذكره، ولا يسأم من تكرير ذلك عند تكرره، فإن ذلك من أكبر الفوائد التي يتعجلها طلبة الحديث وكتبته، ومن أغفل ذلك مرة حرم حظاً عظيماً.

’’مناسب ہے کہ نبی ﷺ کے ذکر کے وقت آپ پر صلاۃ وسلام کے لکھنے کی پابندی کرے اور اس کے تکرار سے نہ اکتائے ؛ کیونکہ حدیث کے طلبہ اور اس کے لکھنے والوں کو حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے یہ ایک بڑا فائدہ ہے،اور جو اس سے ایک بار بھی غافل ہوگیا وہ بہت بڑےثواب سے محروم ہوگیا‘‘

درود شریف پڑھنے یا لکھنے میں یہ ضروری ہے کہ درود کے کامل کلمات کا تلفظ ہو اور تحریر میں کامل درود کے کلمات تحریر کئے جائیں ، اس لئے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جگہ ”ص، صعم،صلم، صلیو،صلع ،  ’’   ؐ ‘‘  اورصلعم‘‘جیسے رموزو اشارات کا استعمال ناپسندیدہ اور ممنوع ہے ، اس سے مطلوبہ درود وسلام کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے ،اوراس طرح سے درودوسلام کے لکھنے میں اختصار کرنا خلاف ادب ہے ، جس سے بچنالازم ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ  (م۹۱۱ھ) لکھتے ہیں:

(وَ) يُكْرَهُ (الرَّمْزُ إِلَيْهِمَا فِي الْكِتَابَةِ) بِحَرْفٍ أَوْ حَرْفَيْنِ، كَمَنْ يَكْتُبُ صَلْعَمْ (بَلْ يَكْتُبُهُمَا بِكَمَالِهِمَا) وَيُقَالُ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ رَمَزَهُمَا بِصَلْعَمٍ قُطِعَتْ يَدُهُ. (تدریب الروای : ۵۰۷)

تحریر میں ایک دو حرف کے ذریعہ درود وسلام کی طرف اشارہ کرنامکروہ ہے ، جیسے کہ کوئی ’’ صلعم ‘‘ لکھے ۔ ایسا کرنے کے بجائے کامل درود وسلام لکھے ، اور کہاجاتا ہے کہ جس نے سب سے پہلےدرود وسلام کے لئے ’صلعم ‘‘کے رمز کو استعمال کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا‘‘

علامہ محمد بن سلیمان کافیجی حنفی(م ۸۷۹ھ) لکھتے ہیں:

وَالرَّمْز بِالصَّلَاةِ مَكْرُوهٌ كَأَن يكْتُبَ صَلْعَم ويشِيْرُ بِذَلِك إِلَى الصَّلَاةِ وَالسَّلَام فَالْحقُّ أَن يكْتُب بالتمامِ (المختصر فی علم الاثر: ۱۸۱)

’’درود لکھنے کے بجائے اس کی طرف رمز واشارہ مکروہ ہے ، جیسے کہ صلعم لکھے، اور اس سے صلاۃ وسلام کی طرف اشارہ کرے،حق یہ ہے کہ درود وسلام پورا لکھا جائے‘‘

مشہور محدث علامہ حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ(م۹۰۲ھ)لکھتے ہیں:

وَاجْتَنِبْ أَیُّہَا الْکَاتِبُ الرَّمْزَ لَہَا أَيْ لِلصَّلَاۃِ عَلٰی رُسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي خَطِّکَ، بِأَنْ تَقْتَصِرَ مِنْہَا عَلٰی حَرْفَیْنِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، فَتَکُونَ مَنْقُوصَۃً صُورَۃً، کَمَا یَفْعَلُہُ الْکُسَالَی وَالْجَہَلَۃُ مِنْ أَبْنَاءِ الْعَجَمِ غَالِبًا وَعَوَامُّ الطَّلَبَۃِ، فَیَکْتُبُونَ بَدَلًا عَنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ص، أَوْ صم، أَوْ صلم، أَوْ صلعم، فَذٰلِکَ لِمَا فِیہِ مِنْ نَّقْصِ الْـأَجْرِ لِنَقْصِ الْکِتَابَۃِ خِلَافُ الْـأَوْلٰی .(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث :۳؍۷۲)

”اے لکھنے والے!اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کروکہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے،جیسے سست لوگوں اوربہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص،صم،صلم یاصلعم لکھتے ہیں۔یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلافِ اولیٰ ہے۔”

 علامہ ابن حجر ہیتمی(م۹۷۴ھ)لکھتے ہیں:

وَکَذَا اسْمُ رَسُولِہٖ بِأَنْ یُّکْتَبَ عَقِبَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْخَلَفِ کَالسَّلَفِ، وَلَا یُخْتَصَرُ کتَابَتُہَا بِنَحْوِ صلعم؛ فَإِنَّہ، عَادَۃُ الْمَحْرُومِینَ .(الفتاوی الحدیثیّۃ : ۱۔۱۶۴)

”اسی طرح اللہ کے رسول کے نام کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہیے۔خلف و سلف کی یہی عادت رہی ہے۔’’صلعم ‘‘ کی طرح درود میں اختصار نہ کرے ؛ کیونکہ یہ محروم لوگوں کی عادت ہے‘‘

علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ(م ۷۴۳ھ )لکھتے ہیں :

وَأَنَّ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِبَارَۃٌ عَنْ تَعْظِیمِہٖ وَتَبْجِیلِہٖ، فَمَنْ عَظَّمَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَبِیبَہ،؛ عَظَّمَہُ اللّٰہُ، وَرَفَعَ قَدْرَہ، فِي الدَّارَیْنِ، وَمَنْ لَّمْ یُعَظِّمْہُ؛ أَذَلَّہ، اللّٰہُ، فَالْمَعْنٰی : بَعِیدٌ مِّنَ الْعَاقِلِ، بَلْ مِنَ الْمُؤْمِنِ الْمُعْتَقِدِ أَنْ یَّتَمَکَّنَ مِنْ إِجْرَاءِ کَلِمَاتٍ مَّعْدُودَۃٍ عَلٰی لِسَانِہٖ، فَیَفُوزُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ مِّنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَ، وَبِرَفْعِ عَشْرِ دَرَجَاتٍ لَّہ،، وَبِحَطِّ عَشْرِ خَطِیئَاتٍ عَنْہُ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَنِمْہُ حَتّٰی یَفُوتَ عَنْہُ، فَحَقِیقٌ بِأَنْ یَّحْقِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَیَضْرِبَ عَلَیْہِ الذِّلَّۃَ وَالْمَسْکِنَۃَ، وَبَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ عَادَۃُ أَکْثَرِ الْکُتَّابِ أَنْ یَّقْتَصِرُوا فِي کِتَابَۃِ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّمْزِ .(شرح المشکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاۃ : ۲۔۱۳۱)

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم ہے۔اورجو اللہ کے رسول اور حبیب کی تعظیم کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیاوآخرت میں اس کی شان بلند کر دیں گے۔اورجو آپ کی تعظیم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیں گے۔مطلب یہ کہ کسی عاقل،بالخصوص کسی ایسے پختہ اعتقاد والے مؤمن سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنی زبان پر چند کلمات جاری نہ کر سکے،جن کے بدلے وہ اللہ تعالیٰ کی دس رحمتوں کے حصول،دس درجات کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی سے بہرہ ور نہ ہو جائے۔پھر وہ اس غنیمت سے فائدہ نہ اٹھائے،حتی کہ درود اس سے رہ جائے۔ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے اور اس پر ذلت و مسکینی نازل کرے اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔اکثر کاتبوں کی عادت بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود لکھنے کے بجائے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔

علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمۃ(م ۱۳۵۳ھ) لکھتے ہیں:

وَاعْلَمْ أنَّ ما يُذْكَرُ وَيُكْتبُ لفظُ (صلعم) بدْلَ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَغَيْرُ مَرْضِيٍّ وَقَدْ شَنَعَ عَلَيْهِ أحمْدُ بنُ حَنْبَل.(العرف الشذی :۱۔۴۴۹)

’’جان لیجیے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو صلعم کا لفظ بولا اور لکھا جاتا ہے،وہ نا پسندیدہ ہے، امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے اس کی مذمت کی ہے ‘‘

حضرت مفتی شفیع صاحب علیہ الرحمۃ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۶۲ھ)کی ایک مجلس کی گفتگو کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”فرمایا کہ حضورﷺ کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اگر کسی نے صرف لفظ ”صلعم‘‘قلم سے لکھ دیا ،زبان سے درود سلام نہیں پڑھا تو میرا گمان یہ ہے کہ واجب ادا نہیں ہو گا،مجلس میں چند علماء بھی تھے،انہوںنے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ آج کل لفظ ”صلعم‘‘ پورے درود پر دلالت تامہ کرنے لگا ہے،اس لئے کافی معلوم ہوتا ہے،حضرت نے فرمایا: میرا اس میں شرح صدر نہیں ہوا،در اصل بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن خلق کے معاملہ میں اختصار کی کوشش اور کاوش ہی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔اگر آپ ﷺہمارے معاملہ میں اختصارات سے کام لینے لگیں تو ہم کہاں جائیں؟

احقرجامع(مفتی محمد شفیع )عرض کرتا ہے کہ جہاں تک کہ ضرورت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ضرورت اختصار کی،حضراتِ محدثین کو تھی، جن کی ہر سطر میں تقریبا حضورﷺ کا نام مبارک آتا ہے،مگر آپ ائمہ حدیث کی کتابوں کا مشاہدہ فرمالیں کہ انہوںنے ہر ہر جگہ نام مبارک کے ساتھ پورا درود و سلام لکھا ہے،اختصار کرنا پسند نہیں کیا۔(مجالس حکیم الامت: ۲۴۱)

  شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی علیہ الرحمۃ (م ۱۴۰۲ھ)لکھتے ہیں:

علماء نے اس بات کو مستحب لکھا ہے کہ اگر تحریر میں بار بار نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نام پاک آئےتو بار بار درود شریف لکھے، اور پورا درود لکھے، اور کاہلوں اور جاہلوں کی طرح ’’صلعم ‘‘ وغیرہ الفاظ کے ساتھ اشارہ پر قناعت نہ کرے، علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں چند حدیثیں بھی نقل کی ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور ﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کتاب میں میرا نام لکھے فرشتے اس وقت تک لکھنے والے پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے کوئی علمی چیز لکھے اور اس کے ساتھ درود شریف بھی لکھے، اس کا ثواب اس وقت تک ملتا رہے گا جب تک وہ کتاب پڑھی جائے گی۔(فضائل اعمال : ۷۶۴)

بریلوی مکتب فکر کے عالم محمد امجد علی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

”اکثر لوگ آجکل درود شریف کے بدلے صلعم ،عم، ؐ، ؑ،لکھتے ہیں،یہ ناجائزو سخت حرام ہے۔(بہارِ شریعت،حصہ سوم،ص : ۸۷)

ان تمام تحریروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک کے بعد کامل درود شریف لکھنے کے بجائے درود کے لئے استعمال ہونے والے مروجہ رموز کو لکھنا درست نہیں ہے اور یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ درود لکھنے کے موقع پر اسے نہ لکھ کر ان انعامات الہیہ سے محروم ہوجائیں جو اللہ عزوجل نے اپنے حبیب ﷺ پر دورد پڑھنے اور لکھنے والے کے لئے مقرر کیا ہے ۔

اسی طرح یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جس طرح درود کے لئے رموز کے استعمال سے بچناضروری ہے اسی طرح یہ بھی ناپسندیدہ اور قابل اجتناب ہے کہ اختصار کے پیش نظر درود وسلام میں سے صرف درود یا صرف سلام پر اکتفاء کیا جائے ۔علامہ محمد بن محمد ابو شہبہ (م۱۴۰۳ھ) لکھتے ہیں:

ويكره الاقتصار على الصلاة أو السلام في الكتابة، وفي كل موضع شرعت فيه الصلاة(الوسیط فی علوم ومصطلح الحدیث : ۱۲۹)

’’ تحریر میں یا جس موقع پر درود مشروع ہے اس موقع پر درود وسلام میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا مکروہ ہے‘‘

علامہ شمس الدین محمد بن عمر سفیری شافعی (۹۵۶ھ) لکھتے ہیں:

وإذا كتب الإنسان اسم النبي ينبغي أن يكتب معه – صلى الله عليه وسلم -، ويجمع بين الصلاة والسلام، ولا يقتصر على الصلاة فقط، بأن يكتب صلي الله عليه فقط، ولا يكتب وسلم فقط.حكي ابن عساكر عن من حدثه عن أبي العباس بن عبد الدايم قال   أنه حدثه في لفظه قال: كنت إذا كتبت في كتب الحديث وغيرها النبي أكتب لفظ الصلاة دون التسليم، فرأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في المنام فقال لي: تحرم نفسك أربعين حسنة قلت: وكيف يا رسول الله؟ قال: إذا جاء ذكري تكتب صلى الله عليه، ولا تكتب وسلم، وهي أربعة أحرف كل حرف بعشر حسنات، قال: وعدهن – صلى الله عليه وسلم – بيده.

’’ جب انسان نبی کا نام لکھے تو مناسب ہے کہ اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھے ، اور صلاۃ وسلام دونوں لکھے ، صرف درود پر اکتفاء نہ کرے اس طور پر کہ صرف ’’صلی اللہ علیہ ‘‘لکھے، اور نہ صرف ’’وسلم‘‘ لکھے (بلکہ پورا صلی اللہ علیہ وسلم ) لکھے ، ابن عساکر نے ابوالعباس بن عبد الدائم سے نقل کرنے والے سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ خود ابوالعباس بن عبد الدائم نے کہا کہ جب بھی میں حدیث کی کتابوں اور دیگر جگہوں پر نبی کا نام لکھتا تو ’’سلام‘‘ کے بجائے صرف درود لکھتا تھا ، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ، تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم خود کو چالیس نیکیوں سے محروم کرتے ہو، میں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ جب بھی میرا ذکر آتا ہے تو تم ’’صلی اللہ علیہ ‘‘ لکھتے ہو،اس میں ’’وسلم‘‘نہیں لکھتے ہو، اس میں چار حروف ہیں ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں، ابوالعباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے ہاتھ سے انہیں شمار کرکے بتایا ‘‘

اسی طرح کا ایک واقعہ حمزہ کتانی کے بارے میں بھی علم حدیث کی معتبر کتابوں میں مذکور ہے  کہ وہ بھی اختصار کے پیش نظر صرف ’’صلی اللہ علیہ ‘‘لکھتے تھے، علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ان کی بات کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قَالَ حَمْزَةُ الْكَتَّانِيُّ: كُنْتُ أَكْتُبُ عِنْدَ ذِكْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ دُونَ السَّلَامِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ لِي: مَا لَكَ لَا تُتِمُّ الصَّلَاةَ عَلَيَّ.   (تدریب : ۵۰۷)

حمزہ کتانی نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذکر کے وقت میں سلام کو چھوڑ کرصرف درود لکھا کرتا تھا ، تو میں نے نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ مجھ سے فرمارہے ہیں: تم مجھ پر درود کو پورا کیوں نہیں کرتے ہو؟

شرح التذکرہ والتبصرہ میں بھی حمزہ کتانی کا یہ واقعہ مذکور ہے اس میں مزید یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں نے جب بھی ’’صلی اللہ علیہ‘‘ لکھا تو اس کے آگے’’وسلم ‘‘بھی لکھا (شرح التذکرہ والتبصرہ: ۱؍۴۷۷ )

تبصرے بند ہیں۔