دعوتِ دین اور ہمارا رویہ

ڈاکٹر ابو معاذ ترابی

سارے مکتبہ فکر ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری دعوت دین ہے، سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے دنیا میں سربلند ہونے اور آخرت میں اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف دعوت دین کی ادائیگی سے مربوط ہے۔

دوسری جانب ہندوستانی سماج پر غور کریں تو یہاں چہار سو دعوت کے لیے مواقع دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ذہن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دعوت دین اتنا اہم فریضہ ہے اور اس فریضہ پر سب متفق بھی ہیں تو پھر دعوت دین کے لیے مواقع سے پر سماج میں رہتے ہوۓ  اس سے اتنی بے اعتنائی کیوں دیکھنے کو مل رہی ہے؟

دعوت دین پر جب دنیا و آخرت کی کامیابی منحصر ہے تو دعوت دین کا کام اتنا غیر منظم کیوں چلتا آرہا ہے؟

دعوت دین کی اگر اتنی اہمیت ہے تو دعوت کے لیے داعیان سازی و تربیت کا نظم ہر بستی میں ہونا چاہیے تھا، جبکہ ملک بھر میں خال خال نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں مدارس بے شمار ہیں لیکن ایک بھی ایسا مدرسہ نہی ہے جس کا نصاب و نظام دعوتِ دین کے لیے افراد سازی پر مرکوز ہے۔

ہندوستان میں (چند صوبوں کو چھوڑ کر) مدارس کو اردو کی بیڑیوں میں جکڑ کر کیوں رکھا گیا ہے جب ہدف غیر اردو داں قوم ہے؟

جب ہمارا یقین و دعوی ہے کہ اسلام ساری انسانیت کا مذہب ہے تو ہمارے معیاری علمی سرمائے آج تک اردو کی قید میں کیوں بند ہیں؟

علماء کرام کی بڑی تعداد کو  اردو کے علاوہ دوسری ہندوستانی زبان نہی آتی ہے ان کے لیے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ غیر اردو داں قوم کے سامنے توحید، رسالت و آخرت جیسے بنیادی موضوعات کو مؤثر انداز میں پیش کریں یا ان موضوعات پر مدعو قوم سے گفتگو کر سکیں۔ یا پھر نئ نسل کو اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے انسپائر کرسکیں۔

ہمارے نوجوان اسلامی اسکالرز (فارغین مدارس) کی تقریریں و تحریریں بھی نہ صرف اردو زبان میں ہوتی ہیں بلکہ موضوعات و اسالیب بیان بھی بالکل تقلیدی نظر آتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی تجربہ ہوتاہے کہ ایک اسکالر کی تقریر یا تحریر تو عمدہ ہوتی ہے لیکن کردار، برتاؤ اور معاملات کے معاملے میں بہت واضح کمیاں نظر آتی ہیں۔

دعوتِ دین کے کام کے لیے ضروری تھا کہ غیر مسلم قوموں سے ہمارے روابط اچھے ہوتے، ان کے سکھ دکھ  میں ہم شریک ہوتے۔ ان کے دلوں کو اعلیٰ اخلاق و کردار  سے متاثر کرتے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کے درمیان دعوت کا کام کرنے کی ضرورت ہے ان سے ہمارے روابط بھی بہت کمزور ہیں۔

دعوت  دین کے لیے یہ باتیں نہ صرف ضروری ہیں بلکہ بہت واضح بھی ہیں  اس لیے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ  کہیں ہمارے قول و فعل میں تضاد تو نہی؟ کہیں ہماری نیت و خلوص میں کمی تو نہی ہے؟  یا ہم محنت نہ کرنے اور قربانی نہ دینے کے لیے عذر تلاش کرچکے ہیں۔  یا پھر منصوبہ بندی اور طریقہ کار میں کمیاں و کوتاہیاں ہیں؟ یا پھر انگلی کٹا کر شہادت حاصل کرنے کی فراق میں ہیں؟

 سنجیدگی، سچائی و ایمانداری کے ساتھ جائزہ لینے و احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستانی مسلماں خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دعوت دین کا سنہری موقع عطا کیا ہے، یہاں دعوت کے مواقع قدم قدم پر ہیں لیکن ہم یا تو اس سنہری موقع کو پہچان نہی پاۓ یا پھر قدر نہی کر رہے ہیں۔ ہم نے اس موقع کو اب بھی غنیمت نہی سمجھا تو مبادا یہ موقع ہمارے ہاتھ سے چھین لیا جاۓ اور ہماری جگہ اللہ دوسری قوم برپا کردے اور ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ پچھتانا پڑے۔ لیکن تب پچھتانے کا کیا فائدہ۔۔۔۔!

تبصرے بند ہیں۔