دریائے بھاگ متی کے کنارے

محمد عرفان ندیم

استنبول کو مسجدو ں کا شہر کہا جاتا ہے، کھٹمنڈومیں جتنے مندر ہیں اسے اگر مندرو ں کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہاں ہر گلی محلے میں آپ کو مندر اور اور دیوی دیوتا کے مجسمے مل جائیں گے۔نیپال شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے ذیادہ تعداد میں مندر پائے جاتے ہیں۔ ان کا طرز تعمیر بھی حیران کن ہے، یہ لکڑی، پتھر اور مٹی سے بنے ہیں، یہ تین تین اور چار چار منزلوں تک اونچے اور وسیع ہیں، پاٹن دربا ر جسے دربار اسکوئر بھی کہا جاتا ہے یہ کھٹمنڈو کا مرکزی چوک ہے اور یہاں مندروں کی پوری چین موجود ہے، تقریبا دو تین کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے یہ مندر انسان کو مبہوت کر دیتے ہیں۔

وادی نیپال کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے، دنیا کے قدیم مذاہب ہندو مت اور بدھ مت کا آغاز اسی وادی میں ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ  صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی یہاں دونوں مذاہب کے آثار موجود ہیں، دنیا کے قدیم ترین مندر اور بدھ مت کے اسٹوپا آج بھی یہاں محفوظ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک نیپال باقاعدہ ہندو ریاست تھی لیکن 2008سے اسے سیکولر ڈکلیر کر دیا گیا ہے۔اب یہاں اسی فیصد ہندو، نو فیصد بدھ مت، سات فیصد مسلمان اور باقی دیگر اقوام آباد ہیں۔

 ہم دربار اسکوئر، قدیمی دربار اور کھٹمنڈو کے بازاروں کی سیر سے لطف اندوز ہو چکے تھے اور آج کھٹمنڈو کے سب سے مشہور اور مقدس مند ر پشو پتی ناتھ مند ر دیکھنے کا ارادہ تھا۔یہ جمعہ کا دن تھا اور دھلی خیل میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، فیصلہ ہوا ہوٹل کے وسیع ہال میں ہی، جہاں کلاسز ہوتی تھیں نماز جمعہ ادا کی جائے، ڈاکٹر ماہان مرزا نے خطبہ اور امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور نماز جمعہ کے متصل بعد ڈیڑھ بجے ہم بسوں میں سوار ہو کر کھٹمنڈو کے مقدس ترین مندر پشو پتی مندر کی طرف رواں دواں تھے۔

یہ ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل یاد گار سفر تھا، دوست بسوں میں شعر و شاعری کا ذوق فرماتے رہے، انڈین دوستوں میں بھائی فیصل نذیر اور ذیشان، شعر کا اچھا ذوق رکھتے تھے، پاکستانی دوستوں کی نمائندگی تہامی بشر کرتے رہے، فیصل نذیر کا قہقہہ اس قدر بھرپور ہوتا تھا کہ پوری بس اس قہقہے کے ساتھ قہقہہ ملانے میں مجبور ہو جاتی تھی۔ میں مزاجا خاموش اور تنہائی پسند ہوں، میں خاموشی، تنہائی اور اداسی کا ملغوبہ ہوں اور یہ سارے عناصر میرے تخیل اور میری تحریر کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں، میں قہقہوں کے ساتھ بس کی کھڑکی سے چمٹ کر باہر کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہو رہا تھا۔باہر کے مناظر دلکش اور حسین تھے، وادی ء کھٹمنڈو چاروں طرف ہمالیہ پہاڑوں سے گھری تھی، کھڑکی سے باہر پہاڑ تھے، پہاڑوں پر سرسبز درختوں کا قالین پچھا تھا، نیچے گہری وادی میں چرتے ہوئے خوبصورت جانور تھے اور فضا میں گوتم بدھ کی سانسوں کی مہک اور مندروں کی گھنٹیوں کی آوازیں تھیں۔

تین بجے ہم پشو پتی ناتھ مندر کے سامنے بسوں سے اتر رہے تھے، گائیڈ نے ہمیں اکٹھا کیا اور مندر کی ہسٹری بتانا شروع کر دی۔ پشو پتی ناتھ مندر دریائے بھاگ متی کے کنارے واقع ہے اور دنیا بھر سے ہندو اس کی زیارت کے لیے کھینچے چلے آتے ہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک اس مندر کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے نزدیک کعبہ اور بیت اللہ کی ہے۔ ہندوؤں کے دو اہم مقدس مقامات میں سے ایک انڈیا کے شہر بنارس میں ”کاشی مندر“ اور دوسرا ”پشوپتی ناتھ مندر“ہے۔دریائے بھاگ متی اس کے بالکل ساتھ لیٹا ہوا ہے، کہنے کو یہ دریا ہے لیکن حقیقت میں چھوٹی سی نہر ہے جو آگے چل کر مزید سکڑ جاتی ہے اور دریا ئے گنگا اور جمنا میں جا گرتی ہے۔

 مندر کے چاروں جانب خوبصورت دروازے ہیں، دروازوں کے اوپر اور اطراف میں خوبصورت شبہیں اور دیوی دیوتاؤں کے مجسمے رکھے گئے ہیں، ہندوؤں کے علاوہ یہاں کسی کو داخلے کی اجازت نہیں، مین دروازے سے پہلے ایک سرخ لائن کھینچ دی گئی ہے جس کا مطلب ہے اس سے آگے غیر ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دریا کی ایک جانب پشو پتی ناتھ مندر ہے اور دوسری جانب درجنوں مندر، پگوڈے اور جھروکے تعمیر کیئے گئے ہیں۔ لوگ ہاتھوں میں کنگن، پیروں میں کڑے اور کانوں میں بالیاں پہنے یہاں گھومتے نظر آتے ہیں اوریہ منظر ہمارے مزاروں سے ملتا جلتا ہے۔

پشوپتی ہندو دیوتا شیوا جی کا نام ہے، پشو کے معنی ہیں زندگی اور پتی کا معنی ہے آقا، یعنی ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ دیوتا کائنات میں موجود ہر شے کا مالک ہے۔ یہ مندر 4 سو قبل مسیح میں بنایا گیا تھا، اس کے بعد مختلف ادوار میں اس کی شکست و ریخت کا سلسلہ جاری رہا، چودھویں صدی میں بنگال کے مسلم حکمران سلطان شمس الدین نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیاتھا۔ مسجد اور مندر کا معاملہ عقیدے سے تعلق رکھتا ہے، اگر یہ محض عمارتیں ہوتی تو کب کا وجود مٹ چکا ہوتا لیکن یہ مذہب اور عقید ت کا مسئلہ تھالہذا یہ آج بھی قائم ہے۔ بعد میں ملاّ(میم پر زبر کے ساتھ)حکمرانوں نے اسے از سر نو تعمیر کیا اور آج یہ دنیا بھر کے ہندوؤں کی عقیدتوں کا مرکز ہے۔

شروع میں یہ صرف ایک مندر تھا لیکن بعد میں اس کیسا تھ اور مندر تعمیر ہوتے رہے اور اب یہاں مندروں کی پوری ایک چین ہے۔ پندرویں صدی میں دیمک نے اس کی لکڑی کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھااس لیے اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور موجودہ بلڈنگ پندرویں صدی میں بنائی گئی تھی۔یہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ایک بہت بڑا کمپلیکس ہے جس میں کئی مندر، آشرم، مجسمے اور دیوی دیوتاؤں کے بت رکھے ہوئے ہیں۔ اس مندر پر منایا جانے والا سب سے بڑا تہوار”ماہا شیواراتری“ہے جو ایک دن جاری رہتا ہے اوردنیا بھر سے تقریبا دس لاکھ ہندو اس تہوار میں شرکت کرتے ہیں۔

یہ مندر کب اور کیوں بنا، گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ صدیوں قبل یہاں ایک کسان رہتا تھا، اس کے پاس بہت ساری گائیں تھیں جو سب دودھ دیتی تھیں، ان میں سے ایک گائے دودھ نہیں دیتی تھی، یہاں ایک چھوٹا سا پہاڑ تھا، ایک دن کسان گائیں اس پہاڑ پر لے کر آیا، اس نے دیکھا وہ گائے جو دودھ نہیں دیتی تھی اس نے اس پہاڑ پردودھ بہانا شروع کر دیا۔ وہ بہت حیران ہوا، وہ واپس پہاڑ کے پاس گیا اور اسے کھودنا شروع کر دیا، یہاں اس کی وفات ہو گئی اور لوگوں نے اس کی عبادت شروع کر دی۔ لوگ سمجھنے لگے یہاں کو ئی خدائی طاقت رہتی ہے، شروع میں یہاں ایک چھوٹا سا مزار بنا دیا گیا لیکن بعد میں اس جگہ کو شہرت ملتی گئی اور بادشاہوں نے اسے مندر میں تبدیل کر دیا۔

ہم تقریبا تین بجے یہاں پہنچے تھے اور سیاحوں کی کافی تعداد یہاں موجود تھی۔ دنیا بھر سے سیاح یہاں گھومنے کے لیے آتے اور دریائے بھاگ متی کے کنارے کھڑے ہو کر تصاویر بنواتے ہیں۔ دریا کے کنارے چتا(نعش) جلانے کے لیے شمشان گھاٹ بنے ہیں۔ یہ گول سائز کی جگہ ہوتی ہے اور اسے اینٹوں اور سیمنٹ سے پختہ کر دیا جاتا ہے۔ گائیڈ نے بتایا جو جگہ مندر کے جتنی قریب ہے وہ اتنی ذیادہ مقدس ہے اور وہاں صرف بادشاہوں، حکمرانوں اور وزیروں کی چتا جلائی جاتی ہے، جو جگہ مندر سے جتنی دور ہوتی جائے گی اس کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے گی۔ہم وہاں پہنچے تو ایک چتا کو جلایا جا رہا تھا، یہ بہت عجیب اور خوفناک منظر تھا۔

تبصرے بند ہیں۔