اہل شام! ایک احساس ایک کرب
ملکؔ محی الدین
لب فرات کوئی حشرکربلا ہے میاں
نصیبجس کا لہوسے لکھا گیا ہے میاں
۔
شفق ہے خون شہیدان شام کی غماز
لہو کا پیاسا یہ عالم بنا ہوا ہے میاں
۔
اٹھاوں دست دعا میں تولب نہیں ہلتے
کہ چپ کھڑا ہوں میں الفاظ ہی نہیں ملتے
۔
ہو کیسے داد رسی کیسے چارہ سازی ہو
وہ شق پڑے ہیں جگرمیں سلے نہیں سلتے
۔
بدن میں گردش خوں دل میں اختلاج نہیں
وہ بےحسی کہ کہیں حرف احتجاج نہیں
۔
زمین تنگ ہے ناموس پارہ پارہ ہے
نہ جانے دشت ستم کا کہاں کنارا ہے
۔
خیال جاتا ہے جب شہر خوچکاں کی طرف
نگاہ اٹھتی ہے رہ رہ کے آسماں کی طرف
تبصرے بند ہیں۔