دعوتِ دین کے اصول و آداب

مولانا سید جلال الدین عمری

دعوت کے سلسلے میں بعض باتوں کی طرف آپ کو توجہ دلانے کی کوشش کروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں  کسی مجلس میں آئی ہوں اور اس سے پہلے بھی آتی رہی ہوں، لیکن جو باتیں زیادہ اہمیت کی ہوتی ہیں، ان کی طرف بار بار توجہ دلانا اور یاددہانی کرانا مفید ہوتا ہے۔

دعوت کا میدان وسیع ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت ہمیں اسی طرح محسوس کرنی چاہیے جیسے قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، جو اس امت پر ڈالی گئی ہے۔امت کا جو طبقہ بھی یہ کام کررہاہے وہ قابل قدر ہے۔ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے، بلکہ ان کی تائید ہی کرتے ہیں ۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہندستان میں جو مختلف طبقات ہیں ان میں کن کن میں قبولِ حق کی صلاحیت ہے۔  دعوتی مقصد سے یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ہمارا خطاب پورے ملک بلکہ پوری دنیا سے ہے۔ایسی صورت میں یہ رویہ نہیں اختیار کیا جاسکتا جس سے یہ تاثر قائم ہو کہ جماعت فلاں طبقہ یا فلاں علاقہ ہی کے لوگوں کے درمیان اپنا دعوتی کام کررہی ہے۔ اسلام کا مزاج تو ساری دنیا میں پھیلنے کا ہے۔ آپ کا تجربہ بتا رہا ہوگا کہ نچلے طبقات کے لوگوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا ہے اور اونچے طبقات کے لوگوں نے بھی ۔ اونچے طبقے کے لوگ اگر ساتھ دیتے ہیں تو اس کے اثرات بھی زیادہ ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ سماج پر زیادہ اثر ڈالتے ہیں ۔ اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ہر ایک تک پہنچیں، تاکہ ہر شخص دین کی حقیقت سے واقف ہوجائے اور پھر جورویہ وہ اختیار کرنا چاہے، کرے۔

دعوت کا میدان بڑا وسیع ہے

 رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہا گیا کہ آپ اعلان کردیجئے:

إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً۔ (الاعراف :158)

 ’’میں تمام انسانوں کے لیے اللہ کا رسول ہوں ‘‘۔

امت مسلمہ کے بارے میں کہا گیا :

  لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء  عَلَی النَّاس۔ (البقرۃ:143)

’’تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘

ظاہر ہے کہ جب یہ باتیں کہی گئیں تو اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ بہت سے لوگ اسے قبول نہیں کریں گے، لیکن مجموعی طور پر ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیے جس سے پتہ چلے کہ یہ اللہ کا دین تمام لوگوں کے لیے ہے ۔ اسے ہر فرد کا مسئلہ بنائیے۔ اللہ کا دین اگر کوئی ایک شخص قبول کرلے تو سماج کے اندراس کے ذریعہ بڑی تبدیلی آسکتی ہے، عدل و انصاف قائم اورظلم ختم ہوسکتا ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق مل سکتا ہے۔ قرآن خود کہتا ہے کہ اسلام کا ایک مقصد عدل و قسط کا قیام بھی ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد جو سب سے پہلا خطبہ دیا تھا،اس میں بہت وضاحت کے ساتھ انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ’’ میرابہ حیثیت خلیفہ انتخاب تو ہوگیا ہے، لیکن میں تم میں سے بہتر آدمی نہیں ہوں ۔ مجھ سے بہتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرا انتخاب کیا ہے ۔ تم میں سے جو کم زور ہے، وہ میرے نزدیک طاقت ور ہوگا،جب تک کہ میں اس کا حق نہ دلادوں ۔ اسی طرح تم میں سے جو طاقت ور ہوگا وہ میرے نزدیک کم زور ہوگا، جب تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق نہ لے لوں ۔‘‘

 دعوت کی جامعیت

اللہ تعالی کوایک ماننا، ایک حقیقت ہے۔ اس کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے بھی ہے اور سیادت، قیادت، اخلاقی و معاملاتی زندگی اور راست بازی سے بھی ہے۔ جواس کو نہیں مانے گا،وہ بالکل ایسے ہی نقصان میں رہے گا جیسے بجلی کے کھلے تار پڑے ہوں، بارش کا موسم ہواور کوئی شخص بتاتا ہوکہ آگے بڑھوگے تو کرنٹ لگ جائے گا۔ اب جو مانے گا وہ بچ جائے گا اور جو نہیں مانے گا وہ تباہ ہوجائے گا، چاہے وہ امیر ہویا غریب، اونچی ذات کا ہو یا نچلی ذات کا۔ اس لیے کہ کسی واقعہ کے بعداس کے ممکنہ نتائج سے نہیں بچاسکتا۔ اس لیے جس شخص سے بھی آپ بات کریں، اسے بتائیں کہ اس دین کو اختیار کرنے ہی میں تمہاری دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔ دنیا کی فلاح کا مطلب یہ ہے کہ اسے اختیار کرنے سے آدمی صاف ستھری زندگی گزار ے گا، جھوٹ کی جگہ سچ بولے گا، امانت و دیانت داری اختیار کرے گا اوراس کی وجہ سے اسے جو بھی نقصان ہوگااس کااجر اسے آخرت میں ملے گا۔

دعوتِ دین پیش کرتے وقت ہمیں آخرت پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مان رہے تھے یا اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے تھے، ان کے سامنے قرآن نے دلائل سے ثابت کیا کہ آخرت آئے گی، اس دن بھلے اور برے کے درمیان فیصلہ ہو گا۔ قیامت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب آدمی کے کاموں کا حساب ہوگا۔ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں، ان کو ڈرانے کے لیے یہ سب عقیدے گھڑ لیے گئے ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حالاں کہ اگرخدا ہے تو آخرت بھی ہے۔ آدمی خدا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ایک شخص خدا اورآخرت دونوں کا انکار کر سکتا ہے، لیکن خدا کو ماننے والا آخرت کا انکار نہیں کر سکتا۔

ملک کا طبقاتی نظام اور اسلام

 آپ جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہاں طبقاتی نظام (Cast System)ہے۔ مسلمان مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں، لیکن ان سے زیادہ طبقات اور گروہوں میں غیر مسلم بھائی بٹے ہوئے ہیں ۔ساری سیاست اسی پر چلتی ہے کہ ہماری برادری کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں ؟ اسی پر سارا زور صرف ہوتا ہے۔لوگوں کے درمیان جو اونچ نیچ کا تصور ہے اور جس کی وجہ سے ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کو مساوی حقوق (اگرچہ دستوری طور پر حاصل ہیں لیکن )سماجی طور پر حاصل نہیں ہیں، جسے ہم ہندو سماج کہتے ہیں، اس کے حوالے سے ہماری پالیسی میں ان کے اندرکی بعض ایسی کم زوریاں بیان کی گئی ہیں جن کا وہ انکار نہیں کرسکتے اور ان کے رہتے ہوئے کوئی اچھی سوسائٹی اس ملک میں وجود میں نہیں آسکتی۔ مثال کے طور پر ان کے ہاں ذات پات کا سسٹم ہے۔ اس کے تعلق سے ان کا اصرار ہے کہ یہ تو کاموں کی تقسیم تھی، حالاں کہ اگر کاموں کی تقسیم تھی، تو صلاحیت کے لحاظ سے ہونی چاہیے تھی، لیکن وہ ذات کے لحاظ سے آج بھی موجود ہیں ۔ کسی کا باپ اگر دھوبی ہے تو وہ بھی دھوبی ہوگا، اگرچہ وہ کتنا ہی پڑھ لکھ لے۔ اس طرح کی جو کم زور یاں ہیں وہ انسان کی عزت و وقار کے منافی ہیں، انہیں ختم ہونا چاہیے اور یہ تصور آنا چاہیے کہ سارے انسان برابر ہیں ۔قرآن اورحدیث میں یہی بات بہت وضاحت کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ فرق محض تعارف کے لیے ہے۔ سورئہ الروم میں کہا گیا ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ، زبان اور نسل کا جوبھی فرق پایاجاتا ہے وہ قدرت کی نشانیاں ہیں ۔اس کی وجہ سے انسانیت تقسیم نہیں ہوتی۔ (الروم :22)اور سورئہ حجرات میں کہا گیا ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں (چاہے وہ ہندستان میں ہوں یا ہندستان سے باہر،ایشیامیں ہوں یاافریقہ میں، یورپ میں ہوں یا امریکہ میں، چاہے جہاں ہوں، سب انسان ہیں اور ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ۔) ان کے درمیان اگر فرق ہو سکتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ ان میں سے کون شخص اللہ سے زیادہ ڈر کر زندگی گزارتا ہے۔

إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُم۔(الحجرات:13)

دین میں کوئی زبردستی نہیں

 آپ انہیں بتائیں کہ اسلام میں زور زبردستی، جبراوردبائو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قطع نظر اس کے کہ اگر یہ راستہ اختیار کیاجاتا تو بہت سے لوگ مسلمان ہوجاتے، لیکن ہمارے نزدیک یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اس طرح کے لوگ اس کے دامن میں آئیں گے تو سوسائٹی کو نقصان پہنچائیں گے اور کوئی شخص یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی سوسائٹی میں ایسے لوگ آئیں جو اس کو نقصان پہنچائیں ۔قرآن میں بہت تفصیل سے بتایاگیا ہے کہ جب منافقین مسلمانوں کے معاشرے میں آجاتے ہیں تو کیا خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ اس نے بہت وضاحت کے ساتھ کہاہے:

لا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم۔(البقرۃ:256)

’’ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے  اور جاننے والا ہے۔‘‘

لا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس طرح پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ کوئی مخصوص دین اختیار کرنے پرمجبور ہو ۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دین کے معاملے میں زور زبردستی نہیں کی جائے گی۔ اس کے اندر دونوں باتیں شامل ہیں ۔ اس کے بعدکہا گیا کہ گم راہی اور ضلالت، ہدایت اورسیدھا راستہ کیا ہے ؟یہ بات واضح ہو چکی ہے۔ہمارا موقف تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طاغوت اور خدا کی مخالف طاقتوں کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو ایک مضبوط رسی اس کے ہاتھ آجائے گی اوروہ ایسی رسی ہوگی جو اللہ تک پہنچانے والی ہوگی، جو کبھی ٹوٹے گی نہیں، لیکن اگر آدمی اس کا انکار کرتا ہے تو وہ اس دلیل اور اس رسی سے محروم ہوجائے گا جو اللہ تک پہنچاتی ہے۔

موجودہ حالات میں کہا جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گردی اورلالچ کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں ۔ یہ الزامات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔ جبر اََ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرلے تو اسلامی قانون کے لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ فقہاء نے بہت تفصیل سے اور میں نے اپنی کتاب ’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘ میں اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص یا فلاں گروہ نے میرے ساتھ زبردستی کی ہے اور مجھے میرے مذہب سے پھیر دیا ہے تواسلامی عدالت اس سے کہے گی کہ تم اپنے مذہب میں واپس جاسکتے ہو، پھروہ اس شخص کو سزا بھی دے گی جس نے اس کے ساتھ جبر کا معاملہ کیا ہے۔ یہ بات ہماری پالیسی میں تومختصراً کہی گئی ہے، لیکن دستور میں وضاحت کے ساتھ آئی ہے کہ ہم دعوت و تبلیغ کے لیے جبر کا راستہ اختیارنہیں کریں گے، بلکہ اسلامی تعلیمات کو رائے عامہ ہموار کرکے دنیا کے سامنے رکھیں گے۔

اسلام ہی دین حق ہے

اسلام دین حق ہے۔ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ حق ہے،وَقُلْ جَاء  الْحَقُّ(بنی اسرائیل:81) ’کہہ دو،حق آگیا‘۔ دوسری جگہ دین ہی کو حق کہا گیا ہے۔حق کا مطلب ہے ثابت شدہ حقیقت۔اسلام ثابت شدہ حقیقت ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے اسے حق کہا جاتا ہے۔ یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ آنی چاہیے اور موجودہ حالات میں اس کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

بہت سی جگہوں پر میرا جانا ہوتا ہے تو آرایس ایس والے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ نہ کہئے کہ ہم ہی حق پر ہیں ۔ اگرآپ ایسا نہیں کہیں گے تو ہم بھی کہیں گے کہ آپ بھی حق پر ہیں ۔میں نے کہا کہ یہ ایک غیر معقول بات ہے۔ اگرکوئی آپ سے پوچھ لے کہ آپ نے اسلام مذہب کیو ں قبول کیا ہے؟ تو اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے باپ دادا مسلمان تھے اور ایک ہزار سال تک اس ملک میں مسلمان حکومت کرتے رہے، اس لیے میں بھی مسلمان ہوں ۔لیکن آج کی دنیا میں یہ کوئی معقول اور مطمئن کرنے والا جواب نہیں ہوگا،اس لیے کہ یہ غیر عقلی جواب ہے۔اسی طرح یہ کہنا کہ سب مذاہب بر حق ہیں، غیر منطقی بات ہے۔ شرک اورتوحید ایک ہوجائیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ البتہ آپ کو یہ کہنے کا حق ہے کہ میں نے اسلام کو حق پایاہے، اسی کو میں صحیح سمجھتا ہوں اورعلمی دنیا میں اسے چیلنج کرنا آسان نہیں ہے۔

دوسرے مذاہب کے تعلق سے ہم غلط جذبات کا اظہار نہیں کرتے اور برے الفاظ میں ان پر تنقید بھی نہیں کرتے، لیکن یہ غیر معقول بات ہے کہ آپ کہیں کہ دوسرا بھی حق پر ہے اور ہم بھی حق پر ہیں ۔یہ غیر علمی اور غیر معقول بات ہے۔آپ کو بتانا ہوگا کہ ہمارایقین اور ایمان ہے کہ یہی حق ہے۔اس کے با وجود ہم کسی کے ساتھ زور زبر دستی کے قائل نہیں ہیں ۔ جس کا دل چاہے اسے قبول کرے اور جس کا جی چاہے قبول نہ کرے،لیکن یہ کہنادرست نہ ہوگا کہ ہم بھی حق پر ہیں اور آپ بھی حق پر ہیں ۔سب کو مل جل کر رہنا چاہیے، یہ الگ بات ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اس ملک میں بہت سے مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں تو مل کر ہی رہیں گے، لیکن وہ اپنے عقیدے کو ہی بدل دیں، یہ غیر عقلی اور غیر علمی رویہ ہے۔ جہاں کہیں موقع ہو، اس بات کی وضاحت ہماری طرف سے ضرور ہونی چاہیے کہ اسلام کو ہی ہم حق سمجھتے ہیں، لیکن اس کے لیے زور زبردستی والا راستہ اختیار نہیں کرتے۔ محض اس لیے نہیں کہ یہ ہماری پالیسی میں ہے،بلکہ اس لیے کہ جس قرآن پر ہمارا ایمان ہے اس کی بنیادی تعلیم ہی زور زبر دستی کے خلاف ہے۔ قرآن نے صاف صاف کہا ہے:

إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً۔(الدھر:3)

’’ہم نے انسان کو راستہ بتادیا ہے، چاہے تو وہ شکر گزار بندہ بن کر زندگی گزارے اورچاہے تو ناشکری کا راستہ اختیار کرے۔‘‘

اسلام اور تکریم انسانیت

 غیر مسلموں کے سامنے ہمیں تکریم ِانسانیت کا پہلو بھی ابھارنا چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ کوئی انسان ذلیل اور پست نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص اخلاقیات کے لحاظ سے پست ہے تو سمجھ میں بات آتی ہے، لیکن یہ تصور کرنا کہ ایک شخص فلاں گھرانے میں پیداہوا ہے، اس لیے پست ہے، یہ غلط بات ہے ۔انسان کو اللہ تعالی نے عظمت دی ہے:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا۔(بنی اسرائیل:70)

’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سوار یاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘

یہ اللہ کا کرم ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں انسانوں ہی کے لیے ہیں ۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ کہاہے۔ اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کو محترم بنایا ہے اور دنیا کے اندر اسے ذمہ دارانہ حیثیت دی ہے۔

لٹریچر سے فائدہ اٹھائیے

بعض چیزوں کے بارے میں آپ کو احساس ہوگا کہ ہمیں لٹریچر کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بہت سے مضامین اور کتابچے آپ کو ایسے ملیں گے جو اس موضوع پر آپ کی ر ہ نمائی کریں گے۔ مثلاََ ’عقل کا فیصلہ، سلامتی کا راستہ،بنائو اور بگاڑ‘‘۔ بنائو اور بگاڑ میں تو کچھ وقتی حالات کا اثرنظر آتا ہے، لیکن’ سلامتی کا راستہ‘ یا ’عقل کا فیصلہ‘ میں آپ دیکھیں گے کہ عمومی باتیں کہی گئی ہیں ۔ اسی طرح ’زندگی بعدموت‘ نامی کتابچہ سے بھی ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔میرا ایک کتابچہ ’وحدت بنی آدم ‘کے نام سے ہے۔ وہ اردو میں تو چھپ ہی رہا ہے، اس کے علاوہ انگریزی، ہندی اوردیگر کئی علاقائی زبانوں میں بھی شائع ہورہا ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس موقع پرجو باتیں عرض کی گئی ہیں، ان پر مجھے بھی اور آپ کو بھی غور کرنے کی توفیق دے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    میرے نزدیک۔۔۔۔۔کسی بھی سوچ، عقیدے یا طرز عمل کے "رد” میں ہم جتنی رگیں پھلاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ مستحسن ہے کہ ہم اپنے نقطہ نظر کو معقولیت اور محبت کے ساتھ دعوت کے طور پہ پیش کریں اور فیصلہ دوسروں کی صوابدید پر چھوڑ دیں۔ اگر آپ کو اپنی بات کی صحت پہ یقین ہے تو پھر تسلی رکھیں کہ آپ خیر کے پھیلاؤ کا باعث ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔