ہاں، میں شری شری روی شنکر ہوں!

نازش ہما قاسمی

جی ہاں میں ڈبل شری ہوں۔ میں جنوبی ہند کے تمل ناڈو کا رہنے والا ہوں۔ میری پیدائش ۱۹۶۵ میں ہوئی۔ میرے والد محترم کا نام وینکٹ رتنم تھا اور والدہ کا نام ویشالکشی تھا۔ میرا نام میرے والد نے شنکر اچاریہ سے متاثر ہوکر روی شنکر رکھا۔ روحانیت کی طرف میرا شروع سے ہی رجحان تھا میں نے چار سال کی عمر میں ہی بھگوت گیتا کے اشلوکوں کا پاٹھ کرنا اور ’دھیان‘ کرنا شروع کردیا تھا۔

ہاں میں وہی روی شنکر ہوں جسے میرے والد نے مہیش یوگی کو سونپ دیا تھا تاکہ میری روحانیت پروان چڑھ سکے۔ ہاں میں وہی ڈبل شَرّی روی شنکر ہوں جس نے آرٹ آف لیونگ فاونڈیشن کی بنیاد ڈالی۔ ۔۔وہی آرٹ آف لیونگ فاونڈیشن جو کہنے کو تو غیر سرکاری تنظیم ہے؛ لیکن آپ نے گنگا کنارے اس تنظیم کا وہ پروگرام بھی دیکھا ہوگا جس نے سرکاری تنظیموں کی مدد سے گنگا کو روشنی میں نہلا دیا تھا اور گنگا کا کنارہ مزید پراگندہ کردیا تھا۔۔۔ہاں میں وہی روی شنکر ہوں جس کا کہنا ہے کہ سانس جسم اور من کے بیچ ایک کڑی کی طرح ہے جو دونوں کو جوڑتی ہے، اسے من کو شانت کرنے کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے۔

ہاں میں وہی شرّی شنکر ہوں جس کا مشہور قول ہے ’میں کشیدگی اور تشدد سے پاک معاشرہ چاہتا ہوں۔ ۔۔ہاں میں مہنت ہوں، یوگی ہوں، روحانی پیشوا ہوں، درویش ہوں ؛ لیکن صرف کہنے تک۔ ۔۔میں کافی مالدار ہوں، درویش دنیا سے بے نیاز ہوتا ہے؛ لیکن میں دنیا کا طلب گار ہوں۔ ۔۔درویش کسی کی نہیں سنتا صرف اپنی کہتا ہے؛ لیکن میں فی الحال کسی اور کی سن رہا ہوں اور برسوں پرانے مدعے بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے کو حل کرنے کے لیے تگ ودو کررہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان شام نہ بنے۔ یہاں شام جیسے حالات پیدا نہ ہوں۔ ۔۔میں انسانیت کے لیے، ہیومنٹی کے لیے، مانوتا کے لیے ہندوستان میں نئی صبح دیکھنا چاہتا ہوں نہ کہ شام۔ میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ حل کرکے ہندوستان کو ایک خوش آئند صبح دیناچاہتا ہوں جہاں گنگا جمنی تہذیب کے زمزمے گائے جائیں۔ ۔۔اسی لیے میں نے مشورہ دیا کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار نہ کیاجائے۔۔۔عدالت کے فیصلے دونوں فریق کے لیے نقصان دہ ہوں گے اس لیے اس مدعے کو باہر حل کیاجائے۔۔۔اس تنازعے کو باہمی صلح ومشورے سے حل کیاجائے تاکہ ہندوستان شام نہ بنے۔ لیکن مسلمان بڑے ڈھیٹ ہیں۔ ۔۔میں جگہ جگہ دورہ کرکے اس تنازعے کو باہر حل کرنے کی کوشش کررہا ہوں ؛ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ۔۔اتنا بھی ہٹ دھرم نہیں ہوناچاہئے۔

کیا جاتا ہے مسجد کو منتقل کرنے میں ؟ بقول مفکرے فقہ حنبلی میں اسکی گنجائش بھی ہے۔ ۔۔کیا جاتا ہے مسجد کو بت خانہ میں تبدیل کردینے میں۔ ۔۔کچھ بھی تو نہیں جاتا اس حال میں کہ مسلمانوں کی اکثریت بے نمازی ہے۔۔۔جب نماز ہی نہیں پڑھتے تو مسجد لے کر کیا کرینگے مسلمان؟… میری کوشش ہے کہ کشت وخون کو روکنے کے لیے مسلمان بابری مسجد سے دستبردار ہوجائیں تاکہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو اور ملک ملکِ شام بننے سے بچ جائے۔۔۔اسی لیے میں کوشش کررہا ہوں۔ ۔۔لکھنو جارہا ہوں۔ ۔۔بریلی کا دورہ کرکے وہاں بے عزت ہورہا ہوں۔ ۔۔کونسلنگ کررہا ہوں … فارمولہ پیش کررہا ہوں۔ ۔۔خفیہ معاہدے کررہا ہوں اعلانیہ معاہدے کررہا ہوں تاکہ انسانیت بچ جائے۔ ۔۔خون خرابہ نہ ہو۔ہندوستان میں برما جیسے حالات پیدا نہ ہوں۔ ۔۔کاش مسلمان سمجھ لیتے۔۔۔میری باتوں کو سنجیدگی سے لے لیتے۔۔۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں۔ ۔۔اس مدعے کو باہر حل کرناچاہتے ہیں تو کرلیں۔ ۔بھلائی اسی میں ہے۔۔۔موہن بھاگوت نے کہہ ہی دیا ہے کہ ہماری فوج تین دن میں تیار ہوکر بارڈر پر پہنچ سکتی ہے اور میں بھی کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار نہ کریں۔ ۔۔نہیں تو زندگی کی شام ہونے میں دیر نہ لگے گی۔۔۔تمہارے مولانا سجاد نعمانی نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کو برما روہنگیا بنانے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔

وش کے ناخن لے لو؛ لیکن تم ان کی بات کو ان سنی کردیئے اور اب جب کہ میں نے یہ کہہ دیا کہ اگر بابری مسجد کا قضیہ باہر حل نہ کیا گیاتو ہندوستان شام بن جائے گا مجھ پر چڑھ دوڑے میں نے آخر کیا غلط کہا۔۔۔متنبہ ہی تو کیا ہوں جس طرح انہوں نے کیا تھا لیکن تم ان کی بات کو اڑا گئے اور مجھ پر طعن وتشنیع کرنے لگے۔۔۔تمہارے قائد نے گرفتار کرنے کی مانگ کرکے اس قضیے کو عدالت سے ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن کے لیے ملتوی کرنے کی مانگ کردی لیکن تم خاموش رہے ان کی باتیں تمہیں اچھی لگی حالانکہ وہ سیاسی چال ہے۔۔۔سیاست کے لیے تمہارے قائد اور ہمارے قائد اس مسئلے کو الجھا کر رکھناچاہ رہے ہیں تاکہ دونوں کی روٹی سینکی جاتی رہے۔ ۔بھاڑ میں جائے انسانیت۔۔۔بھاڑ میں جائے مانوتا۔۔۔۔جب تک ملک جلے گا نہیں۔ ۔۔ہندو مسلم ووٹ نہیں دے گا۔۔۔اسی لیے ملک کا مدعا ہندو مسلم ہے۔۔۔آپسی بھائی چارہ تو عنقا ہے۔ ۔۔اس کے لیے تگ ودو کرنا بے سود۔ پھر بھی کررہا ہوں تاکہ یہ ‘شام ‘نہ بنے۔ ہاں میں وہی ڈبل شَرّی شنکر ہوں جس نے مسلم پرسنل لا بورڈ کو کھلا خط لکھا ہے جس میں رقم کیا ہے کہ اگر اس تنازعے کا عدالت سے باہر حل نہیں نکلا تو بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد بھڑک سکتا ہے۔۔میں نے بہترین حل کے لیے تمام مسلم تنظیموں کو پکارا ہے۔

میں نے مولانا سلمان ندوی اور امام احمد بن حنبل کے مسلک کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ مسلمان سوچ لیں۔ ۔میں نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ مسجد انہیں نہیں سونپیں گے جنہوں نے بابری مسجد شہید کی ہے بلکہ ان ہندوستانیوں کو سونپیں گے جو ہندوستان کو امن کا گہوارہ دیکھناچاہتے ہیں اور آپ کا یہ سونپنا وسیع القلبی اور بھائی چارے کی اعلی ترین مثال ثابت ہوگی؛ لیکن پھر بھی لوگ میری باتیں نہیں مان رہے ہیں۔ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔ ۔۔مجھے کوس رہے ہیں۔ ۔۔خیر ان کا مقدر اپنا کام تو کسی کے کہنے کو انجام تک پہنچانا تھا پہنچادیا اب مسلمان جانیں اور ان کی تنظیمیں۔ ہاں میں نے کہا ہے کہ اگر عدالت فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرتی ہے تو پانچ سو سالوں سے رام مندر کی لڑائی لڑنے والے اکثریت کے لیے کڑوی گولی ہوگی ایسے حالات میں خون خرابہ ہوگا۔ مسلمان چونکہ امن پسند ہیں وہ دستبردار ہوجائیں اور عدلیہ کے فیصلے کا انتظار چھوڑ کر باہر فیصلہ کرلیں تاکہ ملک میں خون خرابہ نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایودھیا مسلمانوں کے لیے مرکز عقیدت نہیں ہے برخلاف ہندوؤں کے، وہ اس جگہ سے "دلّی،، تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے یہ بھی کہا ہے اگر کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو مسلمان خود کو ہارا ہوا محسوس کریں گے۔ اور عدلیہ پر سے ان کا یقین اُٹھ جائے گا۔ ہاں میں وہی شَرّی ہوں جس کے بارے میں ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی نے کئی بار سوال اٹھائے ہیں۔ وہ مجھے رام مندر کا ٹھیکیدار کہتے ہیں۔ ہاں میں ٹھیکیدار ہوں۔ مجھے اپنا کام کرنے دیں اور آپ اپنا کام کریں۔ ٹھیکیدار کام ہی تو کرے گا نا۔ ہاں میں وہی ٹھیکیدار ہوں جس کے بارے میں توقیر رضا خان نے کہا ہے کہ روی شنکر جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی انسانیت ہندوستان میں باقی ہے۔ ہاں میں وہی روی شنکر جو بہتوں کی آنکھوں کا کنکر ہے۔

میرے بارے میں شرد یادو کہتے ہیں کہ میں ایودھیا معاملے کو سلجھانے کے پیچھے ملک میں فساد کرانے کی کوشش کررہا ہوں۔ تو کیا یہ غلط ہے۔ امن آخر کب تک رہے گا.۔ ۔ہندوستان میں امن اب ناپید ہوچکا ہے۔ سبھی کو فساد کے لیے بے چین ہوجاناچاہئے اسی میں بھلائی ہے۔ اسلحے کیسے بکینگے۔ عالمی توجہ کیسے ہندوستان کو حاصل ہوگی۔ اس لیے ایسے حالات میں ملک میں فساد از حد ضروری ہے تاکہ انسانیت، مانوتا کو یہاں ہمدردی حاصل ہوسکے اور اکثریتی فرقے کی برسوں پرانی امیدیں برآئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔