میں جانتا ہوں حقیقت شناوری کیا ہے
ادریس آزاد
میں جانتا ہوں حقیقت شناوری کیا ہے
مگر بیاں کروں میری بساط ہی کیا ہے
۔
مرے عمل کا بھی خالق ہے تُو مرے مولا!
یہ اختیار ہے میرا تو بے بسی کیا ہے
۔
جیے تو پی کے جیے ورنہ پھر جیے نہ جیے
چلی ہے رسم تو یہ رسم پھر چلی کیا ہے
۔
میں اشکبارتھاڈُوبا تو خوش ہوا دریا
وہ جانتا تھا سمندر کی تشنگی کیا ہے
۔
میں شہرِ زہرِ تلذذ میں سانس لیتا ہوں
مجھے نہ کوئی بتائے کہ خودکشی کیا ہے
۔
وہ جس خدا کو اکیلا سمجھ رہے ہو تم
وہی تو سب کو سکھاتا ہے دوستی کیا ہے
۔
کہا جو میں نے الف کہہ ! تو ٹوک کر بولا
اگر یہ پہلا سبق ہے تو آخری کیا ہے؟
۔
مرے دہن سے نکلتے ہی رقص کرتا ہے
دھوئیں کو میرے تنفس سے دل لگی کیا ہے
۔
یہ کس طرح سے تعلق نبھا رہے ہو تم
ہمارے ساتھ تمہاری برادری کیا ہے
تبصرے بند ہیں۔