قتل: رحم کے جذبے سے!

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

کیا کویی مریض کسی لا علاج مرض کا شکار ہو اور شدید تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی خواہش پر، یا رشتے داروں کے کہنے پر، یا ڈاکٹر از خود فیصلہ کرکے اسے موت کی نیند سلا سکتا ہے؟ یہ سوال عرصے سے عالمی سطح پر بحث و مباحثہ کا موضوع بنا رہا ہے_  اس سلسلے میں ہندوستان کی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے پھر اس پر بحث و مباحثہ میں تیزی آگئی ہے _

رحم کے جذبے سے قتل کو اصطلاحی طور پر Euthanasia یا Mercy Killing کہا جاتا ہے _ اس کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:

Active Euthanasia:

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مریض کے صحت یاب ہونے کی توقع ختم ہوجائے تو اسے مہلک دواؤں کے ذریعے ختم کردیا جایے _

Passive Euthanasia :

اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کا شفا یاب ہونا بہ ظاہر ممکن نہ ہو، محض آلات اور دواؤں سے اس کی سانس کی آمد و رفت باقی ہو تو آلات ہٹا لیے جائیں اور دوائیں بند کر دی جائیں _

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں Passive Euthanasia کی اجازت دی ہے _ اس پر ملے جلے ردِّ عمل سامنے آرہے ہیں _ Active Euthanasia کے حامی اس فیصلے کو ناکافی قرار دے رہے ہیں تو بہت سے افراد اس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے انسان کے بنیادی حق کی بحالی قرار دے رہے ہیں ، یعنی وہ اپنی مرضی سے اطمینان و سکون سے مرنے کا حق رکھتا ہے _

اس سلسلے میں اسلام کا کیا نقطہ نظر ہے؟ اسے درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے :

1_ انسان اپنی جان کا مالک نہیں ہے _ اس لیے جس طرح اسے خود کشی کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنے کی ڈاکٹر کو اجازت دے _

2_ اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کے رشتے دار اس کی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کریں _ وہ ان کی ذمے داری قرار دیتا ہے کہ بیماری کی صورت میں وہ اس کا اچھے سے اچھا علاج کرائیں ، اس کی حتی المقدور تیمارداری کریں اور اس کی جتنی زندگی باقی ہے اس میں اس کی جتنی خدمت کرسکتے ہوں اس میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں _

3_ ڈاکٹر یہ رائے تو دے سکتا ہے کہ مرض قابلِ علاج ہے یا لا علاج؟ لیکن اسے یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ مریض کو زندہ رہنے دیا جایے یا اسے موت کی نیند سلا دیا جایے؟

4 _ڈاکٹر کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ مریض یا اس کے رشتے داروں کی خواہش پر اسے زہر کا انجکشن لگا دے، تاکہ وہ اپنی تکالیف سے نجات پاکر موت کی آغوش میں پہنچ جایے _

5 _ بسا اوقات انسان آلات اور دواؤں کے سہارے زندہ رہتا ہے _ آلات ہٹا دیے جائیں اور دوائیں بند کردی جائیں تو وہ موت کے منھ میں پہنچ جایے گا _ آلات کا ہٹانا اور دواؤں کا بند کرنا اس مقصد سے کہ مریض مر جایے، جایز نہیں _

6_ ڈاکٹر، اسپتال اور طبی ترقیات اس مقصد سے ہیں کہ مریض کی جان بچانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے _ ان کی طرف سے مریض کی جان ختم کرنے کی کویی کوشش ناقابلِ قبول ہے _

2007 اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سمینار منعقدہ اعظم گڑھ میں یہ موضوع زیر بحث آیا تھا _ بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرارداد منظور ہوئی تھی :

” شریعت اسلامی میں انسانی جان کی بڑی اہمیت ہے اور حتی المقدور اس کی حفاظت خود اس شخص کا اور دوسروں کا فریضہ ہے، اس لیے :

1_ کسی مریض کو شدید تکلیف سے بچانے یا اس کے متعلقین کو علاج اور تیمارداری کی زحمت سے نجات دلانے کے لیے عمداً ایسی تدبیر کرنا جس سے اس کی موت واقع ہوجائے، حرام ہے اور یہ قتلِ نفس کے حکم میں ہے _

2_ایسے مریض کو گو مہلک دوا نہ دی جایے، مگر قدرت کے باوجود اس کا علاج ترک کردیا جایے، تاکہ جلد سے جلد اس کی موت واقع ہوجائے، یہ بھی جایز نہیں ہے _”

اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر علاج معالجہ کے گراں بار مصارف برداشت کرنا مریض یا اس کے رشتے داروں کے لیے ممکن نہ ہو تو آلات کو ہٹایا اور دواؤں کو موقوف کیا جا سکتا ہے _

اس موضوع پر اسلامی نقطہ نظر کی تفصیل درج ذیل کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے :

* صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، مولانا سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نیی دہلی

* قتل بہ جذبہ رحم :نوعیتِ مسئلہ اور اسلامی نقطہ نظر، ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی

1 تبصرہ
  1. Abdul Raheem کہتے ہیں

    Bahut khub Mashaalĺah.

تبصرے بند ہیں۔